پاکستان

جامعہ حفصہ میں ’قید‘ طالبہ کو عدالت نے گھر بھیج دیا

اسلام آباد: جامعہ حفصہ میں مبینہ طور پر قید چھبیس برس کی نوجوان خاتون نے پیر کے روز ایک مقامی عدالت میں پیش ہوکر اپنے بیان میں کہا کہ وہ اپنے والد کے ساتھ گھر جانے کے لیے تیار ہیں۔

اس مدرسے کی سربراہ اُمِّ حسان بھی عدالت میں پیش ہوئیں اور کہا کہ اگر عظمیٰ قیوم گھر جانا چاہتی ہے تو انہیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا ۔

29 دسمبر 2014ء کو شیخ محمد قیوم نے اپنی بیٹی کی بازیابی کے لیے ایک درخواست سپریم کورٹ کے انسانی حقوق کے سیل میں دائر کی تھی۔ محمد قیوم نے الزام عائد کیا تھا کہ ان کی بیٹی کو جامعہ حفصہ میں قید کرکے رکھا گیا ہے۔
عظمٰی کے والد کا کہنا تھا کہ ان کی بیٹی نے چند سال پہلے راولپنڈی میں جامعہ بنتِ عائشہ کے ایک چار سالہ مذہبی کورس میں داخلہ لیا تھا۔ 16 جون 2014ء کو عظمی اس مدرسے گئی، لیکن گھر واپس نہیں لوٹی۔ بعد میں انہیں معلوم ہوا کہ وہ جامعہ حفصہ میں ہے۔

محمد قیوم نے الزام عائد کیا کہ ان کی بیٹی مولانا عبدالعزیز کی اہلیہ اُمِّ حسان کے ساتھ جامعہ حفصہ گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ اُمِّ حسان باقاعدگی کے ساتھ جامعہ بنت عائشہ کا دورہ کرتی تھیں اور 2013ء سے ان کی بیٹی کے ساتھ رابطے میں تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنی بیٹی کی بازیابی کے لیے مذہبی شخصیات اور پولیس سمیت تمام ممکنہ ذرائع کا استعمال کیا، لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

سپریم کورٹ نے سیشن جج نذیر احمد جنجوعہ کو اس معاملے کی تفتیش اور ایک رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا۔ فاضل جج نے مذکورہ خاتون کو پہلے دارالامان بھیجا، اور پھر بے نظیر بھٹو ویمن شیلٹر ہوم، اس کے بعد سیکٹر ایچ-8 پر قائم کرائسز سینٹر بھیج دیا۔
دو ہفتوں کے بعد عظمیٰ کو پیر کے روز عدالت میں دوبارہ پیش کیا گیا۔ اُمِّ حسّان کو بھی عدالت نے طلب کیا تھا۔

شیخ محمد قیوم کے وکیل محمد حیدر امتیاز نے ڈان کو بتایا کہ عظمی کے والدین نے ان کے ساتھ شیلٹر ہوم پر متعدد مرتبہ ملاقات کی تھی، لیکن انہوں نے اپنے والدین سے کہا تھا کہ وہ اُمِّ حسان کی مرضی کے بغیر ان کے ساتھ نہیں جائیں گی۔

اُمِّ حسّان نے عدالت کو بتایا کہ وہ ایک فلاحی تنظیم چلارہی ہیں اور اگر کوئی پناہ مانگتا ہے تو وہ انکار نہیں کرسکتیں۔

ایڈوکیٹ حیدر امتیاز نے کہا ’’اُمّ حسان نے یہ بھی کہا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ وہ لڑکیوں کو گھر سے بھاگنے میں ان کی مدد اور پھر ان کی شادی کا انتظام کرتی ہیں۔‘‘
فاضل وکیل نے مزید کہا کہ ’’اُمّ حسان کا کہنا تھا کہ اگر یہ خاتون اپنے خاندان کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتی ہیں تو انہیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔‘‘

عظمیٰ نے عدالت کو بتایا کہ وہ گھر جانا چاہتے ہیں، لیکن ان کے گھروالوں کو ان کی شادی کے لیے ان کی رضامندی حاصل کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ وہ شریعت کی تعلیم حاصل کرنا اور ایک ٹیچر بننا چاہتی ہیں۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر وہ جامعہ حفصہ جانا چاہیں اور اپنی سہیلیوں اور اُمّ حسان سے ملاقات کرنا چاہیں تو ان پر گھروالوں کی طرف سے کوئی پابندی نہیں ہونی چاہیے۔

ایڈوکیٹ حیدر امتیاز نے کہا کہ عظمٰی کے والد نے ایک حلف نامہ عدالت کو جمع کرایا ہے کہ وہ اپنی بیٹی کو مجبور نہیں کریں گے اور اس کواجازت دیں گے کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارے۔

انہوں نے کہا کہ ’’یہ مقدمہ اب ختم کردیا گیا ہے اور اب یہ عدالت ایک رپورٹ تیار کرے گی، جسے سپریم کورٹ کو ارسال کردیا جائے گا۔‘‘
محمد قیوم نے ڈان کو بتایا کہ وہ اپنی بیٹی کی بازیابی کے لیے پچھلے کئی مہینوں سے کوشش کررہے تھے۔

انہوں نے کہا ’’میں اپنی بیٹی کی راہ میں رکاوٹیں نہیں کھڑی کروں گا اور اس کی شادی اس کی پسند کے شخص کے ساتھ کی جائے گی۔‘‘

متعلقہ مضامین

Back to top button