پاکستان

ریاست پاکستان ہمارا تحفظ نہ کرسکی تو پھر ہم خود اپنی سلامتی پالیسی کا اعلان کرینگے، علامہ ساجد نقوی

allama sajidپاکستان کے مسائل کے حل میں مثبت کردار ادا کررہے ہیں، مہنگائی و بیروزگاری جیسے مسائل کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا البتہ امن وامان اور عوام کے جان و مال کا تحفظ ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے، موجودہ حکومت امن کے قیام کیلئے کوئی واضح موقف نہیں دے سکی، آئینی دائرے میں مذاکرات کے حامی ہیں لیکن رفتار بہت سست ہے، براہ راست عوام کے قاتل لشکر جھنگوی کے حوالے سے حکومت کا کوئی موقف سامنے نہیں آیا، تکفیری گروہ کو بچانے کی کوشش کی جارہی ہے، ایک نئی کونسل بھی اسی شرپسند گروہ کو اکاموڈیٹ کرنے کا حصہ معلوم ہوتی ہے ایسے کسی پلیٹ فارم کا حصہ نہیں بنیں گے۔ ان خیالات کا اظہار علامہ سید ساجد علی نقوی نے اتوار کو جامع الصادقؑ میں شیعہ علماء کونسل پاکستان کے تین روزہ جنرل کونسل اجلاس کے اختتامی خطاب اور بعد ازاں میڈیا کوبریفنگ دیتے ہوئے کیا۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے جن میں بے روزگاری، کرپشن ، ناانصافی سمیت کئی مسائل ہیں البتہ امن وامان سب سے اہم معاملہ ہے اور ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کے جان و مال کا تحفظ یقینی بنائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکمران عوام کے جان و مال کے تحفظ میں ناکام ہوچکے ہیں سابقین نے بھی امن و امان کی خاطر کوئی اقدام نہ اٹھایا جبکہ موجودہ حکومت بھی 10ماہ گزار چکی ہے افسوس ابھی تک کوئی اقدام نظر نہیں آتا۔ قائد ملت جعفریہ پاکستان نے حکومت طالبان مذاکرات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم آئین و قانون کے دائرے میں ہونیوالے مذاکرات کی حمایت ضرور کرتے ہیں مگر حکومت عوام کے تحفظ کیلئے تمام آپشنز کو سامنے رکھے ،انہوں نے کہا کہ مذاکرات کی رفتار سے مطمئن نہیں ہیں۔ حضرت آیت اللہ علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہا کہ تمام مسائل کا حل آئین کی بالادستی میں ہے افسوس عملاً آئین و قانون پر عمل دررآمد نہیں ہورہا ۔

انہوں نے کہا کہ ہم مذاکرات کے حامی ضرور ہیں لیکن جو براہ راست عوام کے قاتل ہیں ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے مذاکرات کی آڑ میں انہیں شیلٹر فراہم کیا جا رہا ہے اور لشکر جھنگوی و سپاہ صحابہ کے دہشت گردوں کو بچانے کی کوشش کی جا رہی ہے ، حکمران بتائیں کیا وہ ان دہشت گردوں کو سزا دینگے یا مذاکرات کرینگے۔؟کیونکہ 2008ء پھانسی کی سزاؤں پر عمل درآمد روکا گیا ہے ، بتایا جائے کہ کیوں عملاً قصاص کے عملاً کو ترک کیا گیا ہے کیا کسی کی اجازت کی ضرورت ہے ؟ اب یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہورہی ہے کہ ریاست نے آج تک حکمرانوں کو اختیارات منتقل نہیں کئے اور موجودہ حکمران بھی بے بس و بے اختیار نظر آرہے ہیں، ریاست کے اندر ریاست قائم ہوچکی ہے اور رٹ عملاً نظرنہیں آتی اس لئے ہم کہتے ہیں کہ تحفظ پاکستان بل نہیں بلکہ تحفظ حکومت لانا چاہیے ۔علامہ ساجد نقوی نے کہا کہ قومی سلامتی پالیسی کا نام لیا گیا لیکن امن کی بحالی کے لئے کوئی واضح پالیسی نہیں اپنائی گئی ہم مدت سے انتظار کررہے مگر اب صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکاہے اگر ریاست پاکستان ہمارا تحفظ نہ کرسکی تو پھر ہم خود اپنی سلامتی پالیسی کا اعلان کرینگے کیونکہ اپنے دفاع کا حق ہمیں آئین پاکستان نے دیا ہے ہمارے پیش نظر صرف ارض وطن کی سالمیت و وحدت ہے ۔انہوں نے کہا کہ ملک میں کوئی سنی شیعہ مسئلہ نہیں تمام مکاتب فکر ملی یکجہتی کونسل میں متحد ہیں ۔

ایک سوال کے جواب میں علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہا کہ ہمیشہ عوام کے حقوق کا تحفظ آئین و قانون کے دائرے میں کیا ملک کی سیاست میں ہمارا ایک کردار ہے اور آئندہ بلدیاتی انتخابات و گلگت بلتستان کے انتخابات میں بھرپور طریقے سے حصہ لیں گے۔اس موقع پر انہوں نے کہا کہ ہم سینئر صحافی حامد میر پر ہونیوالے حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ صحافیوں کے تحفظ کیلئے اقدام اٹھایا جائے کیونکہ صحافی سچ اور عوامی حقوق کی آواز اٹھاتے ہیں ۔ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ علماء کونسل کے نام پر حکومت کیا ایسا پلیٹ فارم بنانا چاہتی ہے جس میں تکفیری گروہ کو اکاموڈیٹ کرسکے تو پھر ایسے کسی پلیٹ فارم کا حصہ نہیں بنیں گے کیونکہ ہم عوام کے قاتلوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے ۔ جھنگ سے ایک منتخب رکن اسمبلی کو نااہل قراردے کر قومی اسمبلی میں تکفیر ی سوچ کے شخص کو پہنچانے کی کوشش کی گئی جس پر معاملہ عدالت میں ہے اور لیاقت باغ سمیت ملک بھر میں ان کے مذہبی منافرت پر مبنی پروگرام اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں ۔حکومت اپنی پالیسی واضح کرے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button