مقبوضہ فلسطین

اسرائیل، عربوں کے خلاف نسل پرستانہ تعصب میں مزید اضافہ

israil wliyناجائز اسرائیلی ریاست میں عرب باشندوں کے خلاف نسل پرستانہ تعصب کا حالیہ برسوں میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔عرب باشندوں کے ساتھ عمومی سطح پر بھی ناراو سلوک کی تازہ مثال اس وقت سامنے آئی جب ایک عرب کو سوئمنگ کلب کی ممبر شپ دینے سے انکار کی وجوہات ایک یہودی صحافی نے غیر رسمی انداز میں کلب انتظامیہ اگلوا لیں اور بعد میں انتظامی اہلکار کی گفتگو کو آن ائیر کر دیا۔

مقامی صحافی کے مطابق ایک فلسطینی طاہر مراصات نے واضح کیا کہ اسے بئر سبع کنٹری کلب میں نسل پرستانہ تعصب کا سامنا کرنا پڑا جب ان کے پاس ٹکٹ موجود ہونے کے باوجود داخل ہونے سے یہودی انتظامی اہلکاروں نے یہ جواز پیش کر کے روک دیا کہ بیئر صباع کے رہائشی ہی کلب میں داخل ہو سکتے ہیں۔

واضح رہے کہ مراصات بئر سبع میں گیارہ سالوں سے رہائش پذیر ہے، تاہم بنیادی طور پر وہ شمالی اسرائیل ٹمارا کا باشندہ ہے اور اس کی شناختی کارڈ پر پرانا پتہ درج ہے۔ داخلےکی پابندی پر مراصات نے اسرائیلی چینل ۱۰ کے "مارننگ ٹاک شو” کو تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ کلب میں جانے کا مقصد پول میں نہانا تھا مگر کلرک نے انہیں یہ کہہ کر داخلے سے منع کر دیا کہ یہ سہولیت صرف مقامی افراد کو میسر ہے، لیکن مراصات نے کہا کہ وہ ان لوگوں کو بخوبی جانتا ہے جو موجودہ وقت پر پول میں موجود تھے وہ بئرسبع کے رہائشی نہیں تھے۔

یہودی صحافی نے تمام حالات وواقعات کو سننے کے بعد یہ اخد کیا کہ وہ بذات خود اس معاملے کی تحقیق کرے گا لہذا صحافی بئرسبع کنٹری کلب پہنچا اور غیر رسمی طریقے سے کنٹری کلب کے کیشرز کے ساتھ گفتگو کا آغاز کیا اور افسردہ لہجے میں بتایا کہ وہ مقامی رہائشی نہیں ہے اور اسی وجہ سے وہ اس سہولت سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا جبکہ کلرک نے اسے بتایا کہ ایسا کچھ نہیں کیشر کا جواب سن کر چونک گیا کہ ان تمام اقدامات کا مقصد عربوں کو یہاں سے نکالنا ہے۔ شاطر یہودی صحافی نے چالاکی کے ساتھ تمام گفتگو ریکارڈ کی اور میگ+۹۷۲ کے ذریعے ترجمہ کرانے کے بعد آن ائر کر دیا،جس میں واضح طور پر کلرک کو یہ کہتے سنا جا سکتا ہے کہ کیسے وہ عربوں سے جان چھڑانے کےلیے ایسے اقدامات کرتے ہیں۔کیشر کے ساتھ گفتگو کرنے کے بعد صحافی نے افسردہ آہ بھری اور کہا کہ یہاں بہت زیادہ بدو آتے ہیں توجواب میں کیشر نے ہاں میں ہاں ملائی۔

مراصات نے واضح کیا کہ کیسے اسرائیل نسل پرستانہ اقدامات کر کے عربوں کو حقیر بنانا چاہتا ہے اور حالیہ ریکارڈ کی گئی گفتگو سے پتہ چلتا ہے کہ اسرائیل کے قول و فعل میں تضاد پایا جاتا ہے اور اسرائیل دنیا کے سامنے جتنا انسانی حقوق کا علمبردار بننے کی کوشش کر رہا ہے حقیقت اس کے برعکس ہے۔ کلب کی پالیسی کے مطابق مقامی رہائشیوں کا کلب میں داخلہ اور عربوں بدووں کے ساتھ غیر انسانی سلوک اس بات کی قلعی کھول دیتا ہے کہ اسرائیل انسانی حقوق کا کتنا بڑا علمبردار ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button