پاکستان

پر امن دیوبندی عالم کا تکفیریوں سے برات کا اظہار

sharyatپاکستان میں بڑھتی ہوئی مذہبی جنونیت جس میں تکفیری سوچ کے پاکستان میں طول و عرض میں پھیلنا بنیادی کردار رکھتی ہے – گلگت بلتستان سے لے کر کراچی تک یہ سوچ ہر اس شخص کو واجب القتل گردانتی ہے جو اس کے تکفیری فلسفے سے اتفاق نہیں رکھتا ، چاہے وہ سنی بریلوی ہو یا اهل حدیث ، جو بھی تکفیری سوچ کا حامی نہیں ہے تکفیری سوچ کے حامل افراد کے نزدیک وہ واجب القتل ہے
پاکستان کی پچانوے فیصد پر امن عوام میں جس میں شیعہ ، بریلوی سنی ، دیوبندی اور اهل حدیث کے ساتھ ساتھ اقلیتیں بھی شامل ہیں یہ سب لوگ تکفیری سوچ کی مخالفت کی بنا پر تکفیریوں کے نزدیک واجب القتل ہیں ، دیوبندی عالم مولانا حسن جان جو تکفیری سوچ کے مخالف تھے ان کو بھی اسی تکفیری سوچ کے حمل دہشت گردوں سپاہ صحابہ طالبان نے شہید کیا ، سنی تحریک کے ابباس قادری، سلیم قادری بھی اسی تکفیری سوچ کے افراد کے ہاتھوں شہید ہوے ، شیعہ مولانا حسن ترابی ، آفتاب حیدر جعفری ، استاد سبط جعفر اور ان جیسے نہ جانے کتنے بیش قیمت موتی اس تکفیری سوچ کے طوفان میں کھو کر رہ گیے. بریلوی مولانا مفتی سرفراز نیمی طالبان سپاہ صحابہ کی تکفیری سوچ کے خلاف ایک نمایاں آواز تھے اور وہ ہمیشہ اس سوچ کی ڈٹ کے مخالفت کرتے تھے اس لئے سپاہ صحابہ طالبان کے دہشت گردوں نے انھیں شہید کر دیا
لیکن اس سب صورت حال کے باوجود ابھی بھی علم اهل سنت اور علم دیوبند میں ان افراد کی کمی نہیں جو اس تکفیری سوچ کے خلاف ابھی بھی سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح مقابلے پر موجود ہیں بلکہ اس سوچ کا راستہ روکنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں ان میں سے ہی ایک صاحب ہیں دیوبندی عالم حافظ محمد زبیر صاحب – ان کہ کہنے کے مطابق تکفیری سوچ پاکستان میں دہشت گردی کی کاروایوں میں ملوث ہے جس میں وہ پاکستان مسلمانوں اور غیر مسلموں کے قتل عام میں ملوث ہے .ان کہ کہنا ہے کہ یہ خارجی ہیں جو سب مسلمانوں کے دشمن ہیں ہم حافظ محمد زبیر صاحب کو ان کے اس کلمہ حق کہنے پر خراج تحسین پیش کرتے ہیں اور دوا کرتے ہیں کہ پاکستان کے اور دیوبندی اور اهل حدیث علم بھی ان تکفیریوں سے اپنی برات و نفرت کا اظہار کر کے پاکستان میں پھیلتی ہوئی تکفیریت کے عفریت کو قابو کرنے میں ہماری مدد کر

متعلقہ مضامین

Back to top button