پاکستان

طالبان، جیش محمد اور سپاہ صحابہ کے دہشت گردوں کا پنجاب میں اتحاد

terrortist-in-panjab پنجاب کی صوبائی حکومت تو اس حقیقت سے انکاری ہے تاہم پنجاب پولیس نے پہلی مرتبہ سرکاری طور پر یہ تسلیم کرلیا ہے کہ طالبان کا نیٹ ورک جھنگ اور جنوبی پنجاب میں موجود ہے اور وہ اپنے لڑاکا شعبہ کیلئے فنڈز اکٹھے کررہے اور نوجوان بھی بھرتی کررہے ہیں۔ جھنگ سٹی پولیس نے پنجاب میں اپنی نوعیت کی پہلی ایف آئی آر درج کی ہے جو صوبائی حکومت کیخلاف ایک قسم کی سنجیدہ فرد جرم ہے۔ ایف آئی آر نمبر 320 انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 11 ایف/ 7 کے تحت درج کی گئی ہے جو پولیس نے اپنے ایجنٹوں کی خفیہ اطلاعات کی بنا پر درج کی ہے۔ ایف آئی آر سے انتہائی سنگین حقائق کا انکشاف ہوتا ہے جو آئندہ آنے والے دنوں میں پنجاب میں طالبانائزیشن کا پیش خیمہ ہوسکتے ہیں۔ کالعدم جیش محمد کے ضلعی سربراہ کیخلاف درج اس رپورٹ سے اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ طالبان کمانڈرز اکثر شہر میں آتے ہیں اور پھر جنوبی پنجاب چلے جاتے ہیں کیونکہ اس علاقے میں تحریک طالبان تیزی سے پھیل رہی ہیں ۔ ایس ایچ او کوتوالی جھنگ سٹی کے ایس ایچ او نے دی نیوز کو ایف آئی آر کے اندراج کی تصدیق کی ہے۔ اس ایف آئی آر کی ایک نقل نامہ نگار کے پاس بھی موجود ہے۔ تاہم ایس ایچ او نے تفصیلات بتانے سے گریز کیا۔ بار بار کے پیغامات اور فون کالز کے باوجود ڈی پی او جھنگ اور آئی جی پنجاب اس حوالے سے موقف لینے کیلئے دستیاب نہ ہوسکے۔ فرقہ واریت کا گڑھ جھنگ آئی جی پنجاب طارق سلیم ڈوگر کا آبائی شہر بھی ہے۔ ورلڈ بینک کی حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ضلع جھنگ میں ترقیاتی اخراجات فی کس 300 روپے ہے جبکہ اس کے مقابلے میں ضلع لاہور میں یہی اخراجات 3500 روپے فی کس ہے۔ پنجاب حکومت نے ہمیشہ اپنے جنوبی علاقے میں طالبان نیٹ ورکس کی موجودگی سے انکار کیا ہے۔ ایک مرتبہ ڈی جی رینجرز نے ان کی موجودگی کا اشارہ دیا تھا لیکن صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے اس کی تردید کی۔ رانا ثناء اللہ نے ضمنی انتخاب میں کالعدم تنظیم سے انتخابی اتحاد کیا اور ان کی اعلیٰ قیادت کے ساتھ مہم چلائی اور معاہدے کے تحت انتہائی خطرناک فرقہ پرست عسکریت پسندوں کو رہا کیا۔ ایف آئی آر اور پولیس کی خفیہ رپورٹس سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ طالبان علاقے میں پروان چڑھ رہے ہیں اور ان کی خفیہ نقل وحرکت جاری ہے اور کچھ مدرسوں میں حال ہی میں نئی بھرتیاں بھی کی گئی ہیں۔ جہاں تک ایف آئی آر کا تعلق ہے تو یہ جیش محمد ضلع جھنگ کے سابق سربراہ ڈاکٹر عمران کیخلاف درج کی گئی ہے۔ ان پر ایک کروڑ سر کی قیمت والے اہم طالبان کمانڈر کی میزبانی کرنے کا الزام ہے۔ رپورٹ میں درج ہے کہ ”ڈاکٹر عمران تحریک طالبان کا نیٹ ورک چلاتے ہیں اور طالبان جنوبی پنجاب کے دیگر اضلاع کو جاتے ہوئے اکثر ان سے ملاقات کرتے ہیں“۔ ان پر فنڈز اکٹھا کرنے میں ملوث ہونے کا بھی الزام ہے۔ ایف آئی آر پولیس انٹیلی جنس کی بنیاد پر درج کی گئی ہے اور پولیس کی انٹیلی جنس ایف آئی آر میں بیان کی گئی صورتحال سے زیادہ سنگین حالات کی نشاندہی کرتی ہے۔ خفیہ رپورٹ میں اس بات کا انکشاف کیا گیا ہے کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کا ضلعی سربراہ اسامہ بن لادن کا سابق گن مین ہے اور جنوبی خطے میں طالبان کے پھیلاؤ میں اہم کردار ہے۔ پولیس افسر نے بتایا کہ ایف آئی آر میں بے نام طالبان کمانڈر کا نام قاری مطیع اللہ المعروف کمانڈر عبدالصمد ہے۔ پولیس کی خفیہ رپورٹ کے مطابق جھنگ میں مختلف مدارس میں طالبان قیادت اکثر آتی جاتی رہتی ہے۔ ایک مدرسہ طالبان قیادت کی ملاقاتوں کیلئے اہم مقام ہے۔ پولیس خفیہ رپورٹ کے مطابق اسی طرح ان لوگوں کے حامیوں کے زیر انتظام چلنے والے 3 دیگر مدارس میں حال ہی میں بھرتی مہم شروع کی گئی۔ ہے تاکہ نوجوانوں کو تربیت کیلئے قبائلی علاقوں میں بھجوایا جاسکے۔ یکم مئی کو جھنگ شہر میں واقعہ ایک مدرسے میں ہونے والے ایک اجلاس میں ہونے والے بحث و مباحثے کا ذکر کرتے ہوئے پولیس ذرائع نے بتایا کہ اس موقع پر مذہبی رہنماؤں نے حکومت اور فوج کیخلاف جنگ کو جائز قرار دیا اور کہا کہ ہمارے نوجوانوں ، ماؤں اور بہنوں کو بے گناہ قتل کیا جارہا ہے۔ مقررین نے 1985ء کا جذبہ دہرانے پر زور دیا جب افغان حکمرانوں کیخلاف جنگ کی گئی تھی۔ پولیس افسر نے بتایا کہ جھنگ اور اس سے ملحقہ وسطی اور جنوبی پنجاب کے علاقے میں طالبان بڑی تیزی سے پھیل رہے ہیں۔ انہوں نے نیٹ ورک کے تیزی سے پھیلاؤ کی بنیادی وجہ پسماندگی کو قرار دیا۔ حالیہ ورلڈ بینک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ترقی کے حوالے سے جنوبی خطہ پنجاب حکومت کی آخری ترجیح ہے کیونکہ حکومت عسکریت پسندوں سے لڑنے کیلئے تیار ہے نہ ہی ترقی کیلئے سرمایہ کاری کرنے کو تیار ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button