مقبوضہ فلسطین

مشرق وُسطیٰ میں اسلامی بیداری، مسئلہِ فلسطین کے حل کا مقدمہ

shiitenews_freedom_for_palestine:یہاں یہ بات بھی یاد رکھی جانی چاہیے کہ مشرق وسطیٰ کی اسلامی بیداری کی تحریکوں کا اولین مقصد ’’خطے سے غاصبانہ تسلط کا خاتمہ‘‘ اور دوئم ’’آزادئ فلسطین کی جانب عملی اقدامات کا آغاز‘‘ہے۔ یہ بات تو اپنی جگہ ثابت ہے کہ اسلام کے اجتماعی اور سیاسی نظام میں بادشاہت اور ملوکیت کی کوئی گنجائش نہیں، لیکن اِس کے باوجود ہمیں بہت سے اسلامی ممالک میں ملوکیت اور بادشاہت کی شکل میں نظام حکومت نظر آتا ہے جو برسہا برس سے عوام پر مسلط ہے۔ ایسے تمام نظام حکومت جہاں عوام کی جمہوری خواہشات اور مطالبوں کو پورا ہونے نہیں دیا، وہاں اُس نے عالمی سطح پر عالمی اسلامی بیداری خصوصاً فلسطین میں موجود انتفاضہ کی کہ کوئی حمایت کی او ر نہ ہی صہیونی حکومت اور اسرائیل کی کوئی مخالفت کی
تحریر:عبدالرشید خان
ماہ فروری 2011ء میں مشرق وسطیٰ اور شمال افریقی ممالک میں پیدا ہونے والی اسلامی بیداری کی تحریکیں اپنے عروج پر ہیں کہ جس میں اب تک سینکڑوں مجاہدین انقلاب نے اپنے سرخ اور پاکیزہ لہو کے نذرانہ سے تحریک کو عروج بخشا ہے جبکہ ہزاروں کی تعداد ایسی ہے کہ جو اسپتالوں میں زیرعلاج ہیں۔ تیونس سے شروع ہونے والی اسلامی بیداری نے نہ صرف تیونس میں انقلاب کو دوام بخشا ہے بلکہ مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک بشمول مصر، اردن، بحرین، یمن، لیبیاء سمیت سعودی عرب میں بھی عوام میں انقلابی روح پھونک دی ہے جس کے سبب گذشتہ دو ماہ سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود آج بھی مصر میں عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر میدانِ شہداء (سابقہ تحریر چوک)میں موجود ہے اور یہ موجودگی خطے میں فقط امریکی و صہیونی نواز حکمرانوں کے خلاف نہیں بلکہ اِس میں اہم ترین نقطہ ’’فلسطین‘‘ہے۔
دوسری جانب مشرق وسطیٰ اور شمال افریقی ممالک بالخصوص بحرین، لیبیا، یمن اور اُردن میں جاری اسلامی بیداری بھی اِس بات کا ثبوت ہے کہ خطے کے عوام صرف اور صرف اِس لیے استقامت نہیں دکھا رہے کہ خطے سے امریکی آلہ کاروں کا خاتمہ کیا جائے بلکہ یہ وہ دلی ہمدردی، یکجہتی اور محبت و عشق ہے جو خطے کی اقوام کا ’’ملت فلسطین‘‘کے ساتھ ہے۔ الغرض جیسا کہ قرآن مجید میں بار ہا امتِ واحدہ کا تذکرہ کیا گیا ہے اور مسلم امہ کو ایک جسم سے تشبیہ دی گئی ہے جبکہ بفرمان پیغمبر اکرم ص کہ ’’مسلم امہ ایک جسم کی مانند ہے،اگر جسم کے ایک حصے میں درد ہو تو تکلیف پورا جسم محسوس کرتا ہے!‘‘
یہاں یہ بات بھی یاد رکھی جانی چاہیے کہ مشرق وسطیٰ کی اسلامی بیداری کی تحریکوں کا اولین مقصد ’’خطے سے غاصبانہ تسلط کا خاتمہ‘‘ اور دوئم ’’آزادئ فلسطین کی جانب عملی اقدامات کا آغاز‘‘ہے۔ یہ بات تو اپنی جگہ ثابت ہے کہ اسلام کے اجتماعی اور سیاسی نظام میں بادشاہت اور ملوکیت کی کوئی گنجائش نہیں، لیکن اِس کے باوجود ہمیں بہت سے اسلامی ممالک میں ملوکیت اور بادشاہت کی شکل میں نظام حکومت نظر آتا ہے جو برسہا برس سے عوام پر مسلط ہے۔ ایسے تمام نظام حکومت جہاں عوام کی جمہوری خواہشات اور مطالبوں کو پورا ہونے نہیں دیا، وہاں اُس نے عالمی سطح پر عالمی اسلامی بیداری خصوصاً فلسطین میں موجود انتفاضہ کی کہ کوئی حمایت کی او ر نہ ہی صہیونی حکومت اور اسرائیل کی کوئی مخالفت کی۔
عالمی سطح پر اُٹھنے والی اِس اسلامی بیداری میں خواہ تیونس کی انقلابی تحریک ہو یا مصر میں انقلابی اقدامات، خواہ بحرین میں انقلابی جدوجہد ہو یا لیبیاء سے غاصبانہ تسلط کے خاتمہ کی بات، اِسی طرح یمن میں اسلامی بیداری ہو یا اردن میں انقلابی تحریک، تمام تر تحریکوں اور اسلامی بیداری ’’آزادی فلسطین ‘‘کا پیش خیمہ ہے۔ یہ ایک تلخ تاریخ ہے کہ مشرق وسطیٰ کے عوام نے عالم اسلام کے قلب پر غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کے خنجر کو گھونپا برداشت کیا ہے۔ لیکن اب یقیناً مسلم امہ بیدار ہو گئی ہے اور یقیناً یہی اسلامی بیداری کی تحریکیں ہیں جو دیگر تمام ممالک کی طرح ’’فلسطین‘‘ اور ’’بیت المقدس‘‘کی آزادی کا سبب بنیں گی۔ اب وہ وقت دور نہیں ہے کہ دنیا نہ صرف مسلمانوں کے قبلہ اول ’’بیت المقدس‘‘ کو آزاد ہوتا دیکھے گی بلکہ غاصب صہیونی ریاست ’’اسرائیل کی نابودی‘‘کے منظر کا بھی مشاہدہ کرے گی۔انشاءاللہ
مسئلہ فلسطین کے حل کی جانب ایک اہم ترین مقدمہ مصری عوام کی جدوجہد ہے۔ یہ جدوجہد قابل ستائش و تحسین ہے کہ جس میں مصری عوام کی استقامت کے باعث آج مصر میں فلسطینی کی آواز ایک مرتبہ پھر سنائی دے رہی ہے، جسے سابق غاصب حکمران فراموش کر چکے تھے۔ اسی طرح اگر مصری عوام کی تمام تر جدوجہد کو اگر سمیٹا جائے تو یہ کہنا بےجا نہ ہو گا کہ مصر کی باشعور، باغیرت اور جرأت مند قوم نے صرف اس لیے استقامت نہیں کی کہ مصر سے غاصب صہیونی اور امریکی نواز حکمرانوں کے طویل اور غاصبانہ اقتدار کا خاتمہ کیا جائے بلکہ اس تحریک کے بنیادی محور میں سے ایک یہ ہے کہ مسئلہ فلسطین کے حل میں پیش قدمی کی جائے۔
مصری عوام کی فلسطین اور فلسطینیوں سے والہانہ محبت اور اسلامی اخوت کا رشتہ اس بات کا تقاضہ کرتا ہے کہ 64 برسوں سے مظالم کا نشانہ بنائے جانے والے مظلوم اور نہتے فلسطینیوں کو غاصب صہیونی ریاست اسرائیل سے نجات دلائی جائے اور انہیں انکی سرزمین مقدس پر رہنے کا پورا پورا حق فراہم کیا جائے۔ حسنی مبارک کے تاریک ترین دور میں مصری عوام نے مسئلہ فلسطین کے بارے میں اپنے غلام حکمرانوں کی جانب سے صرف پسپائی، ذلت اور شکست کا ہی سامنا کیا ہے۔ ہر انتفاضہ اور ہر جدوجہد میں جہاں فلسطینی عوام کو مصری عوام کی سپورٹ اور حمایت کی اُمید تھی وہاں مصری حکمرانوں نے قوم کا سودا کر کے اسرائیل کے وجود اور صہیونی حکومت کے ہاتھ مضبوط کئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج فلسطینی عوام نے اپنے ہی حکمرانوں کی بساط اُلٹ کر نہ صرف یہ کہ مصر میں بلکہ خطے میں ایک نئی تاریخ کو رقم کیا ہے! پس! یہ وہ مقدمہ ہے جو مصر میں انقلابی جدوجہد اور اسلامی بیداری کا سبب بنا اور تاحال یہ جدوجہد جاری و ساری ہے۔
اسلامی بیداری کے ثمرات
1۔ حالیہ دنوں میں مصر کے آرمی چیف جنرل سامی عنان کی جانب سے یہ اعلان کیا جانا کہ مصر، رفحہ سرحد کو فلسطینیوں کیلئے کھول رہا ہے۔ ایک مثبت ترین اقدام ہونے کے ساتھ ساتھ مصری عوام کی اسلامی بیداری کی تحریک کا پہلا عظیم ترین ثمر ہے کہ جس کے سبب ملت فلسطین کے ساتھ ملت مصر کا رشتہ دوبارہ مستحکم ہو رہا ہے۔ واضح رہے کہ غاصب صہیونی حکومت اور سابق مصری حکومت کے سربراہ ناحسنی مبارک کے درمیان طے پانے والے معاملات کے بعد رفح سرحد بند کر دی گئی تھی، تاکہ فلسطین کے علاقے غزہ میں خوراک و ادویات کی فراہمی کی بندش کو یقینی بنایا جائے اور مظلوم نہتے فلسطینیوں کی نسل کشی کی جائے۔ تاہم مصر میں اسلامی بیداری کی تحریک کے سبب مصر سے امریکی و صہیونی نواز حکمران ناحسنی مبارک حکومت سے برکنار ہوا اور بالآخر اب رفح سرحد کو کھولا جا رہا ہے تاکہ مظلوم فلسطینیوں کی مدد کی جائے۔
مصری آرمی چیف نے نہ صرف رفح سرحد کو کھولنے کا اعلان کیا ہے بلکہ غاصب صہیونی ریاست کو بھی انتباہ کیا ہے کہ وہ فلسطین کے خلاف اپنی سازشوں سے باز رہے اور صیہونی حکومت، مصر کی جانب سے غزہ کیلئے گذرگاہِ رفح کو کھولنے میں مداخلت کا کوئی حق نہیں رکھتی۔ مصر کے چیف آف آرمی اسٹاف سامی عنان نے صیہونی حکومت کے خلاف اپنی خاموشی توڑتے ہوئے کہا ہے کہ گذر گاہِ رفح کو کھولنے کا مسئلہ صرف مصر اور فلسطین سے تعلق رکھتا ہے۔
2۔ جہاں مشرق وسطیٰ میں انقلابی و اسلامی بیداری کے سبب فلسطین کی آزادی کی راہیں ہموار ہونا شروع ہوئی ہیں وہاں ایک اہم ترین ثمر یہ بھی حاصل ہوا ہے کہ گذشتہ کئی برسوں سے دور فلسطینی تحریکیں، حماس اور الفتح بھی ایک دوسرے کے قریب آ گئی ہیں اور حالیہ دنوں میں فلسطین میں الفتح اور اسلامی تحریک مزاحمت حماس کے درمیان مفاہمتی معاہدہ طے پایا ہے جس کو نہ صرف فلسطین بلکہ پوری دنیا میں پذیرائی حاصل ہو رہی ہے۔ اِس معاہدے کو فلسطین کی آزادی کی جانب اہم ترین اقدام قرار دیا جا رہا ہے۔ فلسطینی تحریک مزاحمت کے اہم ترین رکن اور مقبوضہ فلسطین کے سنہ 1948ء کی جنگ میں اسرائیل کے قبضے میں چلے جانے والے علاقوں میں قائم تحریک اسلامی کے سربراہ اور بزرگ فلسطینی رہنما شیخ رائد صلاح نے حماس اور فتح کے درمیان مصالحت کے اعلان کا خیرمقدم کیا ہے اور اسے قبلہ اول کی آزادی کی طرف اہم قدم قرار دیا ہے۔ انہوں نے دونوں بڑی جماعتوں پر زور دیا کہ وہ ہر قیمت پر مفاہمت قائم رکھیں، تاکہ صہیونی دشمن کو فلسطینی قوم کیخلاف ریشہ دوانیوں کا موقع نہ مل سکے۔ شیخ رائد صلاح نے کہا ہے کہ اردن، فلسطین کی آزادی کا باب بنے گا، بیت المقدس اور عمان کا مستقبل ایک ہے اور دونوں شہر یکساں آزاد ہوں گے۔
عرب ممالک میں آنے والے انقلاب پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مسلم اور عرب امہ اب بیدار ہو رہی ہے۔ تیونس، مصر اور لیبیا میں آنے والے انقلابات کے بعد وہ وقت دور نہیں جب بیت المقدس اور فلسطین بھر میں قابض صہیونی حکومت کیخلاف بھی انقلاب اٹھے گا۔ فلسطینی رہنما نے محمود عباس کی جماعت فتح اور اسلامی تحریک مزاحمت "حماس” پر زور دیا کہ وہ دشمن کی سازشوں میں نہ آئیں بلکہ مفاہمت کے لیے ہر قیمت ادا کرنے کے لیے تیاری کریں۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینی عوام کو مفاہمت اور مصالحت کی جتنی اس وقت ضرورت ہے، ماضی میں کبھی نہ تھی اور حماس اور فتح کے درمیان مصالحت کا اعلان قبلہ اول کی فتح کی نوید ثابت ہو سکتا ہے۔
دونوں بڑی فلسطینی جماعتوں کے درمیان قربت کو فلسطین بھر میں سراہا گیا، تاہم اسرائیل نے اس پر سخت برہمی کا اظہار کیا ہے۔ متشدد خیالات رکھنے والے اسرائیلی وزیراعظم نے ’’بنجمن نیتن یاھو ‘‘ نے فلسطینی جماعتوں کے درمیان مصالحت کی طرف قدم پر اپنے ردعمل میں کہا کہ وہ ایسی فلسطینی حکومت کو تسلیم نہیں کریں گے، جس میں اسرائیل کو تباہ کرنے کے عزائم رکھنے والی قوتیں بالخصوص حماس شامل ہو گی۔
3۔ تیسری اہم بات یہ ہے کہ جہاں مشرق وسطیٰ کی اسلامی بیداری ’’آزادئ فلسطین‘‘ کا پیش خیمہ بن رہی ہے وہاں غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کی پریشانی کا بھی سبب بن رہی ہے، جس کا اندازاہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ایک صہیونی اپوزیشن لیڈر زیپی لیونی نے غاصب صہیونی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ صہیونی جارح حکومت عالمی سطح پر تمام معاملات میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے۔ غاصب صہیونی حکومت کی اپوزیشن لیڈر نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ’’اسلامی تحریک مزاحمت حماس‘‘ کی پذیرائی میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے اور اسرائیل مؤقف دنیا بھر میں کمزور پڑ چکا ہے۔ دوسری جانب اسرائیلی اخبار”یدیعوت احرونوت” میں شائع ایک بیان میں زیپی لیونی کا کہنا ہے کہ فلسطینی جماعتوں حماس اور فتح کے درمیان مفاہمت کے اعلان کے بعد نیتن یاھو کی اِس کے خلاف چیخ پکار کا دنیا پر کوئی اثر نہیں ہوا کیونکہ حماس نے عالمی سفارت کاری کے میدان میں اپنی پوزیشن بہت حد تک مستحکم کر لی ہے۔
صہیونی اپوزیشن لیڈر کا کہنا تھا کہ انہیں صدر محمود عباس کی جماعت الفتح کے حماس سے مفاہمت کے لیے مذاکرات پر تشویش ہے کیونکہ حماس اسرائیل کی تباہی کے عزائم رکھتی ہے۔ فتح کو ایسی تنظیموں کی صف میں شامل نہیں ہونا چاہیے، دیگر صہیونی لیڈروں کی طرح لیونی نے بھی حماس کو ’’دہشت گرد‘‘ گروہ قرار دیا اور کہا کہ حماس میں شامل لوگ اسرائیل کے دشمن ہیں۔
4۔ فلسطین میں اسلامی تحریک مزاحمت ’’حماس‘‘ اور صدر محمود عباس کی جماعت الفتح کے درمیان مصالحت کے اعلان کے بعد اسرائیل نے فلسطینی انتظامیہ کو دی جانے والی امداد روک دی ہے۔ اسرائیل کے وزیر مالیات یووفال اسٹائنٹز نے وزارت خزانہ کے ایک اہم اجلاس کے دوران متعلقہ حکام کو ہدایت کی کہ وہ ٹیکسوں اور دیگر مدارات میں فلسطینی اتھارٹی کو دی جانے والی تمام امداد فوری طور پر روک دیں۔
صہیونی وزیر مالیات کا کہنا تھا کہ حماس کے ساتھ فلسطینی صدر کی جماعت الفتح کی مصالحت سے ان کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کی خلاف ورزی ہوئی ہے، جس کے بعد وہ فلسطینی اتھارٹی کو دی جانے والی امداد کے بارے میں نظرثانی پر مجبور ہوئے ہیں۔ واضح رہے کہ صہیونی ریاست کی جانب سے پانچ کروڑ 96 لاکھ یورو امداد دی جاتی تھی۔
یہ امر واضح رہے کہ سنہ 1993ء میں فلسطینی انتظامیہ اور اسرائیل کے درمیان طے پانے والے ’’اوسلو‘‘ معاہدے کے بعد اسرائیل بندرگاہوں، ہوائی اڈوں اور دیگر اہم مقامات سے جمع ہونے والے ٹیکسوں سے فلسطینی اتھارٹی کو ایک معقول رقم فراہم کرنے کا پابند ہے۔ یہ رقم سالانہ پانچ کروڑ 96لاکھ یورو سے زیادہ بنتی ہے، جسے قسط وار فلسطینی اتھارٹی کو ادا کیا جاتا ہے، تاہم فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کے نشیب و فراز میں یہ رقم بھی تعطل کا شکار رہتی ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button