پاکستان

سپاہ صحابہ ، طالبان ، لشکر جھنگوی – پاکستان کی سلامتی کے لئے خطرہ ہیں

jhang5وزرات داخلہ کی جانب سے چاروں صوبوں کو ایک خفیہ رپورٹ ارسال کی گئی ہے جوکہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کی رپورٹ کی مدد سے تیار کی گئی ہے اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پنجاب میں کالعدم دیوبندی دهشت گرد تنظیموں کے سب سے زیادہ ٹهکانے ہیں جن کی تعداد 165 ہے اور دوسرے نمبر پر سنده ہے جس کے اندر 132 ٹهکانے ہیں ،بلوچستان میں دلچسپ بات یہ بلوچ دہشت گرد تنظیموں کا زکر ہے لشکر جهنگوی اور جیش عدل و طالبان کا نہیں ہے خیبر پختون خوا میں دیوبندی دہشت گرد تنظیموں کے محض91 ٹهکانے پایے جانے کی نشاندهی کی گئی ہے میرے پاس اس رپورٹ کی ایک کاپی موجود ہے جس میں بہت سے ٹهکانے دیوبندی مدارس میں واقع بهی بتائے گئے ہیں اس رپورٹ بعض جدید تعلیمی اداروں کی آڑ میں بهی دیوبندی دہشت گردی کے اڈے چلائے جانے کی نشاندہی کی گئی ہے پنجاب هوم ڈیپارٹمنٹ نے ہر ضلع کو جو مراسلہ بهیجا ہے اس میں 504 ٹهکانوں کی نشاندہی کی گئی ہے ایک پولیس افسر نے مجهے بتایا کہ ان کو ان ٹهکانوں پر نظر رکهنے کی ہدائت ملی ہے کریک ڈاون کی نہیں سنده میں 132 دیوبندی دہشت گردوں کے ٹهکانوں کی اطلاع سنده ہوم ڈیپارٹمنٹ،آئی جی آفس ،سی آئی ڈی پولیس اور حکومت سنده کے پاس باضابطہ موجود ہے صوبوں کو یہ رپورٹ وفاقی سیکرٹری داخلہ کی جانب سے ایک ہفتہ قبل بهجوائی گئی تهی تاحال کوئی کاروائی عمل میں نہیں لائی گئی میرے زهن میں ایک سوال یہ آتا ہے کہ سنده اسمبلی نے لشکر جهنگوی کے خلاف قراداد پاس کی لیکن اسے جن ٹهکانوں کا علم ہے وہاں آپریشن کیوں نہیں ہورہا پنجاب اور وفاق کے حاکم تو سعودی عرب کے اشارے پر دہشت گردی میں ملوث مدارس کے خلاف کاروائی نہیں کررہے تو یہ سنده میں پی پی پی حکومت کس کے اشارے پر کاروائی کرنے سے رکی ہوئی ہے؟امریکی صحافی کارلوٹا گیل نے نمائندے کو خصوصی انٹرویو میں بتایا کہ سعودی عرب کے کہنے پر دیوبندی مدارس جو دہشت گردی میں ملوث ہیں کے خلاف کریک ڈاون روک دیا گیا یہی صحافی کہتی ہے کہ شمالی وزیرستان بهی نادیدہ هاته نے آپریشن رکوایا آئی بی اور آئی ایس آئی کے بعض زرایع کے مطابق سیکورٹی ادارے کنٹرول سے باہر دیوبندی دہشت گردوں کو ختم کرنے کے حق میں ہیں اور اپنے کنٹرول میں جو گروپ ہیں ان سے uncontrol گروہوں سے رابطے منقطع کرنے پر زور دے رہے ہیں لیکن ان زرایع سے جب لشکر جهنگوی بلوچستان ASWJکے بارے میں پوچها گیا تو یہ تک کہا گیا کہ they are not security risk for state institutions

متعلقہ مضامین

Back to top button