پاکستان

طالبان نےمولانا حسن جان، مولانا معراج الدین سمیت متعدد دیوبندی علما قتل کیے ہیں – مولانا فضل الرحمان کا انکشاف

fazlu rehmanجمعیت علما اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے انکشاف کیا ہے کہ طالبان نے مولانا حسن جان، مولانا معراج الدین، مولانا محسن شاہ، مولانا نور محمد سمیت متعدد دیوبندی علما کو طالبان کی عسکریت پسندی اور تشدد پسندی کی مخالفت کی وجہ سے قتل کیا – حامد میر کے پروگرام کیپیٹل ٹاک میں بات کرتے ہوے مولانا فضل الرحمان نے طالبان، مذاکرات اور دہشت گردی پر بات کرتے ہوے چند اہم سوالات کے جواب دیے جو کچھ یوں ہیں حامد میر : حکومت اور طالبان کے مذاکرات کے بارے میں آپ کا کیا کہنا ہے ؟ مولانا فضل الرحمان : اگر مذاکرات کرنے ہیں تو طالبان کے تمام گروہوں سے مذاکرات کرنے ہونگے ورنہ طالبان کے وہ گروہ جو امن مذاکرات کرنے پہ راضی ہونگے ان کے لوگ انھیں چھوڑ کے دوسرے گروہوں میں شامل ہو جایں گے اور یہ کہیں گے کہ ہم تو مذاکرات کے عمل میں شامل نہیں تھے – حامد میر : مولانا عبد العزیز کہتے ہیں کہ پاکستان کا آئین غیر اسلامی ہے جبکہ طالبان کہتے ہیں ان کی جنگ پاکستان میں اسلامی شریعت کے نفاذ کے لئے ہےاس بارے میں آپ کا کیا کہنا ہے ؟ مولانا فضل الرحمان: آپ غیر ضروری اور فضول قسم کے لوگوں کے بیانات کو سوال بنا کر پیش نہ کریں اس سے لوگوں میں غیر یقینی کی کیفیت پیدا ہوتی ہے عبد العزیز کی عقل و فہم کا مظاہرہ ہم لال مسجد کے معاملے میں دیکھ چکے ہیں جنہوں نے پاکستان کو تباہ کاریوں میں دھکیل دیا ہے – اس قسم کے جذباتی لوگوں کا قومی معاملات سے کوئی لینا دینا نہیں ہونا چاہیے – دو ہزار دس میں لاہور میں ہونے والی علما کانفرنس میں تمام مکاتب فکر کے دیوبندی، بریلوی اور اہلحدیث علما موجود تھے جن میں سنی بریلوی عالم سرفراز نعیمی شہید بھی موجود تھے – ان دنوں سوات میں صوفی محمد اور نظام عدل کے معاملات خبروں کا حصہ تھے – اور ان کا یہ کہنا تھا کہ جمہوریت کو نہیں مانتے اور جمہوریت کفر اور انگریزوں کا قانون ہے -اس وقت علما نے ایک متفقہ قرار داد پاس کی جس میں کہا گیا کہ ہمارے اکابرین پاکستان کا آئین بنانے میں شامل تھے اور ہم اپنے اکابرین کی تہہ کردہ ائینی جزیات پر نظر ثانی کرنے کی اجازت نہیں دینگے – اور ہم اکابرین کی متفقات کو زیر بجث لانے کی اجازت نہیں دینگے – کیوں کہ ان متفقات کو چھیڑنا ملک کو گھمبیر حالات کا شکار کر دیگا . جمعیت علما اسلام نے پاکستان بھر سے پچیس ہزار علما کو دعوت نامہ بھجوا کر بلایا اور ان سے قرار داد منظور کروائی جن میں علما دیوبند کا اکابر علما تھے – جس میں دس ہزار علما شریک ہوے اور اور قرار داد میں یہ بات کی گیی کہ ہم پاکستان کے آئین کی حدود میں رہتے ہوے شریعت کے نفاذ کے لئے پر امن جد و جہد جاری رکھیں گے اور ہم عسکری جد و جہد پر یقین نہیں رکھتے – طالبان کے نظام کی حمایت کا الزام دیوبندی مسلمانوں پر لگایا جاتا ہے لیکن یہ بھی غور کریں کہ گلگت سے لے کر کراچی تک کے دیوبندی حضرات اس کانفرنس میں شریک تھے اور اور اعلامیہ میں ایک نکتہ یہ بھی تھا کہ پاکستان میں طالبان اور سپاہ صحابہ کی قسم کی عسکری جد و جہد کرنا غیر ائینی اور غیر شرعی ہے – اس قرار داد پر دارلعلوم حقانیہ، جامہ کراچی ، بنوری ٹاؤن اور جامہ اشرافیہ سب کا اتفاق تھا – اور جب یہ تمام اکابر متفق ہوں تو پھر ہمیں آئین کے بارے میں کسی قسم کا شک نہیں ہونا چاہیے – علما کا اجماع پاکستان کے آئین کے ساتھ ہے اور اسی لئے میں کہتا ہوں کہ میں اجماع کے ساتھ ہوں حامد میر : کیا آپ پر حملہ کرنے میں بھی طالبان ملوث تھے ؟ آپ پر حملہ کیوں کیا گیا ؟ مولانا فضل الرحمان : وہ بھی پاکستانی ہیں اور ایک مخصوص سوچ رکھتے ہیں – مگر وہ تشدد کے راستے پر نکل گیے ہیں انھیں واپس لانا ہوگا – حالانکہ طالبان مجھ پر حملے کر چکے ہیں – پاکستان کے آئین سے وفا داری کی وجہ سے مجھ پر حملے کے گیے – حامد میر: کیا آپ پر حملے طالبان نے کیے؟ مولانا فضل الرحمان :جی ہاں مجھ پر حملے طالبان نے کیے ہیں، اور کیا فرشتوں نے کیے ہیں؟ مولانا حسن جان کو کیوں شہید کیا گیا؟ ان کا جرم یہ تھا کہ انہوں نے پاکستان میں خود کش حملوں کو حرام قرار دیا تھا٠ مولانا حسن جان میرے استاد تھے، میری پارٹی کے رہنما تھے، شیخ الحدیث تھے اور میرے بھائی کے بھی استاد تھے -اسی طرح مولانا نور محمد صاحب کو طالبان نے خود کش حملے میں شہید کیا حامد میر : کیا ان کو طالبان نے شہید کیا تھا؟ مولانا فضل الرحمان : خود کش حملہ اور کون کرتا ہے؟ مولانا معراج الدین اور مولانا محسن شاہ کو بھی طالبان نے شہید کیا – طالبان کے اندر بھی اتفاق نہیں ہے – مختلف سوچ کے لوگ وہاں بھی موجود ہیں – طالبان کے اندر بھی علما پر حملوں کی مزاحمت موجود ہے جس سے ان کو نقصانات بھی ہوے ہیں – میں اس بارے میں کبھی شاکی نہیں رہا لیکن آپ کے سوالات کے جوابات دینے کے لئے مجھے یہ سب حقائق بتانا پڑے

متعلقہ مضامین

Back to top button