مشرق وسطی

ہم سیدہ زینب(ع) اور امام خامنہ ای کے فدائی ہیں/ ابوہاجر اور ابونوح کی شہادت کی تفصیلات

abu nohرپورٹ کے مطابق حال ہی سیدہ زینب(س) کے مدافعین اور تکفیری دہشت گردوں کے درمیان شدید لڑائی میں ذوالفقاربریگیڈ کے دو کلیدی کمانڈروں نے جام شہادت نوش کیا جس کی وجہ سے ہم نے بھی اپنا فرض سمجھا کہ مدافعین حرم کی خبروں کو کوریج دیں۔
بےشک یہ شیعہ ویب سائٹوں اور چینلوں کا فرض ہے کہ وہ ظلمتوں کی اس دنیا میں جبکہ ظلمتوں کے علمبرداروں کی سفاکیوں کی حمایت کرنے کے لئے متعدد چینل مصروف عمل ہیں آتش و آہن کا سامنا کرنے والے ان مجاہدین کو توجہ دیں۔
ہم یہاں مذکورہ مجاہد کمانڈر کا نام و نشان فاش کرنے سے معذور ہيں اور انہیں ابوشہد کے نام سے متعارف کراتے ہيں جیسا کہ عرب ذرائع ابلاغ بھی انہيں ابو شہد کے نام سے جانتے ہیں؛ وہی جو "لواء ذوالفقار” کے چیف کمانڈر ہیں۔
انھوں نے کہا: ہم نے عقیلہ بنی ہاشم حضرت ثانی زہراء سیدہ زینب بن علی(س) کے حرم اور شیعہ علاقوں کا تحفظ کرنے کے لئے چھ مہینے قبل "لواء ابی الفضل العباس(ع)” کے ساتھ لواء ذوالفقار” کو تشکیل دیا۔ اس مہم کو میں اور میرے چند ساتھیوں سے سرانجام دیا۔
ابو شہد نے کہا: جب سے حرم کے دفاع کے لئے مختلف گروپ تشکیل پائے ہیں دہشت گرد حرم سیدہ زینب(ع) پر حملہ کرنے کی جرات نہيں کرسکے ہیں اور زينبیہ کے علاقے میں امن و امان ہے چنانچہ اسی سلسلے میں ہم نے شیعہ علاقوں کا دفاع بھی اپنے پروگرام میں شامل کیا۔
انھوں نے ابنا کے نامہ نگار سے بات چیت کرتے ہوئے مزید کہا: تین ماہ قبل ہم نے 200 سے زائد افراد کو لے کر اردن کی سرحدوں کے قریب درعا شہر کی طرف عزیمت کی جہاں متعدد شیعہ علاقے ہیں اور ہمارا مشن یہ تھا کہ دہشت گردوں کو شیعہ علاقوں سے نکال باہر کریں۔
انھوں نے کہا: درعا کے علاقوں "مخیّم”، "سحاری”، "المنشیہ” اور "عتمان” کے علاقوں میں ہمارے اور تکفیری دہشت گردوں کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئیں اور اکثر علاقوں کو دہشت گردوں سے واپس لیا گیا۔
ابوشہد نے مزید کہا: "عثمان” نامی علاقے کو آزاد کرانے کے لئے کاروائی کا آغاز بروز پیر مورخہ 25 ستمبر کی صبح 04:00 بجے ہوا۔ گھمسان کی جنگ شروع ہوئی ور ہم نے دشمن کی افرادی قوت اور جنگی صلاحیت کو شدید ترین نقصانات پہنچائے۔
انھوں نے کہا: ابوہاجر میرے جانشین اور قائم مقام تھے؛ ‎ظہر کا وقت ہوا تھا اور ہم "منطقۃ عثمان” کا کافی علاقہ دشمنوں سے آزاد کراچکے تھے۔ تقریبیا 14:30 بجے تھوڑا سا آرام کرنے کے لئے واپس آرہے تھے کہ اسی اثناء ایک تکفیری دہشت گرد نے فاضل صبحی کو ـ جو ابوہاجر کے نام سے مشہور تھے ـ سنیپر کے ذریعے نشانہ بنایا۔ دہشت گرد نے 500 میٹر کے فاصلے سے دور کے فاصلے تک مار کرنے والی بندوق "سنیپر” کے ذریعے نشانہ بنایا۔ ہم واپسی کی حالت میں تھے چنانچہ پہلی گولی ان کی کمر کو لگی اور دوسری گولی نے ان کے سینے کو نشانہ بنایا۔
مدافعین حرم فورسز کے اس اعلی اہلکار نے کہا: "عیسی الرفیعی”، ـ جو "ابو نوح” کے نام سے مشہور تھے، ـ نے جب ابوہاجر کی شہادت کا نظارہ دیکھا تو عجلت سے ان کی طرف لپکے تا کہ ابوہاجر کا جسم تکفیریوں کے دسترس سے خارج کردیں، اسی وقت تکفیری دہشت گرد نے انہيں بھی شہید کردیا۔
انھوں نے ابو نوح کا تعارف کراتے ہوئے صرف اسی جملے پر اکتفا کیا کہ "وہ ایک عراقی تھے جو صوبہ ذی قار کے دارالحکومت ناصریہ سے سیدہ زینب(س) کے دفاع کے لئے شام پہنچے تھے۔

ابو شہد نے کہا: ہمارے دو بھائیوں کی شہادت پر حرم کے مجاہدین نے تکفیری دہشت گرد کے ٹھکانے پر حملہ کیا لیکن وہ تیزی سے بھاگ گیا اور ہم اس کو پکڑ نہ سکے۔ لیکن اس تکفیری کا تعاقب کرتے ہوئے تین دہشت گردوں کو واصل جہنم کیا۔
انھوں نے کہا: درعا شہر کو دہشت گردوں سے خالی کرانی کی کاروائی میں ہمار دو مذکورہ بھائی شہید اور 14 افراد زخمی ہوئے۔
انھوں نے اس دلیر شیعہ کمانڈروں کی میتیوں کی منتقلی کے بارے میں کہا: طے یہی تھا کہ اگر علاقہ ابوہاجر کی منتقلی کے لئے پرامن نہ ہو تو انہيں ایران منتقل کیا جائے اور پھر نجف اشرف لے جایا جائے۔
یاد رہے کہ بدھ کے روز (مورخہ 17 ستمبر 2013) کو حرم سیدہ زینب(س) کے ایک مدافع ابوغدیر نے ابنا کے سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ شہیدوں کی میتیں ایران اور اس کے بعد نجف منتقل کی جائیں گی۔
ابو شہد نے مزید کہا: خوش قسمتی سے شہیدوں کی میتیں دمشق سے براہ راست پرواز کے ذریعے نجف پھجوائی گئیں۔
انھوں نے کہا کہ شہیدوں کی میتیں شام چار بجے ہزاروں عاشقان اہل بیت(ع) کے ہاتھوں پر اپنی آخری آرامگاہوں کی طرف سے منتقل کی گئیں اور دونوں کی تدفین کی گئی۔
لواء ذوالفقار کے چیف کمانڈر نے ابنا کے نامہ نگار کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا: حرم کے مدافعین اپنی ذمہ داریوں سے بخوبی واقف ہیں اور ہم اپنے خون کے آخری قطرے تک حضرت زینب (سلام اللہ علیہا) اور امام خامنہ ای کے فدائی ہیں اور رہيں گے، عسکری اور انسانی قوت کے لحاظ سے ہمارے پاس کوئی کمی نہیں ہے اور ہم پوری قوت و استحکام کے ساتھ کھڑے ہیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button