پاکستان

’طالبان سے مذاکرات کا واضح ایجنڈا ہونا چاہیے‘

ganjaوزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف کی سربراہی میں پیر کو منعقدہ ہونے والے ایک اہم اجلاس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کا واضح ایجنڈا ہونا چاہیے اور مذاکرات کے عمل کو واضح طور پر متعین کردہ حدود میں ہونا چاہیے۔
اس اجلاس میں جہاں فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف اور ملک کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل ظہیر السلام بھی موجود ملک میں پیش آنے والے حالیہ دہشت گردی کے واقعات پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا اور ان واقعات کے پیچھے عناصر کے خلاف موثر کارروائیاں کرنے کے عزم کا اعادہ کیاگیا۔
سرکاری طور پر جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ڈی جی آئی ایس آئی نے وزیراعظم کو دہشت گردی کے حالیہ واقعات کے بعد اٹھائے گئے اقدامات سے آگاہ کیا۔ لفٹیننٹ جنرل ظہیر اسلام نے اجلاس کو یقین دلایا کہ دہشت گردی کی حالیہ وارداتوں میں ملوث عناصر کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے گا اور ان عناصر کو قوم کے سامنے بے نقاب کیا جائے گا۔
علاوہ ازیں پاکستان کے وزیرِ اعظم میاں نواز شریف نے ملک میں امن و امان یقینی بنانے میں آئی ایس آئی اور دیگر سکیورٹی اداروں کے کردار کی تعریف کی ہے۔
وزیرِاعظم نے کہا کہ ملک کے تمام ادارے عوام کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ہم آہنگی کے ساتھ کام جاری رکھیں گے۔
ریڈیو پاکستان کے مطابق اسلام آباد میں پیر کو اعلیٰ سطح کے ایک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیرِ اعظم نواز شریف نے ملک میں امن و امان کو یقینی بنانے میں سکیورٹی اداروں، بالخصوص آئی ایس آئی کے کردار کی تعریف کی۔
جیو نیوز کے اینکر پرسن اور سینیئر صحافی حامد میر پر قاتلانہ حملے کے سلسلے میں آئی ایس آئی پر لگنے والے الزامات کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ وزیرِاعظم نواز شریف نے کھل کر امن و امان کے حوالے سے آئی ایس آئی کے کردار کو سراہا ہے۔
اس حملے کے بعد حامد میر کے بھائی نے آئی ایس آئی اور اس کے سربراہ پر حملے کا الزام عائد کیا تھا۔ گزشتہ ہفتے بی بی سی کے ساتھ انٹرویو میں حامد میر نے کہا تھا کہ وہ اپنے حملے کا ذمہ دار ’آئی ایس آئی کے اندر آئی ایس آئی کو سمجھتے ہیں۔‘
مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق اس اجلاس میں وفاقی وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان، چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف، آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹینینٹ جنرل ظہیر الاسلام اور وزیرِ اعظم کے معاونِ خصوصی طارق فاطمی شریک ہوئے۔
اجلاس میں سلامتی کی داخلی اور بیرونی مجموعی صورتِ حال پر غور کیا گیا اور طالبان کے ساتھ جاری مذاکراتی عمل کا بھی جائزہ لیا گیا۔
وفاقی وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اجلاس کو طالبان کے ساتھ بات چیت کے بارے میں آگاہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ طالبان کمیٹی سے کہا گیا ہے کہ وہ نتیجہ خیز بات چیت کے لیے واضح سمت متعین کرے۔
وفاقی وزیرِ داخلہ نے کہا کہ طالبان کے ساتھ جاری مذاکراتی عمل کو تعمیری بنانے کا یہ صحیح وقت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ طالبان کمیٹی سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ طالبان شوریٰ کے پورے ایجنڈے پر غور کرے۔
تحریک طالبان پاکستان کی حکومت سے مذاکرات کرنے کے لیے بنائی جانے والی کمیٹی کے رابطہ کار پروفیسر ابراہیم نے اتوار کو بی بی سی کو بتایا تھا کہ اصل مذاکرات تو ابھی شروع ہی نہیں ہوئے اور ایسا تبھی ممکن ہے جب طالبان کی شوریٰ کی طرف سے تفصیلی مطالبات موصول ہو جائیں گے۔
یاد رہے کہ گذشتہ سال ستمبر میں نواز شریف کی حکومت نے ایک کل جماعتی کانفرنس کے اجلاس کے بعد کالعدم شدت پسند تنظیم تحریکِ طالبان سے مذاکرات کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ تاہم سات ماہ کا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود اب تک حکومت اور طالبان کے درمیان ابتدائی رابطوں کے علاوہ بات چیت کے عمل میں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہو پائی، حتیٰ کہ فریقین مستقل جنگ بندی پر بھی متفق نہیں ہو سکے ہیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button