مقالہ جات

حزب اللہ ، تکفیریت و صیہونیت کے مقابل

بسم اللہ الرحمن الرحیم

تحریر: ساجد حسین ساجد

عراق کے شہرتکریت کے اندر ہونے والی پیش قدمی نے مجھے ورطہ حیرت میں ڈال رکھاہے، بات اگر صرف مخصوص ویب سائٹوں یا سوشل میڈیا کے کسی معینہ سرکل میں ہونے والی بحث کی ہوتی تو ہم مان لیتے کہ یہ لوگ جانبداری سے کام لے رہے ہیں لیکن اب کی بار تو بحر حیرت میں غوطہ زن ہونا بے جا نہ تھا کہ امریکی اور برطانوی خبر رساں ادارے بھی ان خبروں کی نہ صرف تائید کرتے نظر آتے ہیں بلکہ اس دفعہ ان کی خبروں میں ایرانی اسلحہ اور حزب اللہ کا ذکربھی نظر آیا ۔ کل تک جو ادارے داعش کے جنگجوئوں کی تعداد بڑھا چڑھا کر اور ان کی معمولی سی کامیابی کو شہ سرخیوں میں جگہ دیتے آئے ہیں آج ان کی خبروں کے عناوین میں ایک واضح تبدیلی دیکھنے کو ملی ہے۔

آج تک ان کی خبروں کا مقصدفقظ یہ تھا کہ اس تکفیری ٹولے کے پاس بے پناہ طاقت ، دولت کے انبار ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں ان کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ دنیا کے ہر کونے سے حسین دوشیزائیں ان کے فراق میں بے قرار ان کے پاس کھچی چلی آ رہی ہیں۔ یہ ادارے اب تک یہ ثابت کرنے کی کوشش میں لگے رہے ہیں کہ یہ ایسا واحد عسکری گروہ ہے جس میں جنگجوئوں کا باقاعدہ ریکارڈ رکھا جاتا ہے اور جنگ میں ہلاک ہونے والے دہشت گردوں کے خاندانوں کو خطیر رقم دی جاتی ہے کہ جس رقم کے سبب سے وہ خاندان اپنی مالی حیثیت کو قابل بیان حد تک بہتر بنا لیتے ہیں۔ ابو بکر البغدادی کو خلیفۃ المسلین کا لقب دے کر یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ یہ گروہ پوری اسلامی دنیا پر قبضہ کرنے ،اس کو برقرار رکھنے اور اسلامی دنیا کوحکومت واحد میں تبدیل کر کے اس کو چلانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ان خبروں کے ذریعے ابو بکر البغدادی جیسے نام نہاد مسلمان اور بد نام زمانہ دہشت گرد کو ایک نا قابل شکست ہیرو کے طور پر پیش کیا جاتا رہا۔ مجھے ایسا لگتا ہےکہ پوری دنیا میں اس گروہ کے مظالم پر ہونے والی تنقید کے جوابات کا ٹھیکہ بھی انہی خبر رساں اداروں کی انتظامیہ اور ان کے کالم نگاروں نے اٹھا رکھا ہے۔ اس گروہ کا مکمل تعارف ،ان کے اہداف و مقاصد انہی اداروں کی ویب سائیٹس پر ملیں گے۔اس گروہ کی طرف سے خطے کے شیعہ و سنی مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم اور بے دریغ قتل عام کے بعد ہونے والی تنقید اور اس کے سبب سے پھیلنے والی نفرت کے سد باب کیلئے بھی انھی اداروں کی کوششیں کسی بھی عقل مند انسان کی چشم سے پوشیدہ نہیں ہیں جیسا کہ بی بی سی کا یہ تجزیہ کہ اس ٹولے کے مقاصد میں صرف مسلمانوں کا قتل عام نھیں بلکہ یہ گروہ اردن اور شام کی سرحدوں کو مٹا کر ایک ملک بنانے کے بعد اسرائیل پر حملہ کرتے ہوئے بیت المقدس آزاد کرانے کا قصد رکھتا ہے۔

جبکہ گذشتہ چند روز میں موصول ہونے والی خبریں ، تصاویر اور تجزیئے اس صورت حال کو عیاں کرتے ہیں کہ عراقی فوج اور عوامی قبایل کے ساتھ حزب اللہ کے جوان پیش پیش ہیں جن کے آنے سے جنگ میں واضح پیش قدمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ تصاویر میں نظر آنے والے داعشی جنگجوئوں کی لاشوں کے ڈھیر ، جن کا ریکارڈ داعش کے پاس موجود ہے کے لواحقین کو مالی امداد مل پائے گی؟

بالکل اسی طرح جب شام میں حزب اللہ شامی فوج کی مدد کیلیئے میدان میں اتری تو تکفیری دہشت گردوں کو اپنے جنگجوئوں کی ان گنت لاشیں چھوڑ کر پسپائی اختیار کرنی پڑی تھی، اس ساری صورت حال میں حز ب اللہ کا کردار سب سے نمایاں ہے، ایک عسکری جماعت کہ جس میں چار سے پانچ ہزار جنگجو شامل ہیں ، جب وہ شام میں باغیوں کے خلاف شامی فوج کی مدد کو اتری تو کچھ ہی عرصے میں شام کے اکثر علاقوں سے دہشت گردوں کا صفایا کر دیا اور اس کے بعد جب عراق میں عراقی فوج کی مدد کو آئی تو ایسا کام کیا جیسا لشکر امیر المومنین نے جنگ نہروان میں خارجیوں کے ساتھ کیا تھا ۔ اس سارے کھیل میں اسرائیل کا کردار بھی کسی ذی شعور کی چشم بینا سے پوشیدہ نہیں۔

اس نے گمان یہ کیا کہ حزب اللہ شام اور عراق میں تکفیریوں کے ساتھ بر سر پیکار ہونے کی وجہ سے اسرائیل کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت سے ہاتھ دھو بیٹھی ہے اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے کہ اب وقت آن پہنچا جب حزب اللہ کو صفحہ ہستی سے مٹایا جا سکتا ہے اور اسی زعم میں حزب اللہ کی ایک گاڑی پر میزائل فائر کیا جس میں شہید عماد مغنیہ کا بیٹا جہاد مغنیہ اپنے چار ساتھیوں سمیت ، شھادت کے درجہ پر فائز ہوا لیکن اسرائیل کی یہ خام خیالی اس وقت دور ہو گئی جب حزب اللہ نے حملہ کرکے اسرائیل کے پندرہ فوجیوں کو جہنم واصل کرتے ہوئے یہ پیغام دیا کہ حزب اللہ آج پہلے سے کہیں زیادہ طاقت کے ساتھ اسرائیلی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

حزب اللہ کی تاریخ گواہی دیتی ہے کہ ان کے جوان اپنے قائد سید حسن نصر اللہ کے ہر لفظ پرمن و عن عمل پیرا ہو کرآ ج حزب اللہ کو اس مقام پر پہنچانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ آج حزب اللہ کے جوان نہ صرف اپنے ملک کی سرحدوں کی حفاظت کر رہے ہیں بلکہ پوری تکفیریت اور صیہونیت عراق اور شام میں ان کے ہاتھوں خاک چاٹنے پر مجبور نظر آتے ہیں۔

 

متعلقہ مضامین

Back to top button