پاکستان

علامہ سید ساجد علی نقوی نے ملک بھر میں دہشت گردی کے پہ در پہ واقعات کی شدید الفاظ میں مذمت

سانحہ مسجد امامیہ حیات آباد پشاور کے حوالہ سے اپنے ایک روزہ دورہ پشاور کے مو قع پر علامہ سید ساجد علی نقوی نے صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی جانب سے دہشتگردی کی روک تھام کے حوالے سے تیار کردہ نیشنل ایکشن پلان کے بعد مسلمانوں کے ایک اہم مکتبہ فکر اہل تشیع کے خلاف دہشتگردی کے پے در پے واقعات لمحہ فکریہ اور نیشنل ایکشن پلان پر کڑا سوالیہ نشان ہے۔ جبکہ حکومت کا ان واوقعات کے اصل محرکات اور پس پردہ عناصر کے بارے میں معلومات کو تا حال منظر عام پر لا کر دہشتگردوں کو کیفر کردار تک نہ پہنچانا بھی دہشتگردی کیخلاف حکومتی پالیسیوں کی غیر سنجیدگی کی عکاس ہے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے حکومتی ذرائع نے بتایا تھا کہ ملک میں دہشتگردی کی روک تھام کے حوالے سے 33حکومتی ایجنسیاں فرائض منصبی انجام دے رہی ہیں۔ جبکہ وزیر داخلہ کے حالیہ بیان میں ان کی تعداد 26بتائی گئی ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ یہ ایجنسیاں کہاں ہیں ؟َ اور کیا کام کررہی ہیں؟ دہشتگرد کہاں سے آتے ہیں ان کی تربیت ساز فیکٹریاں کہاں ہیں؟ اور ان کے معاون کار یا سہولت کار کون ہیں؟ اس بارے میں حکومت کی زبان کیوں گونگ ہے؟ اور ان کی روک تھام کیلئے اقدامات کیوں نا کام ہیں؟ انہوں نے کہا کہ مساجد و دیگر مذہبی عبادتگاہوں میں دھماکوں نے دہشتگردوں کے عزائم بے نقاب کر دیئے ہیں۔ انہوں نے حکومتی نیشنل ایکشن پلان کی پوزیشن واضح کرنے اور دہشتگردوں کیخلاف آہنی اقدمات اٹھا کر ان کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ بھی کیا۔ قبل ازیں قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے سانحہ مسجد حیات آباد کا دورہ کیا اور شہداء کے لواحقین سے اظہار تعزیت کیلئے ان کی رہائش گاہوں پر گئے۔ جبکہ انہوں نے سی ایم ایچ ہسپتال میں زخمیوں کی عیادت بھی کی۔ اس موقع پر ان کے ہمراہ شیعہ علماء کونسل پاکستان کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات زاہد علی اخونزادہ ،ضلعی صدر مجاہد علی اکبر اور دیگر زعماء قم بھی موجود تھے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button