ایران

بسیج ایک عظیم ، درخشاں اور بے نظیر حقیقت ہے۔ رہبر معظم

aytullahkhaminai-baseejرہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے عید سعید غدیر خم ، عید ولایت و امامت اور 5 آذر ماہ  مطابق( 26 نومبر) بسیج و رضاکار فورس کی تشکیل کی مناسبت سے 110 ہزار بسیجیوں کے اجتماع میں غدیر کے عظیم الشان واقعہ کو تاریخ میں تمام انسانی معاشرے کے لئے سعادت بخش ، عدل و انصاف پر مبنی پیشوائی اور ولایت کا مظہر قراردیا اور بسیج کے بے مثال و بے نظیر درخشاں کارناموں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: بسیجی باقی رہنا اور استقامت و پائداری ، اخلاص و بصیرت کو مضبوط بنانا در حقیقت ایرانی قوم کی نہائی کامیابی کے بارے میں اللہ تعالی کے  سچے وعدے کے محقق ہونے کی اصلی رمز ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عید سعید غدیر خم کی مناسبت سے ایرانی قوم اور  عدل و انصاف کے چاہنے والوں اور حریت پسندوں کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے فرمایا: غدیر کی حقیقت و واقعیت سب مسلمانوں اور ان تمام افرادسے متعلق ہے جو انسان کی فلاح و بہبود کے لئے دلی ہمدردی اور سوز و گداز رکھتے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد حضرت علی علیہ السلام کی جانشینی پر شیعوں کے محکم و مضبوط اور راسخ اعتقاد کو یقینی اور ناقابل تردید دلائل پر استوار قراردیا اور اسلام کے بزرگ محدثین کے جانب سے حدیث غدیر کے متواتر ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ولایت کے وہی معنی جوپیغمبر اسلام (ص) کے بارے میں نمایاں اور موجود ہیں وہی معنی حضرت علی (ع)کی ولایت کے بارے میں بھی محقق ہیں۔ کیونکہ حضرت اللہ کو اللہ تعالی نے پیغمبر اسلام کا جانشین مقرر اور منصوب کیا ہے اور پیغمبر اسلام نے اس امر کو غدیر کے میدان میں عوام تک پہنچایا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام کی پوری زندگی بالخصوص جوانی کو اسلام اور پیغمبر اسلام کے دفاع ، بصیرت، شجاعت استقامت اور تقوی کے مختلف میدانوں میں درخشاں اوربے نظیر قراردیتے ہوئے فرمایا: تمام لوگوں بالخصوص جوانوں کو اپنی زندگی کے ہر لمحہ میں مولائے متقیان حضرت علی علیہ اسلام کے با عظمت وجود سے نور ہدایت و سعادت کو کسب و درک کرناچاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے پیغمبر اسلام (ص) کے جانشین کی اللہ تعالی کی طرف سے تنصیب اور مسئلہ امامت پر خصوصی توجہ مبذول کرنے کو غدیر خم کے دو اساسی اور بنیادی پہلو قراردیا اور امامت کے مفہوم کی اہمیت کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: امامت یعنی معاشرے اور انسانوں کی رہنمائی اور پیشوائی کوایک شخص یا گروہ ہاتھ میں لے لے اور دین و دنیا کے معاملے میں ان کی ہدایت اور رہنمائی کرے لہذا امامت اس معنی میں انسانی معاشرے کی تمام تاریخ کا اصلی مسئلہ رہا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں امامت کو دو متفاوت قسموں پر تقسیم کرتے ہوئے فرمایا: ایک قسم کی پیشوائی اور رہبری یہ ہے جس کا اعلی اور کامل نمونہ اور مصداق انبیائے الہی ہیں، عادل آئمہ خداوند متعال کے حکم اور اللہ تعالی کی رہنمائی کے سائے میں لوگوں کو منزل مقصود تک پہنچاتے اور ان کی ہدایت و رہنمائی کرتے ہیں اور دوسری قسم کی پیشوائی کہ فرعون جس کا مصداق اور نمونہ ہے اور جس کے ذریعہ لوگوں کوتباہ و برباداور ہلاک و فنا کیا جاتا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امامت کے مفہوم کی مزید تشریح کرتے ہوئے فرمایا: دنیا کی سب سے زیادہ سیکولر حکومتوں میں بھی سیاسی مراکز کو دینی اور معنوی مراکز سے جدا کرنے کے تمام دعوؤں کے باوجود حکمرانوں کے دست قدرت میں لوگوں کی دنیا اور آخرت دونوں ہیں اور اس معاشرے کی دنیاوی اور اخروی زندگی حکمرانوں کی عملی طور پر مداخلت اور سمت و سو کی روشنی میں تشکیل پاتی ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مغرب کےبڑے بڑے اداروں اور دنیا کے منہ زور پیشواؤں اور رہنماؤں کو اس دور کے فرعون قراردیتے ہوئے فرمایا:اس دور کے منہ زور حکمران بھی لوگوں کو تباہی ،بربادی اور ہلاکت کی طرف لے جاتے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حکومت کی تشکیل اور نبوی مدنی معاشرے کی پیدائش کے سلسلے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اقدام کو اس حقیقت کی آشکارا اور واضح دلیل قرار دیا کہ اسلام صرف زبانی نصیحت اور دعوت تک محدود نہیں ہے بلکہ معاشرے میں الہی احکامات کو نافذ کرنے پر زور دیتا ہے اور یہ اعلی نورانی مقصد عادلانہ اور منصفانہ حکومت کی تشکیل کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے واقعہ غدیر میں اللہ تعالی کے حکم وفرمان سے پیغمبر اسلام (ص) کے جانشین کے تعین کو اسی سلسلے کی ایک کڑی قرار دیتے ہوئےفرمایا: اگرچہ تاریخ اسلام کسی اور راہ پر چل پڑی لیکن تاریخ میں یہ سعادت بخش نظریہ اور معیار باقی رہا ، یہاں تک کہ حضرت امام خمینی(رہ)  اور ایرانی قوم کے جذبہ ایمانی اور استقامت و پائداری کے نتیجے میں دنیا کے اس خطے میں یہ امر محقق ہوگیا اور پروردگار متعال کے فضل و کرم سےعالم اسلام میں اسے روز بروز فروغ ملے گا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایک لاکھ دس ہزار بسیجیوں اور رضاکار دستوں کے عظیم اجتماع کو ملک بھر میں بسیج کے عظیم اورمعطر گلستاں کی ایک جھلک قرار دیتے ہوئےفرمایا: ہمارے عظیم الشان امام (رحمۃ اللہ علیہ) نے اپنی بصیرت اور دور اندیشی کی بنیاد پر اس گلستان کو وجود عطا کیا اور اپنے کردار و بیانات سے اس کی اس انداز سے آبیاری کی کہ وہ روز بروز مزید تناور ،شاداب اور بارآور بنتا جا رہا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بسیج کو درخشاں، عظیم ، بے مثال اور بے نظیر حقیقت قراردیا اور بسیج میں زن و مرد اور پیر و جواں سب کی موجودگی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: بسیج میں تمام ایرانی اقوام کی موجودگی اورطلبہ، اساتذہ، علماء، مزدور و محنت کش طبقہ، کسانوں، تاجروں اور دیگر سماجی، علمی اور اقتصادی اصناف کی شمولیت نے اس عظیم اور لا متناہیحقیقت کے ہمہ گیر ہونے کی علامت ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ملت ایران کے دشمنوں اور ملک کے اندر ان کے حواریوں اور نقش قدم پر چلنے والے عناصر کی جانب سے بسیج کی توہین اور اس کو کمزور کرنے کی کوششوں شکست سے دوچار قرار دیتےہوئے فرمایا:  وہ لوگ کلام اللہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سلسلے میں بھی اسی قسم کی توہین آمیز حرکتیں کرتے ہیں لیکن ان کےگستاخانہ اقدامات سے بسیج کی قدرتی اور فطری عظمت و شان و شوکت میں کوئی فرق نہیں پڑےگا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بسیج کو ایک منظم اور قواعد و ضوابط کا پابند ادارہ قرار دیا اور اس مجموعہ کی ایمانی و معنوی خصوصیت پر تاکیدکرتے ہوئے فرمایا: کمیت اور تعداد کے لحاظ سے بھی دنیا کی کوئی تنظیم بسیج کا مقابلہ نہیں کر سکتی لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ بسیج عقائد، ایمان اور جذبات پر استوار ایک منظم ادارہ ہے اور یہی ایمانی جذبات و احساسات اور عقائد مشکل اور دشوار مراحل میں ملک اور قوم کی مشکلات کو حل کریں گے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بسیج کی قدردانی کو سب کا فریضہ اور ذمہ داری قرار دیتے ہوئےفرمایا: سب سے پہلے مرحلے میں بسیجیوں کو چاہیے کہ اس تنظیم میں اپنی رکنیت پر اللہ کا شکر ادا کریں اور اس شکر کا تقاضہ یہ ہے کہ بسیجیوں کی فکر و عمل میں بسیج کی ایمانی بنیادیں زیادہ سے زیادہ مضبوط بنائیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے زندگی کےمختلف میدانوں میں موجودگی اور شراکت کو بسیج کی اہمیت کی ایک اور وجہ قرار دیتے ہوئےفرمایا: بسیج اور رضا کار فورس نے ویسے تو فوجی دفاعی میدان میں زبردست اور نمایاں کارنامہ انجام دیا ہےلیکن وہ اپنے اخلاص، ایمان، شجاعت اور خلاقیت کی بنا پر ہر جس میدان میں بھی وارد ہوگی وہاں وہ  سب سے آگے رہے گی۔ چنانچہ آج بسیجی اساتذہ اور طلبہ علم و دانش کے میدانوں میں سب سے زیادہ کامیاب افراد میں شامل نظر آتے ہیں اور بسیجی فنکار بھی درخشاں کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اخلاص اور بصیرت کو بسیج کی اساسی اوربنیادی صفات قرار دیتے ہوئےفرمایا: یہ دونوں فیصلہ کن عناصر ایک دوسرے کے لئے ممد و معاون ہیں، چنانچہ انسان کی بصیرت میں جتنا اضافہ ہوگا اس کے اخلاص میں بھی اتنا ہی اضافہ ہوگا اور انسان کے اندر جتنا خلوص ہوگا اللہ اس کی بصیرت میں بھی اتنا ہی اضافہ کرے گا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے خواہشات نفسانی کو بصیرت کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ قرار د یا اور سن دو ہزار نو (1388) کے منصوبہ بند فتنوں کے دوران بعض افراد کی کارکردگی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ان واقعات کے دوران بعض آشوب پسندوں نے اقتدار حاصل کرنے کے لئے ملک کے مفادات کو بھی نظر انداز کر دیا اور راہ حق کی تابناک سچائی سے جان بوجھ کرمنہ پھیر لیا۔ یہاں تک کہ ان کے ان اقدامات سے ایرانی کے سب سے بڑے دشمن بھی وجد میں آ گئے اور ان کی حمایت کرنے لگے لیکن کچھ لوگ اس حقیقت کو نہیں دیکھ سکے اور آج بھی نہیں دیکھ رہے ہیں جبکہ بعض افراد ان حقائق کو سجمھتے ہوئے بھی دل کے سیاہ ہو جانے کی وجہ سے اپنے اس فہم کے مطابق عمل کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
مسلح افواج کے کمانڈر انچیف اوررہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں بسیجی اور رضاکار دستوں میں شمولیت کو ایک مبارک و مسعود قدم قرار دیتے ہوئےفرمایا : بسیجی باقی رہنا اور راستے پر ثابت قدمی کے ساتھ چلنا بہت زیادہ اہم ہے اور بسیجی بنے رہنے کے لئے مسلسل ہوشیاری اور بیداری کی ضرورت ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ایران کی پیشرو قوم کے عظیم انقلاب کو مادیت میں غرق دنیا کے جہنمی راہ و روش کو تبدیل کر دینے کی تلاش و کوشش سے تعبیر کرتے ہوئے فرمایا: دنیا کی آبادی کے ایک بہت بڑے حصے نے ایرانی قوم کے سعادت بخش انقلاب کی حقیقت کو درک کرلیا ہے لیکن دنیا کی بڑی طاقتیں ملت ایران کے حیات بخش پیغام کے مقابلے میں دشمنی پر کمر بستہ ہو گئی ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اللہ تعالی کے حتمی وعدے کی تکمیل اور ملت ایران کی فتح و کامیابی کو اسلامی انقلاب سے استبدادی و استکباری محاذ کے ٹکراؤ کا آخری نتیجہ قرار دیتے ہوئے فرمایا: دشمنوں کی جانب سے اس درخشاں اورتابناک مستقبل تک پہنچنے کے سلسلے میں ملت ایران کے سامنے ہمیشہ رکاوٹیں کھڑی کی جاتی رہیں گی ، لہذا اس سلسلے میں مکمل طور پر آمادہ اور تیار رہنا چاہیے۔
رہبر  معظم انقلاب اسلامی نے عصری ضروریات کے مطابق قومی آمادگی کی بار بار تجدید، بصیرت و اخلاص کی تقویت اور بسیجی تقاضوں پر مسلسل عمل کو ایرانی قوم کی کامیابی کا راز قراردیا اور امید ظاہر کی کہ ملک کی موجودہ نوجوان نسل اس دن کا ضرور مشاہدہ کرے گی جب ایرانی قوم  دنیوی اور اخروی سعادت کی بلند چوٹی تک پہنچ جائے گی اور دنیا کی دیگر قومیں بھی ایرانی قوم کے اس مایہ ناز اور قابل فخر مقام و مرتبہ کی طرف گامزن ہونگی۔
ایک لاکھ دس ہزار بسیجیوں کی شاندارتقریب میں جب رہبر معظم انقلاب اسلامی جلوہ افروز ہوئے تو بعض بسیجیوں نے مختلف قومیتوں کی نمائندگی کرتے ہوئے رہبر معظم کا خیر مقدم کیا۔ تقریب کے آغاز میں پاسداران انقلاب اسلامی کے کمانڈر میجر جنرل جعفری نے بھی عید غدیر کی مناسبت سےمبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا : بسیج کا شجرہ طیبہ جو ملک کے قومی اقتدار کا ایک اہم ستون سمجھا جاتا ہے اس کی یہ تلاش و کوشش ہے کہ اپنی حرکت کے اصلی معیاروں یعنی بصیرت و اخلاص اور بر وقت اور مناسب اقدام کو کو صاف و شفاف کرنے کرنے کے ساتھ اپنی اندرونی صلاحیتوں کو مضبوط و مستحکم بنائےاور انقلاب کی حفاظت و پاسداری کی راہ میں اپنے معنوی پہلو اور بسیجیوں کی ذاتی اور علمی کامیابیوں میں مزید اضافہ کرے۔
اس تقریب میں "بسیج مستضعفین” کے سربراہ میجرجنرل نقدی نے ہفتہ بسیج اور عید غدیر کی ایک ساتھ آمد کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا : بسیجیوں اور رضاکار دستوں  نے تعمیر و ترقی، علم و دانش اور سافٹ ویئر جنگ سمیت ہر میدان اور ہر شعبہ  میں اپنی کارکردگی میں نمایاں اضافہ کیا ہے اور آج ملک بھر کے چار سو شہروں میں منعقد ہونے والے بسیج کے اجتماعات میں ولی امر مسلمین سے تجدید عہد و پیمان کیا جا رہا ہے۔
اس تقریب میں تمام بسیجیوں کی جانب سے بسیج کا عہد نامہ پڑھا گیا۔

متعلقہ مضامین

Back to top button