عراق

امام علی النقی اور امام حسن العسکری(ع) کے حرم کی تعمیر نو کے آخری مراحل

imam ali naqiرپورٹ کے مطابق شیعہ تقویم اس حقیقت کا بیّن ثبوت ہے کہ امام ہادی اور امام عسکری علیہما السلام کے حرم شریف کو تاریخ میں ناصبی دہشت گردوں نے 13 مرتبہ شہید کردیا ہے۔
آخری بار دشمنان اہل بیت(ع) کی گستاخی 23 محرم الحرام 1427 (بمطابق 22 فروری 2006) کی صبح کو ہوئی جب سامرا میں عسکریین علیہما السلام کے حرم شریف کو مکمل طور پر شہید کیا گیا۔
اس دردناک المئے کے بعد عراق اور ایران میں عام سوگ کا اعلان کیا گیا۔ حوزات علماء کے علماء اور مراجع تقلید نے اپنے دروس کی چھٹی کردی اور اکثر بڑے شہروں کے بازاروں بند ہوئے۔
امام عسکریین علیہما السلام کے مرقد مطہر کی حرمت شکنی پر رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای ـ دامت برکاتہ ـ نے بھی ایک بیان جاری کیا اور فرمایا:
"فتنہ انگیزوں کے شرپسند ہاتھ نے ایک بار پھر زہر آلود خنجر امت اسلامی کے پیکر میں گھونپ دیا اور المناک جرم کا مرتکب ہوا۔ سامرا کے حرم مطہر میں دھماکے کے حادثے اور امامین عسکریین سلام اللہ علیہما کے مرقد مطہر کی حرمت شکنی نے نہ صرف شیعیان عالم کے دلوں کو خون کر دیا اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کے خاندان مکرم سے عشق و عقیدت رکھنے والے عام مسلمانوں کو مغموم اور مجروح کردیا بلکہ پوری دنیا کو ایک ہولناک سازش کے روبرو لاکھڑا کیا جس کا ہدف عراق میں خانہ جنگی کو ہوا دینا اور مسلم اقوام کو خونی مذہبی اور فرقہ وارانہ تنازعات میں الجھانا ہے”۔
آپ نے اس عظیم مصیبت کے سلسلے میں حضرت بقیۃ اللہ ـ ارواحنا فداہ ـ کی خدمت میں تعزیت پیش کرتے ہوئے خداوند متعال سے مسلم اقوام کے سروں سے ظالم اور کافر مستکبرین کے شر کے دفع ہوجانے کی دعا کی۔

اس حرم مطہر کا ملبہ ہٹتے ہی اس کی تعمیر نو کا کام شروع ہوا اور اس کے گنبد کی تعمیر کا کام 2010 میں شروع ہوا۔ اس گنبد منور کا کل رقبہ 1200 میٹر مربع ہے اور عتبات عالیات کے بڑے گنبدوں میں شمار ہوتا ہے۔ یہ گنبد گذشتہ موسم گرما میں سونے کی 23000 اینٹیں لگا کر مکمل کیا گیا۔ دشمنان اہل بیت(ع) کے ہاتھوں شہید ہونے سے قبل اس حرم کے گنبد کا آخری سونے کا کام قاجار سلسلہ حکومت کے زمانے میں انجام دیا گیا تھا۔
عرب ذرائع کے مطابق امامین عسکریین علیہما السلام کے حرم شریف کی تعمیر نو پر آنے والی لاگت ایک کروڑ ڈالر ہے۔
عتبات عالیات کی تعمیر نو ادارے کے سربراہ حسن پلارک اس بارے میں کہتے ہیں: آئینہ کاری (Mirror Work)، چونا کاری يا گچ کاری (Stucco Work)، کاشی کاری (Tile Work) وغیرہ کی تکمیل ہوچکی ہے اور اب صرف تعمیرات کے لئے لگی ہوئی مچانوں (Scaffoldings) کو اتارنے کا کام باقی ہے۔
انھوں نے سامرا کے محل وقوع اور حالات کے پیش نظر یہ نہیں بتایا کہ حرم مطہر کو مفروش کرنے اور رونمائی کی تاریخ کا اعلان نہیں کیا۔
حرم کے صحن و سرا کی تعمیر نو کے علاوہ ضریح مطہر کی تعمیر کا مسئلہ درپیش تھا جس کی وجہ سامرا میں امن و امان کی صورت حال تھی اور کام بڑی آہنستگی سے بڑھ رہا تھا جس کی وجہ سے مؤمنین و محبین اہل بیت(ع) بھی ناراض تھے چنانچہ ضریح مطہر کے اخراجات مرجع تقلید آیت اللہ العظمی سید علی سیستانی نے اپنے ذمے لئے۔
اس کے بعد ضریح مطہر کی تعمیر کے لئے قم مقدسہ میں ایک ورکشاپ 2010 میں ہی قائم کیا گیا جس کی نگرانی آیت اللہ العظمی سیستانی کے نمائندے حجت الاسلام والمسلمین سید جواد شہرستانی کو سونپ دی گئی۔
ضریح کے ڈیزائنر "سید مہدی علمدار” ہیں اور ڈھانچے کے ڈیزائنر مہدی خوش نژاد جبکہ نجاروں کی ٹیم کے سرپرست سید مہدی دیدار ہیں۔ سیدالشہداء امام حسین (علیہ السلام) کی نئی ضریح پر خطاطی کا کام کرنے والے مشہور خطاط سید محمد حسینی موحد نے اس ضریح مطہر کی خطاطی کا کام بھی سرانجام دیا ہے۔

ورکشاپ کے ڈائریکٹر حجت الاسلام والمسلمین سید ابراہیم لاجوردی کا کہنا ہے کہ امام عسکریین علیہما السلام کی ضریح میں 70 کلوگرام سونا، 4500 کلوگرام چاندی، 1100 تانبا اور 11 ٹن ساگوان کی لکڑی سے استفادہ کیا گیا ہے۔ ساگوان کی لکڑی کم از کم تین صدیوں تک بادوام رہتی ہے۔
انھوں نے کہا: ضریح کے اندر چار مرصع اور کندہ کاری شدہ صندوقوں اور 12 سنہری دروازوں سمیت تمام مراحل مکمل ہونے کے بعد ضریح کا وزن 22 ٹن تک پہنچے گا اور ان تمام مراحل پر 20 ارب تومان کی لاگت آئے گی نیز تمام تر اخراجات آیت اللہ سیستانی کا دفتر برداشت کرے گا؛ چنانچہ کہا جاسکتا ہے کہ امامین عسکریین کی ضریح اور دروازوں کے اخراجات یک مشت دفتر کی طرف سے ادا کئے جائیں گہ گوکہ کسی حد تک عوامی نذورات بھی اس کام کے لئے ورکشاپ کو دی جاچکی ہیں؛ جبکہ امام حسین(ع) کی ضریح کو عوام کی مدد سے تعمیر کیا گیا تھا۔
عراق کی مجلس اعلائے اسلامی کے سربراہ سید عمار حکیم سمیت متعدد شخصیات نے ضریح پر ہونے والے کام کو قریب سے دیکھا ہے۔
ضریح پر نوے فیصد کام مکمل ہوچکا ہے اور اگلے پانچ مہینوں میں یہ کام سو فیصد مکمل ہوگا اور وقتی طور پر لگائی گئی ضریح کو اٹھا کر نئی ضریح نصب کی جائے گی۔
سامرا میں حضرت امام علی النقی الہادی علیہ السلام، حضرت امام حسن العسکری علیہ السلام، امام ہادی(ع) کے فرزند، امام زمانہ علیہ السلام کی والدہ ماجدہ حضرت بی بی نرجس خاتون سلام اللہ علیہا، امام ہادی(ع) کی والدہ ماجدہ، امام محمد تقی الجواد علیہ السلام کی بیٹی سیدہ حکیمہ خاتون سلام اللہ علیہا اور امام حسن عسکری(ع) کی والدہ سیدہ حدیثہ سلام اللہ علیہا، مدفون ہیں۔
نچلی تصویر میں ایک قبر انفراد طور پر موجود ہے جو سیدہ حکیمہ خاتون(س) کی قبر شریف ہے اور بائیں سے دائیں یا نچلی جانب ترتیب کے ساتھ امام علی النقی، امام حسن عسکری، امام زمانہ کی والدہ سیدہ نرجس خاتون (سلام اللہ علیہم اجمعین) کی قبریں واقع ہیں چنانچہ ضریح چار ضلعی نہیں بلکہ ہشت ضلعی بنائی گئی ہے۔
حقیقت میں قبلہ کی سمت دائیں سے بائیں کی طرف ہے اور بڑے امام (امام علی النقی علیہ السلام) کی قبر قبلہ کی طرف واقع ہوئی ہے، اس کے پیچھے دوسرے امام (امام حسن عسکری علیہ السلام) کی آرامگاہ ہے۔ امام کے قدموں کی طرف سیدہ حکیمہ خاتون کی قبر ہے جو امام جواد(ع) کی بیٹی، امام ہادی(ع) کی ہمشیرہ اور امام حسن عسکری (ع) کی پھوپھی ہیں اور امام عسکری(ع) کی قبر کے پیچھے ان کی زوجہ مطہرہ اور امام زمانہ کی والدہ کی قبر واقع ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button