پاکستان

کالعدم سپاہ صحابہ مسلم لیگ نون کی اتحادی نکلی

shiite_ssp_terrorism_blastپاکستان میں دہشت گردی اور ان کی سرپرستی کرنے والے افراد کے تعلق سے جب کبھی کسی نے تبصرہ کیا ، کسی نے بیان دیا یا کسی نے الزام لگایا تو یہی کہا کہ یہ ایجنسیوں کا کام ہے اور کسی حکومتی اہلکار نے بیان دیا تو کہا کہ دہشت گردی میں، بیرونی ہاتھ کو مسترد نہیں کیا جا سکتا لیکن دہشت گردی کے تعلق سے کبھی سیاستدان اور سیاسی جماعت کا نام سننے یا پڑھنے میں نہیں آيا۔لہذا اب اگر یہ کہا جائے کہ مسلم لیگ اور کالعدم تنظیم سپاہ صحابہ کے دہشت گردوں میں رابطے موجود ہیں

 تو یہ بات کسی حدتک عجیب سی لگے گی۔ اگرچہ سپاہ صحابہ سمیت دیگر دہشتگرد تنظیمیں اور گروہ سن 80 کے عشرے میں صدر جنرل ضیاء الحق کے ذریعے خاص مقاصد کے تحت وجود میں لائے گئے تھے اسی زمانے میں پنجاب کے میدان سیاست میاں محمد نواز شریف کا نام بھی ابھرکر سامنے آیا اور وہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے وزیر اعلی بنادئے گئے۔ میاں محمد نواز شریف اپنی صلاحیتوں اور وابستگیوں کے بل بوتے پر بعد میں ملک کے وزير اعظم بن گئے اور دومرتبہ اس عہدے پر فائض رہے تا ہم جب صدر جنرل پرویز مشرف نے انہیں اقتدار سے باہر کردیا تو رائے ونڈ و ریاض میں جذباتی تعلق کے پیش نظر میاں محمد نواز شریف کو ایک ڈیل کے تحت دس سال کے لئے آل سعود کا مہمان بنادیا گيا ۔صدر جنرل پرویز مشرف نے دہشت گردی کے خاتمے کا نعرہ لگاکر اقتدار سنبھالا اور پاکستان نے اپنی افغان اور کشمیر پالیسی پر یوٹرن لیا اور مجاہدین کے تربیتی کیمپ اور مراکز پر تالے ڈالدیئے گئے لیکن جب اقتدار میں باقی رہنے کے لئے انہیں ووٹوں کی ضرورت پڑی تو انہوں نے ایک ایسے دہشت گرد کا سہارا لیا کہ جسکے ہاتھ سینکڑوں پاکستانیوں کے خون سے رنگے ہوئے تھے ۔ اعظم طارق کے نام سے معروف چیچہ وطنی کا رکشہ ڈرائیور جیل سے رہا کردیا گیا اور یوں صدر صاحب کی ق لیگ اپنا اقتدار محفوظ کرسکی ۔ اب مسلم لیگ ق کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مسلم لیگ نون نے بھی ہوس اقتدار کی خاطر کئی دہشت گردوں کو جیلوں سے رہا کردیا ہے اور جو جیل سے رہا نہیں ہوسکتے تھے وہ جیل توڑ کر فرار ہوگئے ہیں ۔اسی چیز کے پیش نظر گورنر پنجاب سلمان تاثیر نے اپنی حریف جماعت کے وزير اعلی شہباز شریف اور کالعدم سپاہ صحابہ کے درمیان رابطوں کا الزام عائد کیا ہے ۔ضمنی انتخابات میں کالعدم سپاہ صحابہ اور مسلم لیگ نون کے درمیان جو غیر اعلانیہ اتحاد قائم ہوا ہے اس سے گورنر پنجاب سلمان تاثیر میڈیا والوں کو مسلسل آگاہ کررہے ہیں ۔ اگرچہ ان کی الزام تراشیوں کو پارٹی رقابت قرار دیا جا سکتا ہے لیکن یہ الزامات محض الزامات اور پروپیگنڈہ ہوتے تو یقینا” قابل غور نہ ہوتے لیکن، یہ ایسی کھلی حقیقت ہے کہ جس سے انکار کی گنجائش نہ تو شہباز شریف کے پاس ہے نہ ہی ان کے وزیر قانون کے پاس جو الیکشن کمپین کے دوران کالعدم دہشت گرد تنظیم سپاہ صحابہ کے سرگرم افراد کے ساتھ مختلف مقامات پر دیکھے گئے ہیں۔ ان حقائق کو سامنے رکھ کر ایک بات واضح ہوجاتی ہے کہ دہشت گردی اور دہشت گردوں کی پشتپناہی صرف ملکی اور غیر ملکی ایجنسیاں نہیں بلکہ سیاستدان بھی کرتے ہیں کہ جن کو بہرحال عوام کے سامنے ایک دن جواب دینا ہوگا۔لاہور میں ہونے والے حالیہ خودکش حملے سے لیکر کراچی کے پے در پے بم دھماکوں تک سیاسی عنصر، دہشت گردی کی پشت پر دکھائی دے رہا ہے لہذا سیاسی جماعتوں اور ان کے لیڈروں کے لئے مناسب یہی ہوگا کہ وہ اپنی اور اپنی جماعت کی جانب سے کھلکر دہشت گردوں اور کالعدم جماعتوں سے عدم وابستگي کا اعلان کریں اور اپنے اقتدار کے لئے بیگناہوں کے خون کا سودا نہ کریں ۔

 

متعلقہ مضامین

Back to top button