متفرقہ
آزادی کے دعویدار مغرب میں تضادات کانیا واقعہ

نسل پرست انگریزوں نے ایک ایرانی طالبہ کی طرف سے حجاب کے تحفظ پر اصرار دیکھ کر لندن کی ایک مرکزی شاہراہ پر انہیں زد و کوب اور زخمی کرنے کے بعد فرار ہوگئے۔رپورٹ کے مطابق خانم زہرا کاظمی صالح لندن میں مقیم ایرانی طالبہ اور لندن کی اسلامی سوسائٹی آف اسٹوڈنٹس کی رکن ہیں۔
آنسہ کاظمی 13 اپریل کو یونیورسٹی سے اپنی رہائشگاہ کی طرف جارہی تھیں؛ بیچ راستے انہیں چار نوجوان انگریز عورتوں نے گھیر لیا اور کہا: حجاب اتار کر پھینکو لیکن انھوں نے انکار کیا تو انگریز عورتوں نے انہیں زدوکوب کیا اور زخمی کرکے بھاگ گئیں۔انگریز عورتوں نے جب دیکھا کہ یہ مسلمان لڑکی اپنے حجاب کے تحفظ پر اصرار کررہی ہے تو انھوں نے لندن کی ایک مرکزی شاہراہ پر لوگوں کے سامنے اس کو زدو کوب کیا اور لندن جیسے شہر میں ـ جہاں سیکورٹی انتظامات بہت شدید ہیں اور پورے شہر میں شارٹ سرکٹ کیمروں کے ذریعے تمام شہریوں کی حرکات و سکنات کی نگرانی ہورہی ہے ـ ان عورتوں کو کسی قسم کی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور رات تک پولیس کی طرف سے بھی کسی قسم کے انتظامی اقدام کے بارے مین معلوم نہیں ہوسکا۔
لندن کی طلبہ کی اسلامی انجمن نے البتہ ایک بیان جاری کرکے برطانوی حکومت کو اسلام مخالف نسل پرست ٹولوں کی حمایت کی بنا پر اس واقعے کا ذمہ دار قرار دیا۔
واضح رہے کہ انسانی حقوق، آزادی اور جمہوریت و فردی حقوق کے دعویدار یورپ کا ماحول ان دنوں اسلامی حجاب کی خلاف بہت سنگین ہی اور سرکاری طور پر بہی حجاب کی خلاف عجیب و غریب اقدامات سامنے آرہے ہیں۔
فرانس نے چند ہی روز قبل حجاب کی خلاف اپنے ایک قانون کا نفاذ شروع کررکھا ہے اور حجاب کی پابند خواتین کے لئے 150 یورو جرمانے کی سزا کا اعلان کیا ہے؛ بلجیئم میں بھی حجاب پر پابندی کے حوالے سے قوانین موجود ہیں جبکہ دوسرے یورپی ممالک میں بھی یہی صورت حال ہے۔
وہ حجاب کے خلاف لڑتے ہوئے در حقیقت اسلام کے خلاف لڑ رہے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ حجاب اگر ایک طرف سے اسلام کا جزو ہے تو دوسری طرف سے یہ اسلام کی علامت بھی ہے اور وہ دیکھ رہے ہیں کہ حجاب خواتین کی عظمت کی نشانی ہے اور حجاب کی وجہ سے ان کی سلامتی کی ضمانت فراہم ہوتی ہے جس کی وجہ سے بہت سی غیر مسلم خواتین اسلام کی طرف مائل ہورہی ہیں اور پھر جس خاندان کی خواتین با پردہ ہونگی اس خاندان میں پروان چڑھنے والے بچے بھی راسخ العقیدہ مسلمان ہوسکتے ہیں چنانچہ وہ حجاب کے خلاف بے رحمانہ اور غیر انسانی رویہ اپنا کر در حقیقت اسلام کے خلاف اپنی دائمی و ابدی جنگ لڑرہے ہیں گو کہ بہت سی مسلمان قومیں ابھی تک یہ حقیقت تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ مسلمان بھی انسان ہیں اور ان کے بھی حقوق ہیں اور یہ کہ مغرب اسلام اور مسلمانوں کا خونی دشمن ہے۔
ہالینڈ کی پارلیمنٹ میں بھی نقاب اور حجاب پر پابندی کا قانون منظور کروانے کی کوششیں جاری ہیں؛ نام نہاد آزاد ترین ملک "سوئٹزر لینڈ” میں بھی حکومت نے اسکولوں اور سرکاری دفاتر میں حجاب پر پابندی لگانے کا بل تیار کیا ہے اور وہ یہ بل پارلیمنٹ بھیج کر اسی قانونی شکل دینا چاہتی ہے۔
برطانیہ کی کل چھ کروڑ آبادی میں 30 لاکہ مسلمان بھی شامل ہیں اور اسلامی بہت تیزی سے انگریز معاشرے میں فروغ پارہا ہے جس کی وجہ سے انگریز حکمران بھی فکرمند ہیں اور وہ اسلام کے فروغ
کا سلسلہ روکنے کے لئے مختلف قسم کی اقدام بروئے کار لارہے ہیں جن میں مسلمانوں کے خلاف مذہبی اور نسلی تعصب پھیلانا بھی شامل ہے۔


