عراق

عراق، دھشتگردی اورقیمتی انسانی جانوں کے ضیاع میں استعماری کردار

iraq flaqاسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کی ترجمان نے امریکی صدرکے اس بیان کے بارے میں کہ ایران کے خلاف فوجی آپشن بدستور باقی ہے کہا کہ آج امریکہ ایک بڑے امتحان سے گذر رہا ہے کہ وہ کس قدر جنگ پسندوں کے مقابل پائداری کرسکتا ہے۔
افغانستان کے وزیر خارجہ نے ایران اورافغانستان کے دوستانہ تعلقات اور قریبی تعاون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ بیرونی افواج کے انخلا کے بعد ایران، افغانستان کی مدد کرنے کے لئے اہم رول ادا کرسکتا ہے۔
پاکستان کے شہرکراچی میں شیعہ مسلمانوں کی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ بدستور جاری ہے اور دھشتگردی کے تازہ واقعہ میں دہشت گردوں نے فائرنگ کر کے مسجد و امام بارگاہ آل محمد کے ٹرسٹی سید حسن جوادکو شھید کر دیا۔
ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر کی اسمبلی میں ہندوستان کے سابق آرمی چیف جنرل وی کے سنگھ کے بیان پر ہنگامہ آرائی کے دوران ارکان اسمبلی نے مطالبہ کیا کہ آرمی چیف سے ان کے بیان کی وضاحت ما نگی جائے۔
غزہ میں صیہونی فوجیوں کی وحشیانہ جارحیت کا سلسلہ بدستور جاری ہے جس کے نتیجے میں شمالی غزہ میں ایک اور فلسطینی مسلمان شہید ہوگیا۔
برطانوی جریدہ ”اکنامسٹ“ کے مطابق مغربی ممالک میں غیر مسلموں کے اسلام قبول کرنے میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اورصرف برطانیہ میں ایک لاکھ افراد اسلام قبول کرچکے ہیں ۔
امریکہ میں شٹ ڈائون8لاکھ ملازمین تنخواہوں سے محروم متعدد سرکاری ادارے بند، امریکہ دیوالیہ ہونے کے دہانے پر۔
ان موضوعات کے علاوہ جو موضوع خاص اہمیت کا حامل ہے وہ ہے عراق میں جاری دھشتگردی،دھشتگردانہ کاروائیاں اورقیمتی انسانی جانوں کے ضیاع میں استعماری کردار۔
ان دنوں عالم اسلام کے خلاف استعماری سازشیں عروج پر ہیں اورکئی اسلامی ممالک میں استعمار سے وابستہ عناصراپنے آقاوں کے حکم کی تعمیل کر رہے ہیں انہی ممالک میں سے ایک عراق ہے کہ جہاں آئے دن درجنوں مسلمانوں کو خاک و خون میں نہلایا جارہا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق گزشتہ3روز میں عراق کے مختلف علاقوں میں ہونے والے بم دھماکوں کے نتیجے میں200سے زائدافراد جاں بحق ہوئے
عراق میں 2006 سے 2007 تک جو عراق پر امریکی تسلط کا دور تھا فرقہ وارانہ تشدد کا عروج دیکھا گیا جس میں کئی ہزار افراد ہلاک ہو گئے تھے اوراب یوں دکھائی دے رہا ہے کہ عراق کو دوبارہ اسی خونریز ڈگر پر چلانے کی سازش تیار کرلی گئی ہے۔ ہر چند کہ
آج ہتھیاروں کی جنگ کا دور ختم ہوچکا ہے۔ اسلحے کی جگہ فکری و نظریاتی لڑائی نے لے لی ہے۔ فکری جنگ دو طرح سے لڑی جاتی ہے۔ کبھی لوگوں کی توجہ کسی ایک نکتے پر مرکوز کی جاتی ہے اور کبھی فکری انتشار پیدا کرکے اصلی اور اساسی نکتے سے توجہ ہٹائی جاتی ہے۔
مثال کے طور پر گذشتہ کئی سالوں سے بعض عرب ممالک کی ساری توجہ ایران پر لگی ہوئی ہے اور وہ اس بات سے مکمل طور پر غافل ہیں کہ استعماری دنیا انہیں بے وقوف بنا کر ان کا تیل لوٹ رہی ہے۔ اگر عرب حکمرانوں کی فکر سے استعماری پہرہ ہٹا دیا جائے تو عربوں کو صاف نظر آئے گا کہ اصل طاقت استعمار کے جنگی ہتھیاروں میں نہیں بلکہ عربوں کے تیل میں ہے۔
استعمار کے ہاتھوں فکری طور پر مغلوب ہونے کے باعث عرب ہیرے سے زیادہ قیمتی تیل کو نیلام کر رہے ہیں اور کچرے سے زیادہ بے قیمت ہتھیاردھڑا دھڑ خرید رہے ہیں۔ آج اکثر عرب حکمران یہ سوچنے پر بھی تیار نہیں ہیں کہ ان کی اصل دولت تو لٹ رہی ہے، ان کے معدنی ذخائر مکمل طور پر غیروں کے ہاتھوں میں ہیں، ان کے سیاسی و اقتصادی فیصلے امریکہ اور یورپ میں ہوتے ہیں، ان کے دل میں اسرائیل کا ناسور جنم لے چکا ہے اور ان کی رگِ جاں بلامبالغہ پنجہ یہود میں آچکی ہے۔ عرب حکمرانوں کی اس فکری غلامی کے باعث اس صدی میں پوری دنیا میں عالمِ اسلام کی وحدت کو سخت دھچکا لگا ہے۔ خطے کے ممالک میں القاعدہ کی موجودگی نہ فقط باعث بنی کہ خطہ، امریکی فوجی مراکز کی جانب سے جدید ترین ہتھیاروں کے تجربات کی لیبارٹری میں تبدیل ہو جائے بلکہ خود خطہ بھی دنیا میں اسلحہ کی بڑی مارکیٹ بن گیا۔
امریکہ میں اسلحہ ساز کمپنیوں کا اثر و رسوخ اور اہم امریکی سیاسی مراکز پر اسلحہ ساز کمپنی مالکین کا کنٹرول باعث بنا کہ امریکہ خطے میں جنگ کی آگ بھڑکانے اور ممالک کو القاعدہ سے ڈرانے دھمکانے کے ذریعے انہیں زیادہ سے زیادہ امریکی اسلحہ خریدنے کی ترغیب دلائے اور اس طرح امریکی اسلحہ ساز کمپنیوں کو عظیم مالی فائدے سے سرشار کر دے جو خطے کی عوام کے خون کے بدلے حاصل ہوا ہے۔ ان مقاصد کا حصول بھی خطے میں القاعدہ جیسی تنظیموں کی موجودگی کے بغیر ممکن نہ تھا۔
اس طرح سے القاعدہ امریکہ اور مغربی دنیا کے ہاتھ میں ایک کارڈ کے طور پر ظاہر ہوئی تاکہ یہ ممالک جب چاہیں اس کارڈ کو کھیل کر خطے میں اپنے مفادات کو حاصل کر سکیں۔ عراق میں امریکہ کی جانب سے القاعدہ جنگجووں کی حمایت اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ حال ہی میں عراق کی ایک تحقیقاتی کمیٹی نے اعلان کیا کہ بصرہ کے جنوب میں واقع جیل سے القاعدہ کے 12 دہشت گردوں کو فرار کروانے میں امریکی فوجیوں کا بنیادی کردار تھا۔ یہ کمیٹی عراقی پارلیمنٹ کی جانب سے تشکیل پائی تھی۔
کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق امریکی فوجیوں نے ان 12 القاعدہ دہشت گردوں کو جیل سے فرار کروانے کیلئے جو 2011 کے آغاز میں عراقی سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں گرفتار ہوئے تھے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ یہ افراد کئی دہشت گردانہ اقدامات میں ملوث تھے جن میں 2010 میں بصرہ میں ہونے والا بم دھماکہ بھی شامل تھا۔ جو القاعدہ کے مزید گستاخ ہونے کا باعث بنا اورموجودہ صورتحال میں امریکہ اور استعمار کی توجہ ایک بار پھر عراق پر مرکوزہوئی اور اس ملک میں دھشتگردانہ کاروائیوں کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہوا۔ یہ ایک
حقیقتِ ہے کہ استعمار سے ہم آہنگی کے طور پر عرب بادشاہوں نے اسلام کو ایک آلے کے طور استعمال کیا ہے۔ دنیا میں جتنے بھی پرتشدد واقعات ہوئے، ان میں سلفیت اور وہابیت کے چہرے کو باقاعدہ منصوبے کے طور پر سامنے لایا گیا ہے، حالانکہ اگر دہشت پسندوں کے چہرے سے اسلام کا ماسک ہٹا دیا جائے تواس کے پیچھے خود امریکہ اور سعودی عرب کے حکمرانوں کا چہرہ نظر آئے گا ۔ استماری طاقتیں عرب حکمرانوں کو ایران سے ڈرا کر ایک تو ان کے معدنی ذخائر لوٹ رہی ہیں اور دوسرے عرب حکمرانوں کے ذریعے سلفیت اور وہابیت کو پرتشدد کارروائیوں میں استعمال کرکے لوگوں کو اسلام سے متنفر کر رہی ہیں۔ یہ سارا ظلم اس لئے ہو رہا ہے کہ استعماری طاقتوں نے عرب حکمرانوں کو فکری طور پر محبوس کر رکھا ہے۔
اورہمیں انہی فرعی اور مصنوعی مسائل میں الجھا دیا گیا ہے جس کے بدلے ہمارے معدنی ذخائر اس وقت غیر ملکی کمپنیاں دیمک کی طرح چاٹنے میں مصروف ہیں لیکن ہمیں اس کا احساس ہی نہیں،
اس وقت پوری دنیا میں اس فکری جنگ کا بہترین ہتھیار میڈیا ہے۔ میڈیا صرف ٹیلی ویژن، ریڈیو، اخبار یا ویب سائٹ ہی نہیں بلکہ ہماری اپنی گفتگو اور کردار و رفتار بھی ایک میڈیا ہے۔ البتہ تیز ترین اور موثر ترین میڈیا الیکٹرانک میڈیا ہی ہے۔ آپ الیکٹرانک میڈیا کا جائزہ لے کر دیکھیں کہ استعماری قوتیں مختلف نیٹ ورکس کے ذریعے پوری امت مسلمہ کی فکر پر کیسے منظم طریقے سے کام کر رہی ہیں۔ لوگوں کے دماغوں میں یہ بیج بویا جا رہا ہے کہ مسلمان، علماء اور اسلام سے نفرت کریں یعنی یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ مستقبل کا مسلمان نام کا تو مسلمان ہو لیکن اسلام کو ضابطہ حیات نہ سمجھے اور فکری طور پر کیمونسٹ یا سیکولر بن جائے۔ اس وقت اس منصوبے پر عمل در آمد کے لئے دنیائے اسلام میں فرقہ واریت اور شدت پسندی کو مختلف طریقوں سے راسخ کیا جا رہا ہے،اوراس کے مقابلے میں
عالمِ اسلام کو موجودہ بحرانوں سے نجات دلانے کے لئے اس فکری آتش فشاں کو قابو کرنا بہت ضروری ہے۔ عالمِ اسلام کی باہمی غلط فہمیوں کو دور کرنے اور عالمِ کفر کی چالوں کو سمجھنے کے لئے ایک عالمی اسلامی میڈیائی نیٹ ورک کی ضرورت ہے۔ ایک ایسا نیٹ ورک جو ممالک اور مسالک کی تفریق سے بالاتر ہو اور امت مسلمہ کی نظریاتی و فکری رہنمائی کرے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ فکری جنگ میں کبھی تو لوگوں کی فکر کو کسی ایک نکتے پر لگا کر اور کبھی منتشر کرکے اپنے مقاصد حاصل کئے جاتے ہیں اور اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو مسلمانوں کے ہاں نام کے مسلمان لیکن فکر کے دہشتگرد، کیمونسٹ اور سوشلسٹ مسلسل جنم لیتے رہیں گے۔ غلط فہمیوں اور بدگمانیوں کے اس دور میں اس فکری آتش فشاں کو قابو کرنے کی تگ و دو کرنا ہم سب کی دینی و ملّی ذمہ داری ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button