عراق

عراق اور امریکی دباؤ

Iraq_Flagامریکہ کے چیف آف آرمی اسٹاف مائیک مولن عراق کے اچانک دورے پر بغداد پہنچے ہیں جہاں انہوں نے عراق کے وزیر اعظم نوری المالکی سے ملاقات کی ہے۔
سیاسی مبصرین مائیک مولن کے دورۂ عراق کا کئی پہلوؤں سے جائزہ لے رہے ہیں۔ بعض مبصرین کا یہ کہنا ہے کہ چونکہ عراق سے  ہونے والے معاہدے کے تحت امریکہ کو دو ہزار گیارہ کے اختتام تک عراق سے اپنی افواج کا انخلا کرنا ہے لیکن وہ دو ہزار گیارہ کے بعد بھی اس ملک میں اپنی فوجی موجودگی باقی رکھنا چاہتا ہے اور اس کے لیے وہ عراقی حکومت پر مختلف طریقوں سے دباؤ ڈال رہا ہے اور امریکی حکام کے عراق کے دوروں کو بھی اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ وہ عراقی حکومت میں اپنے وفادار لوگوں کی نمائندگی بھی چاہتا ہے اور اس کے لیے بھی مختلف ہتھکنڈے اختیار کر رہا ہے لیکن عراقی حکام نے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ وہ عراق میں حکومت سازی کے سلسلے میں کوئي غیرملکی دباؤ قبول نہیں کریں گے۔ لیکن ان باتوں کے ساتھ ساتھ جو اہم ترین مسئلہ ہے وہ اسرائیل کا تحفظ ہے۔ علاقے میں ایک مضبوط خود مختار اور طاقتور عراق جہاں علاقے کے لیے انتہائی اہم ہے وہیں بڑی طاقتیں خاص طور پر امریکہ اور اسرائیل اسے اپنے لیے ایک بڑا خطرہ تصور کرتے ہیں اور اسرائیل نے تو اسی کی دہائی کے اوائل میں عراق کے ایٹمی ری ایکٹر پر حملہ کرکے اسے تباہ کر دیا تھا اور علاقے میں اسلامی ملکوں کو کمزور کرنے کے لیے انہوں نے ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد صدام کو اکسا کر ایران پر فوجی حملہ کرایا اور آٹھ سال تک اس کی بے دریغ فوجی اور مالی حمایت و مدد کی۔ اس طرح جہاں انہوں نے دو مسلمان ملکوں کو آپس میں لڑایا وہیں عراق کو بےتحاشا اسلحہ دے کر اپنے اسلحہ ساز کارخانے بھی چالو رکھے اور عراق کی تیل کی دولت کو بےدردی سے لوٹا اور جب صدام سے کام نکل گیا تو اسے کویت پر حملے کے لیے ہری جھنڈی دکھائی اور پھر اسی بہانے سے امریکہ علاقے میں اپنی فوجیں لے آیا اور اب وہ یہاں سے جانے پر تیار نہیں ہے اور اس کے لیے وہ طرح طرح کے بہانے بناتا ہے کبھی تو وہ علاقے کے ممالک کے لیے ایران کو ایک خطرہ ظاہر کرتا ہے اور اس بہانے سے وہ اربوں ڈالر کا اسلحہ ان ممالک کو بیچتا ہے اور کبھی وہ مختلف علاقوں میں دہشت گردی کی کارروائیاں کراتا ہے اور امن و امان کے مسئلے کو بنیاد بنا کر وہ اس علاقے میں رہنا چاہتا ہے۔
مائیک مولن کے دورۂ عراق سے قبل عراق میں دہشت گردی کے کئی واقعات بھی اسی سلسلے کی کڑی دکھائی دیتے ہیں کہ امریکہ عراقی حکومت پر یہ ظاہر کرے کہ عراق میں امن و امان کی صورت حال تسلی بخش نہیں ہے اورعراقی سکیورٹی فورسز ابھی ملک میں امن و امان کی صورت حال کو کنٹرول نہیں کر سکتیں اس لیے امریکی افواج کا یہاں رہنا ضروری ہے۔
بہرحال اب جبکہ عراق میں ایک منتخب حکومت وجود میں آ چکی ہے اور اس نے حکومت سازی میں غیرملکی مداخلت کوبھی سختی سے مسترد کر دیا ہے اور وہ اپنے تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو فروغ دینے پر زور دے رہی ہے تو اب یہ توقع کی جا رہی ہے کہ عراق کی حکومت غیرملکی خاص طور پر امریکی دباؤ میں نہیں آئے گی اور صرف وہی اقدامات کرے گی جو عراقی حکومت اور عوام کے حق میں ہوں گے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button