پاکستان

سرنگ کھودنے والے دیوبندی دہشتگردوں کا جیل میں ٹیکنیکل ماہرین سے مسلسل رابطہ تھا

سندھ میں سکیورٹی، لاقانونیت، انسانی حقوق اور قواعد و ضوابط کی سنگین خلاف ورزیوںکرنے کے حوالے سے سندھ کی جیلوںکی کہیں بھی میں مثال ملنا مشکل ہے۔ انہیں میں شامل کراچی کی سینٹرل جیل میں قیدیوں کو غیر قانونی مراعات کی فراہمی کے حوالے سے ’’جتنا گڑ ڈالو اتنا میٹھا‘‘ کی مثال کے عین مطابق ہے۔ یعنی وہاں پیسہ خرچ کرکے قیدی دنیا کی کوئی بھی جدید ترین اور ممنوع ترین سہولت حاصل کرسکتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق قیدیوں کو چھڑانے کی مبینہ سازش دہشت گردوں نے جیل پر بم حملوں کی خفیہ اطلاعات پہنچا کر تیار کی تھی جس کے تحت اس گروہ نے موبائل فونز پر سینٹرل جیل توڑنے کی ڈمی گفتگو کرکے سیکورٹی اداروں کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا۔ جس کے بعد سرکاری ادارے جیل کے اطراف کی دیواریں تعمیر کرتے رہے، جیل میں جامر لگا دیئے گئے یہاں تک کہ اطراف میں بھی سیکورٹی میں اضافہ کردیا گیا لیکن دیوبندی دہشت گردوں نے منصوبہ بندی کے تحت جیل سے متصل غوثیہ کالونی کا مکان خرید کر اس کے زیرزمین ٹینک کے ذریعے سرنگ کھودنے کا کام کئی ماہ تک جاری رکھا۔ ذرائع کے مطابق اہل محلہ کی جانب سے خفیہ اطلاع دینے پر رینجرز نے تین دن قبل کارروائی کرکے سرنگ پکڑی۔ ذرائع کے مطابق جیل تک سرنگ لے جانے والے ملزمان کا جیل میں موجود ٹیکنیکل ماہرین سے موبائل فون پر مسلسل رابطہ تھا، جس کی بنیاد پر وہ بالکل صحیح سمت میں سرنگ کھود چکے تھے۔ کراچی کی سینٹرل جیل سے متصل غیرقانونی آبادی غوثیہ کالونی میں کثیر منزلہ عمارتیں تعمیر ہوچکی ہیں، جہاں کی کھڑکیوں اور چھتوں سے جیل کا اندرونی منظر صاف دیکھا جاسکتا ہے۔ اسی طرح موبائل فون کے ذریعے رابطہ میں رہنے والے قیدی ماضی میں ان چھتوں کے ذریعے سگریٹ، منشیات، موبائل فون اور دیگر نشہ آور اشیاء آسانی سے منگواتے رہے۔ اس کچی آبادی کو جیل کے لیے کئی مرتبہ سکیورٹی رسک قرار دیا گیا مگر حکومت سمیت کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ کراچی کی یہ وہی سینٹرل جیل ہے جہاں پر پیسہ خرچ کرکے جس طرح کی چاہیں غیر قانونی سہولتیں حاصل کی جاسکتی ہیں۔ کسی قیدی کے پاس پیسہ ہے تو وہ جیل افسران کو مال کھلا کر جیل کے اندر اپنے لیے عالی شان ایئرکنڈیشن کمرا، کچن یا دیگر سہولتیں حاصل کرسکتا ہے۔ اس کے لیے قیدی نوکر چاکر بھی فراہم کردیئے جاتے ہیں۔ یہ وہی جیل ہے جس میں گزشتہ دنوں اصل قیدیوں کی جگہ قید کاٹنے والے 41 نقلی قیدی بھی پکڑے گئے تھے۔ تاہم بنائی گئی یہ تحقیقاتی کمیٹی ان 41 قیدیوں کو تاحال واپس نہیں لاسکی۔ اسی جیل میں دہشت گردی کے خدشات کے پیش نظر کالعدم تنظیم سپا ہ صحابہ لشکرجھنگوی اور مختلف دہشت گرد گروپوں کے قیدیوں کو کئی بار اندرون سندھ کی جیلوں میں منتقل کیا جاتا رہا ہے۔ جیل ذرائع کے مطابق ابھی بھی جیل میں قید 5200 سے زائد قیدیوں میں سے 120 انتہائی ہائی پروفائل کے قیدی ہیں جن میں جنداللہ، لشکر جھنگوی، کالعدم تحریک طالبان اور کراچی کے ٹارگٹ کلرز بھی شامل ہیں۔ جیل توڑنے کی اس سازش کے پیچھے کالعدم تنظیموں پر الزام عائد کیا گیا ہے اور اسی سلسلے میں گرفتاریاں بھی ہورہی ہیں لیکن کیا اس ایک سازش کو ناکام بنانے کے بعد جیل سے جڑی غوثیہ کالونی یا اس طرح کی اور آبادیاں کیا سینٹرل جیل کے خطرہ نہیں، جیل میں غیر معمولی کرپشن اور لوٹ مار میں ملوث افسران اور اہلکار کیا جیل کے لیے سکیورٹی رسک نہیں۔ ہر چند ماہ بعد قیدیوں کو دی گئی مراعات یا ان کا بیرونی دہشت گردوں سے نیٹ ورک توڑنے کے کیا اقدامات کیے جارہے ہیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button