سید حسن نصراللہ: : بڑی بڑی تبدیلیوں اور انقلابات میں امام خمینی کا کردار مزید آشکار ہوگا
حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل اور اسلامی مزاحمت تحریک کے سربراہ حجت الاسلام و المسلمین سید حسن نصر اللہ نے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی تئیسویں برسی کی مجلس سے خطاب کرتے ہوئے کہا: بڑی بڑی تبدیلیوں اور علاقائی انقلابات میں لوگوں نے امام خمینی کی ندا پر لبیک کہہ کر امام خمینی کے تشخص کو اجاگر کیا۔
رپورٹ کے مطابق سید حسن نصر اللہ نے لبنان کے دارالحکومت بیروت کے مرکز میں یونسکو پیلس میں منعقدہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی تئیسویں برسی کی مجلس سے خطاب کیا۔ خطاب کے خاص خاص نکتے:
٭٭ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی رحلت کی برسی کا موقع آن پہنچا ہے وہ ایک عارف کامل اور تخلیق کارمفکر اور عظیم فقیہ و فلاسفر ہیں اور ان کی ذاتی خصوصیات بہت زيادہ ہیں اور ان کی ایسی خصوصیات ہیں جو انہوں نے امت اسلامی کی آنے والی نسلوں کے لئے چھوڑی ہوئی ہیں۔
٭٭ انقلاب اسلامی کے رہبر حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ ایک عوامی راہنما ہیں جنہوں نے انقلاب کا آغاز کیا تو بالکل تنہا تھے اور پھر ان کے شاگردوں اور طالبعلموں سے ان کا ساتھ دیا اور انھوں نے طاغوتی نظام کا تختہ الٹ دیا جو علاقے میں امریکہ کا پولیس مین سمجھا جاتا تھا۔ امام انقلاب اسلامی کے رہبر اور اسلامی جمہوری نظام کے بانی ہیں۔
٭٭ امام خمینی شاہی حکومت کے خلاف قیام کیا تو اس سے پیدا ہونے والے تمام خطرات کو دل و جان سے قبول کیا، ان کے گھر پر چھاپے مارے گئے، انہیں گرفتار کیا گیا اور قریب تھا کہ انہیں پھانسی کی سزا سنائی جاتی اور انہیں گرفتار کرکے ملک سے جلاوطن کیا گیا اور ان کے بیٹے آیت سید مصطفی خمینی کو شہید کیا گیا۔
** سیدحسن نصر اللہ نے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی قائدانہ صلاحیتوں اور سیاسی بصیرت کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ امام خمینی رحمۃ اللہ نے اسلامی انقلاب کی کامیابی میں کلیدی کردار ادا کیا، ملک میں ادارے تشکیل دیئے اور ملک کو نیا سیاسی ڈھانچہ عطا کیا۔
٭ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ بہت زيادہ شجاع اور بہادر تھے اور اسی بہادری کی بنا پر ایسے حال میں اپنے ملک لوٹنے کا فیصلہ کیا جبکہ شاہ کی حکومت قائم تھی اور ہوائی اڈوں سمیت ملک کے تمام حصوں پر فوج کا کنٹرول تھا۔ امام رحمۃاللہ علیہ پیرس سے طیارے پر سوار ہوئے اور ـ اسے کے باوجود کہ ان کے حامل طیارے کو گرایا بھی جاسکتا تھا وہ ـ بلاخوف و خطر ملک واپس آگئے اور ایک لمحے کے لئے خوفزدہ نہیں ہوئے حتی کہ انقلاب کو کامیابی کے مرحلے تک پہنچا گئے۔
٭٭ وہ دن دور نہیں ہے جب دنیا کے تمام بڑی تبدیلیوں اور انقلابات میں امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا کردار مزید واضح اور آشکار ہوجائے گا۔
ہم سب جانتے ہیں کہ منہدم اور ویران کرنا تعمیر کرنے اور بنانے سے بہت زیادہ آسان ہے اور بہت سے لوگ ممکن ہے کہ ویران اور منہدم کریں لیکن بنانے اور تعمیر کرنے میں ناکام رہ جاتے ہیں۔ مؤخر الذکر حصولیابی (یعنی ویران کرنے کے بعد تعمیرکرنا) بہت زیادہ اہم اور زیادہ عظیم ہے اور بہت سے عرب ممالک جو انقلاب کو انجام تک پہنچانے میں کامیاب ہوئے ہیں اب اس چیلنج کا سامنا کرنے کے مرحلے میں ہیں۔ اس میں شک نہیں ہے کہ کسی حکومتی نظام کو نیست و نابود کیا جاسکتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایک ملک کو نئے سرے سے بنایا جاسکتا ہے اور اس کی تعمیر نو کی جاسکتی ہے اور ایک ملک کی نئے سرے سے بنیاد رکھی جاسکتی ہے۔
٭٭ امام خمینی رحمۃاللہ علیہ ایک ملک کی تعمیر کے لئے اعتقادی بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں اور اسلامی تفکر میں ایک سیاسی نظام کی موجودگی کا مطلب یہ ہے کہ ایک حکومت قائم ہو اور ہرزمانے کے اپنے حالات کے مطابق ایک امیر اور ایک حاکم ہو اور یہ ایک طبیعی اور فطری امر ہے جس کے لئے دلیل و برہان لانے کی ضرورت ہے اور ہر معاشرے کے لئے ایک حکومت کی ضرورت کے لئے کسی دلیل و برہان کی ضرورت نہيں ہے۔
٭٭ ایک حکومت کی شکل و صورت اور ہیئت ترکیبی کے لئے استدلال و استنباط اور بحث و گفتگو کی ضرورت ہے لیکن عمومی مسائل کے انتظام کے لئے ایک حکومت کے قیام کی ضرورت ثابت کرنے کے لئے کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے بلکہ یہ ایک بدیہی اور مسلمہ امر ہے چنانچہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت میں انقلاب اسلامی کامیاب ہوا تو حکومت بنانے کا عمل فوری طور پر شروع ہوا اور امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ اس کام کے لئے تیار تھے چنانچہ انھوں نے حکومت کی ہیئت طے کرنے کے لئے بڑے بڑے مذاکرے کرائے۔ حکومت اور اس کے اداروں کی تشکیل کے لئے عملی کام کی انجام دہی میں فراست، علم و دانش اور مہارت کا استعمال ابتدائی لمحوں ہی سے شروع ہوا اور فوج، عوامی املاک اور حکومتی اداروں کو محفوظ کیا
٭٭ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے ملک کے سیاسی ڈھانچے کی تشکیل و تعمیر کے سلسلے میں آئین کو مقدم رکھا اور آئین کی تیاری کے لئے ماہرین کونسل کی تشکیل کے لئے انتخابات کرائے؛ یہ کونسل علماء، دانشوروں، اقتصاد دانوں، وکلاء اور جامعات کے اساتذہ پر مشتمل تھی۔ اور اس کے بعد امام رحمۃ اللہ علیہ نے وزارت عظمی کی بنیاد رکھی اور آئین تیار ہوا تو انھوں نے آئین عوام کے ریفرینڈم کے ذریعے منظور کروایا اور عوام نے اس کا خیرمقدم کیا تو اسی آئین کے تحت صدارتی انتخابات منعقد کرائے گئے اور یہ تمام اہم اور بنیادی امور ایک سے کم عرصے میں انجام پائے۔
٭٭ فلسطین کا مسئلہ ایک اعتقادی مسئلہ ہے جس پر کسی صورت میں بھی سازباز اور سودے بازی نہيں ہوسکتی۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے ابتداء ہی سے قدس اور فلسطین کے مسئلے کا اہتمام کیا اور اس طرف خاص طور پر متوجہ تھے اور عالمی چیلنج ان کے ارادے میں خلل کا سبب نہ بن سکے۔
٭٭ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ مسلمانان عالم کے درمیان تقریب و اتحاد اور مستضعفین عالم کے درمیان ہمفکری اور ہمآہنگی کے حوالے سے اپنے موقف سے ایک قدم بھی پیچھے نہيں ہٹے کیونکہ اتحاد بین المسلمین ان کے نزدیک ایک اعتقادی مسئلہ تھا اور اگر امام رحمۃ اللہ علیہ کے بغیر دوسرے کسی شخص نے اپنے ذاتی مفادات کو اہمیت دی ـ جس طرح کہ مصطفی کمال پاشا نے اپنے دروازے مغرب کے لئے کھول دیئے ـ تو امام نے ہرگز ایسا نہیں کیا۔
٭٭ ایران کے اسلامی انقلاب کو عظیم مسائل اور رکاوٹوں کا سامنا تھا اور یہ عوامی انقلاب تمام دشواریوں اور استثنائی حالات اور اضطراری صورت حال کے باوجود منزل مقصود تک پہنچا اور کامیاب ہوگیا۔
٭٭ امام خمینی رحمۃاللہ علیہ کی شخصیت کا عوامی پہلو عوام کی طرف سے ان کی ندا پر لبیک کی صورت میں اجاگر ہوا جبکہ امام خمینی رحمۃاللہ علیہ کی نگاہ اقتدار کی کرسی پر نہ تھی بلکہ ان کا بھی اور ان پیروکاروں کا بھی، مطمع نظر ملک کی تعمیر و ترقی تھی۔
٭٭ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا اہتمام اور توجہ ابتداء سے ہی فلسطین اور قدس پر مرکوز تھی اور عالم چیلنجز اس سلسلے میں بھی ان کے پائے ثبات میں لغزش کا سبب نہ بن سکے۔
٭٭ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ مسلمانوں کی وحدت اور ان کے ارتقاء کی دعوت دیتے رہے حتی کہ آپ دنیا کے مستضعفین کے اتحاد کے خواہاں تھے۔
٭٭ عراق کے آخری آمر صدام نے مغربی ممالک کی حمایت سے ایران اور امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کی قوم پر آٹھ سالہ جنگ مسلط کردی اور اس زمانے میں بہت سے ممالک صدام کے ساتھ کھڑے نظر آئے اور شام سمیت بہت تھوڑے سے ممالک نے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا ساتھ دیا۔