متفرقہ
پاکستان میں خودکش دھماکے 2003 تا 2010

پاکستان کی تاریخ میں سب سے پہلا خودکش حملہ 19 نومبر 1995 میں اسلام آباد میں قائم مصر کے سفارتخانے میں ہوا۔ مصری حملہ آور نے بارود سے بھرا ٹرک سفارتخانے کے احاطے میں اڑا دیا جس کے نتیجے میں چودہ افراد ہلاک ہوئے
* دوسرا خود کش حملہ 6نومبر 2000کو کراچی میں ایک اخبار کے دفتر میں ہوا۔ جس میں مبینہ طور پر حملہ آور ایک خاتون تھی ۔* تیسرا خودکش حملہ بھی کراچی میں ہی 8مئی 2002کو شیریٹن ہوٹل کے باہر ہوا جس میں فرانسیسی انجینئرز سمیت 17افراد ہلاک اور 22زخمی ہوئے۔
* 2002 میں دوسرا خودکش حملہ بھی کراچی میں ہی امریکی قونصلیٹ کے باہر 14جون کو ہوا جس میں12افراد ہلاک اور 45زخمی ہوئے۔
* 2003میں پہلا خودکش حملہ 4جولائی کو کوئٹہ میں ایک امام بارگاہ میں ہوا جس میں 54افراد شہید ہوئے۔ اس حملے میں خودکش حملہ آوروں کی تعداد 3تھی ۔
* 2003میں دوسرا خودکش حملہ 25دسمبر کو صدر جنرل پرویز مشرف پر راولپنڈی میں ہونے والا حملہ تھا جس میں 15افراد جاں بحق اور 50زخمی ہوئے، اس حملے میں خودکش حملہ آوروں کی تعداد 2تھی ۔
* 2004خودکش حملوں کے اعتبار سے بدترین رہا اور اس سال مجموعی طور پر 5خودکش حملے ہوئے۔جن میں ستاون افراد ہلاک ہوئے۔ ان حملوں میں سے چار حملے فرقہ وارانہ تھے
* پہلا خودکش حملہ29فروری 2004کو راول پنڈی کے سیٹلائٹ ٹاؤن میں واقع ایک امام بارگاہ میں ہوا جس میں خوش قسمتی سے کوئی جانی نقصان نہیں ہواالبتہ 3افراد زخمی ہوئے ۔
* مئی 2004کراچی میں دہشت گردی کے اعتبار سے افسوسناک رہا جب 7مئی کو امام بارگاہ حیدری اور 31مئی کو امام بارگاہ علی رضا میں ظہر اور مغرب کی نمازوں کے دوران بم دھماکے ہوئے یہ دونوں حملے بھی خودکش تھے ۔امام بارگاہ حیدری کے واقعے میں 24افراد شہید اور 100زخمی جبکہ امام بارگاہ علی رضا میں خودکش حملے میں 23افراد شہید اور 40زخمی ہوئے۔
* 29جولائی کو وزیراعظم شوکت عزیز پر اس وقت خودکش حملہ کیا گیا جب وہ اپنی انتخابی مہم کے سلسلے میں اٹک میں ایک جلسے سے خطاب کے بعد واپس جارہے تھے۔ اس بم دھماکے میں 7افراد جاں بحق اور 70زخمی ہوئے ۔
* 2004 میں یکم اکتوبر کو سیالکوٹ کی امام بارگاہ میں بھی خودکش حملہ ہوا جس میں 25افراد شہید اور 50زخمی ہوئے۔
* 2005میں دو حملے ہوئے۔ یہ دونوں حملے فرقہ وارانہ تھے جن میں اکتیس افراد ہلاک ہوئے۔
* 27مئی کو اسلام آباد میں بری امام کے مزار میں مجلس عزا کے دوران بم دھماکے میں 28افراد شہید اور 67زخمی ہوئے ۔صرف 3روز کے بعد * 30مئی کو کراچی میں امام بارگاہ مدینتہ العلم پر خودکش حملے کی کوشش کی گئی جس میں پولیس اہلکار کی جانب سے حملہ آور کو امام بارگاہ کے باہر ہی روک دینے پر جانی نقصان زیادہ نہیں ہوا اس حملے میں 3افراد شہید اور 23زخمی ہوئے ۔رپورٹ کے مطابق اس حملے میں بھی خودکش حملہ آوروں کی تعداد 3تھی جس میں سے ایک زخمی حالت میں پکڑا گیا۔
* 2006میں ملک میں 7خودکش حملے ہوئے۔ ان حملوں میں لگ بھگ ایک سو چالیس افراد ہلاک ہوئے۔ ان حملوں میں صرف دو حملے فرقہ وارانہ تھے جن میں چالیس افراد ہلاک ہوئے
* پہلا حملہ ہنگو میں 9فروری کو 10محرم کے جلوس میں ہوا جس میں 40افراد شہید اور 26زخمی ہوئے جبکہ دوسرا حملہ 2مارچ کو امریکن قونصلیٹ کے عقب میں کیا گیا۔ جس میں ایک امریکی سفارتکار سمیت 3افرادہلاک اور 50زخمی ہوئے ۔
* 2006میں دہشت گردی کی سب سے بڑی واردات 12ربیع الاول کو کراچی میں نشتر پارک میں ہونے والے جلسے میں خودکش حملہ تھا جس میں 49افراد شہید اور 95زخمی ہوئے۔ چوتھا خودکش حملہ 2جون کو بنوں میں ہوا جب 2خودکش حملہ آوروں نے فرنٹیئر کانسٹیلبری کے قافلے کے قریب خود کو دھماکے سے اڑادیا اس واقعے میں 4افراد جاں بحق اور 8زخمی ہوئے ۔
* 26جون 2006کو شمالی وزیرستان کے علاقے میران شاہ میں خودکش حملہ ہوا۔ حملہ آور نے بارود سے بھری گاڑی ایف سی چیک پوسٹ سے ٹکرا دی ۔اس حملے میں 7افراد جاں بحق اور 20زخمی ہوئے ۔
* 14جولائی کو علامہ حسن ترابی پر ہونے والا خودکش حملہ چھٹا خودکش حملہ تھا جس میں وہ اپنے کمسن بھانجے سمیت شہید ہوئے ۔
* 8نومبر کو درگئی میں ہونے والا خودکش حملہ سال گذشتہ کا آخری خودکش حملہ تھا جس میں 42زیرتربیت فوجی جوان شہید اور20زخمی ہوئے۔
* 2007 پاکستان کی تاریخ میں خود کش حملوں کے حوالے سے بدترین رہا، 1995 سے 2006 کے اختتام تک پاکستان میں اکیس خود کش حملے ہوئے ، جبکہ صرف سال 2007 میں اب تک 29 خود کش حملے ہوئے۔
* 2007 خودکش حملوں کی ابتدا 26جنوری کو اسلام آباد کے میریٹ ہوٹل کے باہر ہونے والے خودکش حملے سے ہوئی جس میں 5افراد جاں بحق ہوئے۔
* 28 اپریل کو وفاقی وزیر داخلہ آفتاب احمد شیرپاؤ کے حلقہ انتخاب چارسدہ میں ان کے جلسے میں خودکش حملہ ہوا جس میں کم سے کم 31 افراد ہلاک ہوئے جبکہ آفتاب شیرپاؤ اور ان کے بیٹے سکندر شیرپاؤ سمیت درجنوں زخمی ہوئے۔
* 15 مئی کو پشاور کے مرحبا ہوٹل میں خودکش دھماکہ ہوا جس میں 25افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔ ہلاک ہونے والوں میں بیشتر افغان شہری تھے۔
* 28 مئی کو صوبہ سرحد کے ہی ضلع بنوں میں خودکش حملہ آور نے اپنی گاڑی فرنٹئر کانسٹیبلری کی ایک گاڑی سے ٹکرادی جس سے حملہ آور اور دو اہلکار ہلاک ہوگئے۔
* جولائی خودکش حملوں کے حوالے سے مہلک ترین ثابت ہوا جب اسلام آباد کی لال مسجد اور اس سے متصل جامعہ حفصہ کے خلاف آپریشن کے آغاز کے کچھ ہی دن بعد خودکش حملوں کا بظاہر نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا۔
* 4 جولائی کو قبائلی علاقے میران شاہ سے بنوں آنے والے ایک فوجی قافلے کو مبینہ خودکش حملے کا نشانہ بنایا گیا تھا، جس میں حکام کے مطابق چھ فوجیوں سمیت آٹھ افراد ہلاک اور بارہ زخمی ہوئے۔
* دو دن بعد 6 جولائی کو صوبہ سرحد کی مالاکنڈ ایجنسی کے چکدرہ پل کے ساتھ ہونے والے خودکش حملے میں چار فوجیوں کو ہلاک جبکہ ایک کو زخمی کر دیا گیا۔
* اس حملے کے چھ روز بعد یعنی12 جولائی کو ایک مبینہ خودکش بمبار نے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان کے صدر مقام میرانشاہ میں قائم پولیٹیکل ایجنٹ کے دفتر پر حملہ کردیا تھا جس میں دو افراد ہلاک اور تین زخمی ہوگئے تھے
* 12 جولائی کو ہی صوبہ سرحد کے ضلع سوات کے صدر مقام مینگورہ میں گاڑی میں سوار دو مبینہ خودکش حملہ آوروں نے اس وقت خود کو دھماکے کے ساتھ اڑادیا جب فوجی قافلے کا پیچھا کرتے ہوئے پولیس نے ان کی گاڑی روکی اور تلاشی کے دوران گاڑی میں دھماکہ ہوا جس میں تین پولیس اہلکار اور دو حملہ آور ہلاک ہوگئے۔
* 15جولائی کو صوبہ سرحد کے ضلع سوات اور ڈیرہ اسماعیل خان میں دو مختلف مبینہ خودکش حملوں میں گیارہ فوجیوں سمیت چالیس افراد ہلاک ہوئے۔ پہلا خودکش حملہ سوات کے علاقہ مٹہ میں پیش آیا تھا جس میں دو مبینہ خودکش حملہ آوروں نے فوجی قافلے کو نشانہ بنایا نتیجے میں تیرہ افراد ہلاک اور باون زخمی ہوگئے جبکہ دوسرے واقعے میں ڈی آئی خان میں پولیس بھرتی مرکز پر ہونے والے حملے میں چھ پولیس اہلکاروں سمیت ستائیس افراد ہلاک اور چالیس زخمی ہوئے۔
* دو دن بعد 17جولائی کو قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں سکیورٹی فورسز کی کھجوری چیک پوسٹ پر خود کش حملے میں دو فوجی اور خود کش حملہ آور سمیت پانچ افراد ہلاک ہوگئے۔
* 18 جولائی کو اسلام آباد ڈسٹرکٹ بار میں ہونے والے وکلاء کنونشن کے پنڈال کے قریب خود کش حملے میں بیس سے زائد افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔ یہ حملہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی آمد سے ذرا پہلے ہوا تھا۔
* 19 جولائی کو صوبہ سرحد کے شہروں ہنگو اور کوہاٹ جبکہ بلوچستان کے شہر حب میں تین خود کش حملوں میں باون افراد ہلاک ہوگئے۔
* 20 جولائی کو میرانشاہ میں سکیورٹی چیک پوسٹ پر خودکش بمبار نے بارود سے بھری گاڑی سے حملہ کیا جس میں ایک سکیورٹی اہلکار سمیت چار افراد مارے گئے۔
* 27 جولائی کو اسلام آباد کی آبپارہ مارکیٹ میں خود کش حملے میں سات پولیس اہلکاروں سمیت پندرہ افراد مارے گئے۔
* 2 اگست کو صوبہ پنجاب کے شہر سرگودھا میں پولیس کے تربیتی مرکز کو خودکش بمبار نے اڑانے کی کوشش کی لیکن پولیس افسر نے انہیں روکا جس کے نتیجے میں ایک پولیس افسر اور خود کش حملہ آور مارے گئے
* 3اگست کو صوبہ سرحد کے شہر مینگورہ میں ضلع ناظم کے اہلخانہ کو نشانہ بنانے کے لیے حملہ کیا۔ حملہ آور مارا گیا تاہم ناظم کے والد اور دیگر رشتہ دار زخمی ہوگئے۔
* 4اگست کو صوبہ سرحد کے علاقے پارہ چنار میں خود کش حملہ آور نے اپنی گاڑی ٹیکسی سٹینڈ میں گھسادی جس کے نتیجے میں نو افراد ہلاک ہوگئے۔
* 17اگست کو صوبہ سرحد کے شہر ٹانک میں فوجی قافلے پر حملے میں حملہ آور ہلاک اور پانچ فوجی زخمی ہوگئے۔
* 20 اگست کو ہنگو میں چیک پوسٹ پر خود کش حملہ آور نے بارود سے بھر گاڑی ٹکرادی جس میں چار سکیورٹی اہلکاروں سمیت پانچ افراد ہلاک ہوگئے۔
* 24 اگست کو شمالی وزیرستان کے شہر میر علی کے قریب اور قمر چیک پوسٹ پر دو علیحدہ خود کش حملوں میں پانچ اہلکاروں سمیت سات افراد مارے گئے۔
* 26 اگست کو صوبہ سرحد کے ضلع شانگلہ میں بارود سے بھری گاڑی کو روکنے پر دھماکہ ہوا جس میں ایک پولیس افسر سمیت چار اہلکار اور بمبار مارے گئے۔
* یکم ستمبر کو صوبہ سرحد کے شہروں باجوڑ اور جنڈولہ کے مقامات پر دو خودکش حملوں میں تین سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں سمیت پانچ افراد مارے گئے۔
* 4 ستمبر کو پاکستانی فوجی حکام کے مطابق راولپنڈی چھاونی میں یکے بعد دیگرے دو مبینہ خودکش حملوں میں پچیس افراد ہلاک جبکہ چھیاسٹھ زخمی ہوئے
* 22 ستمبر کو صوبہ سرحد کے جنوبی ضلع ٹانک میں ایک خود کش حملے میں ایک فوجی اہلکار زخمی جبکہ خود کش حملہ آور ہلاک ہوگیا
* 30 ستمبر ضلع بنوں میں ایک خودکش حملے میں پندرہ افراد ہلاک جبکہ انیس زخمی ہوگئے ۔
* 18 اکتوبر کو آٹھ سالہ جلاوطنی ختم کر کے وطن لوٹنے والی سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے استقبالی جلوس میں ہونے والے دو طاقتور بم دھماکوں کے نتیجے میں ہونیوالی ہلاکتوں کی تعداد ایک سوتینتالیس جبکہ زخمی افراد کی تعداد ساڑھے پانچ سو رہی۔
* 30 اکتوبر کو راولپنڈی میں کچہری چوک کے قریب راولپنڈی کینٹ کے پاس، پولیس چوکی پر ہونے والے ایک خود کش حملہ میں سات افراد ہلاک اور ایک خاتون سمیت چودہ زخمی ہوگئے
* یکم نومبر کو پنجاب کے شہر سرگودھا میں خود کش حملے میں کوسٹر میں سوار پاکستانی فضائیہ کے نو اہلکار ہلاک اور چالیس افراد زخمی ہوگئے۔
* 9 نومبر کو پشاور کے حیات آباد علاقے میں وفاقی وزیر امیر مقام کے گھر پر ہونے والے خودکش حملے میں تین سکیورٹی اہلکاروں سمیت چار افراد ہلاک ہو گئے ۔
* 21 نومبر سوات کے صدر مقام مینگورہ میں واقع سیدو شریف ائیر پورٹ کے قریب بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب خودکش بم حملہ کیا گیا۔حملے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار محفوظ رہے ہوائی اڈے کی جانب آنے والی ایک گاڑی کو ہوائی اڈے کے قریب ہی واقع فرنٹیر کانسٹیبلری کی چیک پوسٹ پر رْکنے کے لیے اشارہ کیا گیا لیکن ڈرائیور نے سڑک کے بیچ میں سیمنٹ کے بلاکس کی رکاوٹوں سے تیزی سے گزرنے کی کوشش کی تو موقع پر موجود قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں نے گاڑی کے ٹائروں پر فائر کرکے اْن کو ناکارہ بنا دیا۔اس موقع پرگاڑی میں سوار خودکش بمبار نے دھماکہ خیز مواد سے اپنی زندگی کا خاتمہ کردیا۔
24 نومبر کو راولپنڈی میں فیض آباد میں آئی ایس آئی کی عمارت کے مین گیٹ کے سامنے حساس ادارے کی بس پر ہونے والے خودکش حملے میں 34افراد ہلاک ہوگئے
* 4 دسمبر2007 ء کو پشاور کینٹ کے باہر خیبر روڈ پر سیکیورٹی فورسزکی چیک پوسٹ کے قریب روایتی افغان برقعے میں ملبوس خاتون نے خود کش حملہ کیاجس میں حملہ آور خاتون ہلاک ہوگئی۔حکام کے مطابق اس حملے میں سکیورٹی فورسز کا کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
* پیر 10 دسمبر صبح کو ایک خودکش حملے میں سات افراد جن میں پانچ سکول جانے والے بچے بھی شامل تھے، زخمی ہوئے
* 13 دسمبر کوئٹہ چھاونی میں فوجی چوکیوں کے قریب دو علیحدہ علیحدہ خود کش حملوں میں کم سے کم تین فوجیوں سمیت آٹھ افراد ہلاک اور اٹھارہ زخمی ہوئے
* ہفتہ 15 دسمبر کو پاکستان کے شمال مغربی صوبے سرحد کی سب سے اہم فوجی چھاونی نوشہرہ میں ہفتے کی صبح ایک خود کش بم حملے میں دو فوجیوں اور حملہ آور سمیت 8افراد ہلاک ہو گئے.
…………..
* 2008 میں 61 خودکش اوربم دھماکے ،889افراد جاں بحق ہوئے
سال 2008 ء میں سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے 9 سالہ اقتدار کے خاتمے اور نئی حکومت قائم ہونے کے بعد بھی ملک میں خودکش حملوں و دھماکوں کا سلسلہ نہ رک سکا ا ور نہ ہی ان واقعات میں کوئی کمی آئی ہے گزشتہ سالوں کی طرح اس سال بھی اسلام آباد سمیت قبائلی علاقوں اور مختلف شہروں میں خودکش حملوں اوردھماکوں کے واقعات رونما ہوتے رہے ۔ اس سال خود کش حملوں اور دھماکوں کے61 واقعات رونما ہوئے جبکہ گزشتہ سال یہ تعداد56 تھی۔ اسلام آباد کے ایک فائیو سٹار ہوٹل میرٹ ہوٹل میں رونما ہونے والے خودکش حملے کو ملک کی تاریخ کا 9/11 کا واقعہ قرار دیا گیا ۔سال 2008 ء میں رونما ہونے والے 61 خودکش حملوں و دھماکوں کے واقعات میں889 افراد جاں بحق اور 2 ہزار سے زائد زخمی ہوئے ہیں ان میں سیکورٹی فورسز اورپولیس کے اہلکار بھی شامل ہیں۔ مختلف ذرائع سے ثناء نیوز کو ملنے والے اعداد وشمار پر مشتمل ایک خصوصی رپورٹ کے مطابق سال 2008 ء میں سب سے زیادہ خودکش حملے اور دھماکے صوبہ سرحد اور قبائلی علاقوں میں رونما ہوئے ۔ سرحد میں 29 اورقبائلی علاقوں میں 16 واقعات ہوئے۔ اضلاع میں سوات 11 خود کش حملوں کے ساتھ سال 2008 ء میں سرفہرست رہا ۔ ان گیارہ حملوں میں101 افراد جاں بحق اور 294 زخمی ہوئے ہیں۔رپورٹ کے مطابق پشاور میں ا س سال 4 خود کش دھماکے کیے گئے جن میں99 افراد جاں بحق اور 226 زخمی ہوئے ہیں ۔ پنجاب میں د س خود کش حملے کیے گئے جن میں 5 صرف لاہور میں رونما ہوئے اندرون سندھ میں سال 2008 کے دوران کوئی خودکش حملہ یا دھماکہ نہیں ہوا جبکہ بلوچستان میں 23 ستمبرکو کوئٹہ میں خودکش حملہ میں ایک طالبہ جاں بحق اور23 دیگر افراد زخمی ہوئے ۔
…………..
2009
انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان نے اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ ملک میں انسانی حقوق کے لیے سب سے بڑا خطرہ دہشت گردی ہے اور گزشتہ سال کے دوران تیرہ سو کے قریب افراد خودکش حملوں میں ہلاک ہوئے ہیں۔
انسانی حقوق کمیشن نے سال دو ہزار نو کی سالانہ رپورٹ میں بتایا کہ گزشتہ برس پاکستان میں غیر سرکاری اعداد وشمار کے مطابق دہشت گردی کے دو ہزار پانچ سو چھیاسی واقعات میں تین ہزار اکیس افراد جانوں سے ہاتھ دھوئے بیٹھے جبکہ سات ہزار تین چونتیس زخمی ہوئے۔
رپورٹ میں بتایاگیا کہ سال دو ہزار نو میں ایک سو آٹھ خودکش حملے ہوئے جس میں مرنے والوں کی تعداد ایک ہزار دو سو چھیانوے ہے۔ رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ گزشتہ سال سب پہلے خودکش حملہ ڈیرہ اسماعیل میں چار جنوری کو ہوا جبکہ سال کا آخری خودکش حملے کراچی میں عاشورہ کے جلوس میں اٹھائیس دسمبر کو کیا گیا جس میں اکاون افراد ہلاک ہوئے۔
رپورٹ کے مطابق کہ سال دوہزار نو میں سب سے زیادہ خودکش حملے صوبہ سرحد میں ہوئے جبکہ پنجاب اس اعتبار سے دوسرے نمبر پر رہا جہاں سات دسمبر کو لاہور کی مون مارکیٹ میں ہونے والے خودکش حملے میں ستر افراد ہلاک ہوئے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ سال کے دوران کراچی میں دو سو اکانوے افراد ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنے جس میں سے دو سو سیاسی کارکن تھے جبکہ بلوچستان میں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت قتل کے لگ بھگ ایک سو چونسٹھ واقعات منظر عام آئے جن میں ایک سو اٹھارہ شہری اور ایک سو اٹھاون سیکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے۔
رپورٹ کے مطابق سال دو ہزار نو میں چوالیس ڈرون حملے کیے گئے جن میں صرف پانچ القاعدہ یا طالبان کے اہم رہنما ہلاک ہوئے جبکہ ڈرون حملوں میں سات عام مصوم شہریوں کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔
انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کی رپورٹ میں کہا گیا کہ سال دو ہزار نو کے دوران ملک کی پارلیمنٹ بہت کم کارروائی ہوئی اور قانون سازی کا زیادہ کام صدر کے خصوصی اختیارات کے تحت آرڈیننس جاری کر کے انجام دیا گیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا پچھلے سال میں پارلیمنٹ نے صرف چار قوانین منظور کیے جبکہ باسٹھ آرڈیننس جاری ہوئے جن میں موبائل کورٹس کے قیام کا آرڈیننس بھی شامل ہے جسے حکومت نے سول سوسائٹی کی طرف سے شدید نکتہ چینی کے بعد واپس لے لیا تھا۔
انسانی حقوق کمیشن کا کہنا ہے کہ سال دو ہزار نو میں خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا اور مجموعی طور پر ایک ہزار چار سو چار خواتین کو قتل کردیا گیا ۔ ان میں چھ سو سینتالیس خواتین کو ’غیرت‘ کے نام پر قتل کیا گیا جبکہ سات سوستاون خواتین کو دیگر وجوہات کی بنا پر قتل کیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق جنسی تشدد کے نو سو اٹھائیس واقعات منظر عام پر آئے۔ پانچ سو تریسٹھ خواتین نے خودکشی کرلی جبکہ دو سو ترپن نے اپنی زندگیوں کو ختم کرنے کی کوشش کی۔
رپورٹ میں اس بات پر تشویش ظاہر کی گئی ہے کہ کہ حکومت گھریلو تشدد سے نمٹنے کے لیے نیا قانون نافذ کرنے میں ناکام رہی اورگھریلوں تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ کے مطابق سال دو ہزار نو میں گھریلو تشدد کے دو سو پانچ واقعات سامنے آئے جبکہ دو ہزار آٹھ میں ان واقعات کی تعداد ایک سو سینتیس تھی۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ سال دوہزار نو میں موت کی سزا پر عمل درآمد بے ضابطہ طور پر معطل رہا لیکن سال کے دوران دو سو چھتر افراد کو پھانسی کی سزا سنائی گئی اور لگ بھگ سات ہزار سات سو افراد موت کی کوٹھڑیوں میں بند رہے۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال کےدوران ملک بھر میں خودکشیوں کے ایک ہزار چھ سو اڑسٹھ واقعات منظر عام پر آئے۔
انسانی حقوق کمیشن کی طرف سے جاری ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیا کہ گزشتہ برس میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف منظم اور پرتشدد واقعات میں اضافہ ہوا جبکہ کراچی اور گوجرہ میں حکومت اس نوعیت کے تشدد کو روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھانے میں ناکام رہی۔ رپورٹ میں کہاگیا کہ دو ہزار نو کے دوران توہین رسالت کے اکتالیس سے زائد واقعات سامنے آئے جبکہ احمدی مسلک سےتعلق رکھنے والے کم از کم پانچ افراد کو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت قتل کیا گیا۔سینتیس احمدیوں کےخلاف توہین رسالت ایکٹ جبکہ ستاون احمدیوں کے خلاف انسداد احمدیت قوانین کے تحت مقدمات درج ہوئے۔
رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات کی تعداد پندرہ تھی جن میں چھبیس افراد ہلاک ہوئے۔شادیوں کی رجسٹریشن میں قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے ہندو خواتین کی اکثریت کے پاس کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ موجود نہیں تھے۔
سال کا پہلا خود کش حملہ ڈیرہ اسماعیل خان جبکہ آخری کراچی میں یومِ عاشورہ کے جلوس پر ہوا
………….
سال 2010:
کراچی سے پشاور تک دھماکوں اورخودکش حملوں کی بازگشت
رواں سال، دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان کی ایسی تاریخ بن گیا ہے جس میں کراچی سے پشاور تک دھماکوں، بم دھماکوں اور خود کش حملوں کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ یہ دھماکے کب کب ہوئے اور ان میں کتنے کتنے افراد ہلاک یا زخمی ہوئے اس کا تفصیلی جائزہ پیش ہے:
یکم جنوری : سال کے پہلے ہی دن ایک خودکش حملہ آور نے بارود سے بھری گاڑی صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر لکی مروت کے ایک نواحی قصبے کے گراؤنڈ میں جاری والی بال کا میچ دیکھنے میں مصروف دیہاتیوں کے مجمع سے ٹکرادی۔ واقعے میں 105 افراد ہلاک ہوگئے۔
چھ جنوری: پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں ایک فوجی بیرک کے باہر ہونے والے دھماکے میں تین پاکستانی فوجی ہلاک اور 11 دیگر زخمی ہوگئے۔
تیس جنوری: پاکستانی وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقے باجوڑ ایجنسی کے صدر مقام خار میں ہونے والے ایک خودکش حملے میں 16 افراد جاں بحق اور 20 زخمی ہوگئے۔
یکم فروری: پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور معاشی شہہ رگ کراچی میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگ اور فسادات میں ایک ہی دن میں 26 افراد ہلاک ہوگئے۔
تین فروری: صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع لوئر دیر کے ایک نواحی علاقے میں ایک اسکول میں جاری تقریب پہ اس وقت خودکش حملہ کیا گیا جب علاقہ میں پاکستانی فوج کے انچارج افسر تقریب میں شرکت کیلیے پہنچے تھے۔ دھماکے میں تین کم سن طالبات سمیت دس افراد جاں بحق ہوگئے جن میں کم از کم تین امریکی سیکیورٹی آفیشل بھی شامل تھے جو پاکستانی پیراملٹری دستوں کی ٹریننگ کی غرض سے علاقے میں موجود تھے۔ دھماکے میں 63 طالبات سمیت کم ازکم 70 افراد زخمی بھی ہوئے۔
پانچ فروری: کراچی میں ایک مذہبی اجتماع میں شرکت کیلئے جانے والے شیعہ زائرین کی بس سے ایک موٹر سائیکل سوار خودکش حملہ آور ٹکرا گیا۔ واقعے میں 12 افراد جاں بحق اور کئی زخمی ہوگئے۔ ہلاک شدگان اور زخمیوں کو شہر کے جناح اسپتال منتقل کیا گیا جہاں کچھ ہی دیر بعد ایمرجنسی وارڈ کے باہر پارکنگ میں نصب ایک بم پھٹنے سے مزید 13 افراد ہلاک ہوگئے۔ ایمرجنسی وارڈ میں نصب دوسرے بم کو بعد ازاں ناکارہ بنادیا گیا۔
دس فروری: خیبر ایجنسی میں ایک سیکیورٹی پیٹرول ٹیم پہ ہونے والے خودکش حملے میں 13 پولیس اہلکاروں سمیت 19 افراد ہلاک ہوگئے۔ اسی روز ایجنسی میں وادی تیرہ کے مقام پہ فوج کی ایک ٹیم پہ گھات لگا کر حملہ کیا گیا جس میں ایک بریگیڈیئر سمیت تین اہلکار ہلاک ہوگئے۔
اٹھارہ فروری: خیبر ایجنسی کے ایک بازار میں ہونے والے بم دھماکے میں پندرہ افراد ہلاک اور سو سے زائد زخمی ہوگئے۔
پانچ مارچ: صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقے ہنگو سے کرم ایجنسی جانے والے ایک سیکیورٹی قافلہ پہ خودکش حملہ کیا گیا جس میں 12 افراد ہلاک اور 25 زخمی ہوگئے۔
آٹھ مارچ: پاکستان کے دوسرے بڑے شہر لاہور میں ایک حساس ادارے کے دفتر پہ ہونے والے خودکش حملے میں 13 افراد جاں بحق اور 90 سے زائد زخمی ہوگئے۔ دھماکے کی شدت سے حساس ادارے کے دفتر کی عمارت زمیں بوس ہوگئی۔
دس مارچ: اسلام آباد میں واقع ایک عالمی امدادی ادارے کے دفتر پہ دہشت گردوں کے حملے میں غیر ملکیوں سمیت چھ افراد ہلاک جبکہ سات دیگر زخمی ہوئے۔
بارہ مارچ: لاہور کے ایک مصروف علاقے میں پاکستانی فوج کے ایک قافلے پہ کیے جانے والے یکے بعد دیگرے دو خودکش حملوں میں45 افراد ہلاک اور سو سے زائد زخمی ہوئے۔ بعد ازاں اسی شام شہر کے مختلف علاقوں میں کئی چھوٹے دھماکے بھی ہوئے تاہم ان سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
تیرہ مارچ: ضلع سوات کے صدر مقام مینگورہ میں ایک رکشہ سوار خودکش بمبار نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ واقعے میں 10 افراد ہلاک اور 37 زخمی ہوئے۔
اکتیس مارچ: خیبر ایجنسی میں ایک حملے میں 6 پاکستانی فوجی ہلاک اور 15 دیگر زخمی ہوئے۔
پانچ اپریل: لوئر دیر کے علاقے میں منعقدہ عوامی نیشنل پارٹی کی ایک ریلی پہ ہونے والے خودکش حملے میں 43 افراد ہلاک اور 50 زخمی ہوگئے۔ اسی روز پشاور میں دہشت گردوں کی جانب سے امریکی قونصلیٹ پہ حملہ کیا گیا جس میں سات افراد ہلاک ہوئے۔
سولہ اپریل: کوئٹہ کے ایک اسپتال میں ہونے والے بم دھماکے میں 10 افراد ہلاک اور 35 دیگر زخمی ہوگئے۔
انیس اپریل: کوہاٹ میں ہونے والے یکے بعد دیگرے دو خودکش حملوں میں 23 افراد ہلاک اور 40 زخمی ہوئے۔
تئیس اپریل: شمالی وزیرستان کے علاقے دتہ خیل میں ایک سیکیورٹی کانوائے پہ ہونے والے حملے میں سات سیکیورٹی اہلکار ہلاک اور 15 زخمی ہوگئے۔
اٹھارہ مئی: ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک پولیس تھانے کے باہر کھڑی موٹرسائیکل میں نصب بم پھٹنے سے 12 افراد ہلاک اور 15 زخمی ہوگئے۔
بیس مئی: کراچی میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگ اور فسادات میں 23 افراد مارے گئے۔
اٹھائیس مئی: دہشت گردوں نے بیک وقت لاہور کے دوعلاقوں گڑھی شاہو اور ماڈل ٹاؤن میں واقع احمدی مذہب کی دو عبادت گاہوں پہ حملہ کرکے سینکڑوں افراد کو یرغمال بنالیا۔ بعد ازاں کئی گھنٹے جاری رہنے والی جھڑپ کے بعد دونوں جگہوں کو دہشت گردوں سے خالی کرالیا گیا تاہم واقعہ میں 95 افراد ہلاک اور 110 زخمی ہوئے۔
اکتیس مئی: لاہور کے ایک مصروف اسپتال پر دہشت گروں کے حملے میں آٹھ افراد ہلاک اور 40 زخمی ہوگئے۔ دہشت گردوں نے یہ حملہ اسپتال میں زیرِ علاج اپنے ایک زخمی ساتھی کو چھڑانے کیلیے کیا تھا تاہم وہ اس میں کامیاب نہ ہوسکے۔
نو جون: نیٹو سپلائی لے جانے والے ایک قافلے پہ اسلام آباد کے قریب حملہ کیا گیا۔ واقعے میں سات افراد ہلاک ہوگئے جبکہ سامان سے لدے بیس سے زائد کنٹینرز کوآگ لگادی گئی۔
چودہ جون: مہمند ایجنسی میں مقامی طالبان نے حملہ کرکے سات سیکیورٹی اہلکاروں کو ہلاک کردیا جبکہ دس دیگر کو یرغمال بنا لیا۔
یکم جولائی: لاہور میں واقع مشہور صوفی بزرگ حضرت داتا گنج بخش کے مزار پہ دو خودکش حملے کیے گئے جن میں 42 افراد ہلاک اور 180 سے زائد زخمی ہوگئے۔
نو جولائی: مہمند ایجنسی کے علاقے یکہ غنڈ میں ایک مقامی انتظامی اہلکار کے دفتر پہ کیے جانے والے خودکش حملے میں سو سے زائد افراد ہلاک اور 120 زخمی ہوگئے۔
سولہ جولائی: خیبر ایجنسی میں استعمال شدہ گاڑیوں کی فروخت کیلئے لگنے والے ہفتہ وار بازار میں ہونے والے بم دھماکے میں 10 افراد ہلاک اور 20 زخمی ہوگئے۔
سترہ جولائی: کرم ایجنسی سے پشاور جانے والے عام شہریوں کے قافلے پہ دہشت گردوں کے حملے میں 16 افراد ہلاک ہوگئے۔
چوبیس جولائی: دہشت گردوں نے صوبہ خیبر پختونخوا کے وزیرِ اطلاعات میاں افتخار حسین کے اکلوتے بیٹے کو نوشہرہ میں فائرنگ کرکے قتل کردیا۔ دو روز بعد، یعنی 26 جولائی کو مقتول کے سوئم کے موقع پر ان کی رہائش گاہ پہ خودکش حملہ کیا گیا جس میں آٹھ افراد ہلاک ہوگئے۔
دو اگست: کراچی میں ایک حکومتی اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے رکن صوبائی اسمبلی کو نامعلوم افراد نے قتل کردیا۔ واقعے کے بعد شہر میں ہنگامے پھوٹ پڑے اور اگلے تین روز میں 80 سے زائد افراد مارے گئے۔
چار اگست: پشاور میں ہونے والے ایک خودکش حملے میں فرنٹیئر کانسٹیبلری کے سربراہ صفوت غیور سمیت پانچ افراد ہلاک اور 12 زخمی ہوگئے۔
تئیس اگست: جنوبی وزیرستان کے صدر مقام وانا کی ایک مسجد کے باہر ہونے والے ایک خودکش حملے میں سابق رکنِ قومی اسمبلی مولانا نور محمد سمیت 24 افراد ہلاک اور 25 دیگر زخمی ہوگئے۔ اسی روز کرم ایجنسی میں کیے جانے والے ایک بم حملے میں سات افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
یکم ستمبر: لاہور میں ایک مذہبی جلوس میں ہونے والے بم دھماکے اور یکے بعد دیگرے دو خودکش حملوں میں 45 سے زائد افراد ہلاک اور 250 کے لگ بھگ زخمی ہوگئے۔
تین ستمبر: کوئٹہ میں یوم القدس کے حوالے سے منعقدہ ایک ریلی پہ خودکش حملہ کیا گیا جس میں 55 افراد ہلاک اور 100 سے زائد زخمی ہوگئے۔
سات ستمبر: خیبر پختونخواہ کے شہر کوہاٹ کی پولیس کالونی میں خود کش حملے کے نتیجے میں 24افراد ہلاک جبکہ اٹھاسی زخمی ہوگئے۔
بارہ ستمبر: کرم ایجنسی میں ایک گاڑی سڑک کے کنارے نصب بم سے ٹکراگئی، کم ازکم 6 افراد ہلاک۔
نو ستمبر:کرم ایجنسی فاٹا کے گاوٴں پلاسین میں ایک گاڑی سڑک کے کنارے نصب بم سے ٹکراگئی جس کے نتیجے میں 12 افراد ہلاک ہوگئے۔
سات اکتوبر: کراچی کی مشہور درگاہ عبداللہ شاہ غازی کے صدر دروازے پر دو خودکش دھماکے ہوئے جس کے نتیجے میں نو افراد ہلاک اور 65 زخمی ہوگئے۔
پچیس اکتوبر: پاک پتن میں خواجہ فرید کی درگاہ پر بم دھماکا، چھ افراد ہلاک ہوئے جبکہ متعدد زخمی۔
پانچ نومبر:عسکریت پسندوں کی جانب سے درہ آدم خیل اور پشاور کے قریب بڈھ پیر کی مسجد پر حملوں میں بالترتیب 68، اور 65افراد ہلاک اور 70، 70 زخمی ہوگئے۔
گیارہ نومبر:کراچی میں سی آئی ڈی ہیڈ آفس میں دھماکہ خیز مواد سے بھرے ٹرک کے ذریعے دھماکا، بیس افراد ہلاک، ایک سو زخمی ہوگئے۔
ستائیس نومبر: خیبر پختونخواہ کے درہ آدم خیل سے لکی مروت جانے والی بس پر نامعلوم افراد کا حملہ، تین مسافر ہلاک ہوگئے۔
تیس نومبر: خیبر پختوانخواہ کے ضلع بنوں میں میلان چوک کے قریب پولیس وین پر خودکش حملے میں چھ افراد ہلاک ہوگئے جن میں ایک پولیس اہلکار بھی شامل تھا۔
چھ دسمبر: فاٹا کی مہمند ایجنسی کے ہیڈکوارٹر غلانئی کے اسسٹنٹ پولیٹکل ایجنٹ کے دفتر کے باہر جرگے میں دو خودکش بم دھماکے میں 40 افراد ہلاک اور 70 زخمی ہوگئے۔
آٹھ دسمبر: اورکزئی ایجنسی کے تیرہ بازار میں بس اسٹینڈ پر کھڑی بس میں دھماکے سے اٹھارہ افراد ہلاک اور 32 زخمی ہوگئے۔
دس دسمبر: ضلع ہنگوکے زیر تعمیر اسپتال سے دھماکا خیز مواد سے بھری گاڑی ٹکرانے کے نتیجے میں 17 افراد ہلاک اور 20 زخمی ہوگئے۔
24 دسمبر باجوڑ کے ہیڈکوارٹر میں بظاہر ایک خاتون نے خودکش دھماکہ کرکے 44 افراد کو قتل اور 62 کو زخمی کیا