سعودی عرب

آل سعود کی جانب سے شیخ باقر النمر کو سزائے موت اور اس پر عالمی تنقید اور ردعمل

سعودی عرب کے نامور عالم دین شیخ باقر النمر کو عدالت کی جانب سے سزائے موت کا حکم سنائے جانے کے بعد سے دنیا بھر میں اس کی مذمت کا سلسلہ جاری ہے اور سعودی عرب کے مختلف علاقوں میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے اور مظاہرین نے سعودی عرب کی عدالتوں میں انصاف کے فقدان کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے سعودی عرب کے نامور عالم دین شیخ باقر النمر کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ اس موضوع پر ہمارے ساتھی نے عالمی امور کے تجزیہ نگار پروفیسر شمیم اختر سے گفتگو کرتے ہوئے پہلے ان سے پوچھا کہ شیخ باقر النمر کو عدالت کی جانب سے سزائے موت کا حکم سنائے جانے کے بعد عالمی سطح پر اس کی مذمت کی گئی لیکن اس کے باوجود سعودی عرب نے ان کی سزائے موت کو ختم نہیں کیا۔ کیا سعودی عرب عالمی قوانین کی پاسداری کرنا نہیں چاہتا یا پھر اس نے تہیہ کر لیا ہے کہ شیخ باقر النمر کی سزائے موت کو برقرار رکھنا ہے؟ اس پر ان کا کہنا تھا

پروفیسر شمیم اختر کا انٹرویو سننے کے لیے نیچے میڈیا پلیئر پر کلک کیجیے۔
دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح اسلامی جمہوریہ ایران کے بعض صوبوں کے حوزہ ہائے علمیہ اور ادارۂ تبلیغات اسلامی نے الگ الگ بیانات میں سعودی عرب کے ممتاز شیعہ عالم دین شیخ باقر نمر کی سزائے موت کے فیصلے کی مذمت کی۔ ان بیانات میں کہاگیا ہے کہ شیخ باقر نمر کوسزائے موت سنائے جانے کی وجہ یمن، شام ، لبنان اور عراق کے مسلمانوں کی مسلسل کامیابیاں اور ان کے مقابلے میں اسلام دشمنوں کی ناکامی ہے۔ حوزہ ہائے علمیہ کے بیان میں شیخ باقر نمر کی سزائے موت پر مبنی سعودی عرب کے عدالتی فیصلے کی مذمت کی گئی ہے اور اس فیصلے کو منسوخ کۓ جانے کا مطالبہ کیا گيا ہے۔ اسی طرح عراق کے وزیر خارجہ ابراہیم جعفری نے سعودی عرب کی حکومت کے مخالف عالم دین شیخ باقر نمر کی سزائےموت رکوانے کی کوششیں شروع کرنے کی خبر دی ہے۔ عراقی وزیر خارجہ ابراہیم جعفری نے کہا کہ ان کے ملک نے سعودی عرب کی حکومت کو معروف شیعہ عالم دین شیخ نمر باقر النمر کی سزائے موت سے اجتناب کرنے پر راضی کرنےکی کوشش شروع کر دی ہے۔ ابراہیم جعفری نے مزید کہا کہ صدر مملکت فؤاد معصوم اس سلسلے میں عنقریب سعودی عرب جائيں گے۔ آل سعود کی حکومت نے اپنے مخالفین کو کچلنے اور ان سے انتقام لینے کے لۓ معروف شیعہ عالم دین آیت اللہ شیخ نمر باقر النمر کو پندرہ اکتوبر دو ہزار چودہ کو موت کی سزا سنائی۔ علاقائی اور عالمی سطح پر آل سعود کے اس عدالتی فیصلے کے خلاف سخت رد عمل سامنے آیا ہے۔
آل سعود کی حکومت نے شیخ نمر باقر النمر کو ایک ایسے وقت میں حکومت کے خلاف تحریک چلانے اور عوام کے حقوق کیلئے آواز بلند کرنے کی وجہ سے موت کی سزا سنائی ہے کہ جب مشرق سے لے کر مغرب تک دہشتگردی کے تمام واقعات میں سعودی عنصر صاف دیکھا جا سکتا ہے۔ سعودی عرب اور دہشتگردی کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ سعود خاندان دراصل عالم اسلام میں نفاق اور افتراق ڈالنے کا ہدف لیکر ہی اقتدار میں آیا تھا اور آج تک اسی منحوس پالیسی پر کاربند ہے۔ القاعدہ، طالبان، النصرہ اور داعش کی بھرپور حمایت اور مدد کے باوجود سعودی عرب کے امریکہ اور مغرب کے ساتھ تعلقات اعلٰی سطح پر قائم ہیں، جبکہ اسی حمایت کی عالم اسلام کو آج تک سزا دی جا رہی ہے۔
جس طرح ابھی اپنی گفتگو میں پروفیسر شمیم اختر نے کہا کہ سعودی عرب کی مطلق العنان ڈکٹیٹر حکومت نے اس ملک کے معروف شیعہ عالم دین آیت اللہ شیخ باقرالنمر کو موت کی سزا کا حکم سنا کر ثابت کر دیا کہ یہ ملک اسلامی نہیں ہے، اس لئے کہ ایک اسلامی ملک میں ایک با کردار باصلاحیت اور معروف عالم دین کو موت کی سزا نہیں ہو سکتی۔ ان کے بقول اپنے آپ کو اسلام کا قلعہ کہنے والا سعودی عرب عالمی استکبار کی سازشوں کا شکار ہے اور علاقے اور عالمی سطح پر امریکی اور صہیونی پالیسیوں کا رکھوالا بن گیا ہے۔
سعودی عرب کے لوگ ملک میں وسیع پیمانے پر اصلاحات چاہتے ہیں۔ لیکن حکمران اصلاحات پر آمادہ نہیں، سعودی عرب کا حکمراں خاندان یا صاحب اختیار افراد ملک میں سیاسی اصلاحات نہیں چاہتے اور اِس مسئلے سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنا چاہتے ہیں، لیکن اس ملک کے عوام نے تہیہ کر لیا ہے کہ آل سعود کی اِس بے حسی کا جواب جدوجہد ہے اور حکومت کے خلاف آواز اُٹھانے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے اس لئے کہ حکومت نے تہیہ کر لیا ہے کہ وہ اقتدار سے علیحدہ نہیں ہوگی جبکہ عوام ملک میں عدل و انصاف اور قانون کی بالادستی چاہتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button