مقالہ جات

امریکہ، تکفیری دھشتگرد گروہوں کا حامی و مددگار

amrica9امریکی سینیٹر رینڈ پاول نے مشرق وسطی خاص طور سے شام سے متعلق اپنے ملک کی پالیسوں پر کڑی تنقید کرتے ہوئے عراق میں جاری بحران کو شام میں داعش دہشتگرد گروہ کےلئے امریکہ کی حمایت کا نتیجہ قراردیا ہے ۔ امریکی ریپبلکن سینیٹر رینڈ پاول نے واشنگٹن کی غیر منطقی پالیسیوں کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا ہے کہ یہ پالیسیاں، مشرق وسطی میں دہشتگردوں کو محفوظ پناہگاہیں فراہم کرنے کا باعث بنی ہیں۔ امریکی ریپبلکن سینیٹر رینڈ پاول نے کہا ہے کہ داعش دہشتگرد گروہ کے افراد کو ہتھیاروں کی فراہمی سے حالات مزیدخراب ہوئے ہیں۔ اس امریکی سینیٹر نے کہا ہے کہ امریکہ نے داعش گروہ کے افراد کو یہ ہتھیار، حکومت شام کے مقابلے میں فراہم کئے ہیں جب کہ اب وہ عراق میں شام کے ایک اتحادی ملک کی حمایت میں پالیسی اختیار کررہا ہے۔ دوسری جانب امریکہ کے ایک اور سینیٹر ٹڈکروز نے، جو امریکی کانگریس میں صیہوبی لابی کا حصہ شمار ہوتے ہیں، امریکی پالیسیوں پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ کی غلط پالیسیاں، دنیا میں واشنگٹن کی ساکھ خراب ہونےاور ایران، روس اور چین کو امریکہ پر برتری حاصل ہوجانے کا باعث بنی ہیں ۔ اس موضوع پرعالمی امور کے ہندوستانی تجزیہ نگار قمرآغا سے رابطہ قائم کرکے پہلے یہ جاننے کی کوشش کی کہ جس طرح امریکی سینیٹر رینڈ پاول نے واشنگٹن کی غیر منطقی پالیسیوں کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا ہے کہ یہ پالیسیاں، مشرق وسطی میں دہشتگردوں کو محفوظ پناہگاہیں فراہم کرنے کا باعث بنی ہیں۔ آپ کے خیال میں امریکہ مشرق وسطی میں کس منصوبے پردھشتگردوں کے ذریعے عمل در آمد کرانا چاہتا ہے۔
جس طرح ابھی اپنی گفتگو میں ہندوستان کے معروف سینیئر تجزیہ نگار قمر آغا نے کہا کہ امریکہ اپنے مفادات کی خاطر دوسرے ممالک کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ علاقائی ممالک کے تعلق سے دوہرے معیارات کا حامل ہے اور ویٹو پاور ہونے کی وجہ سے امریکہ اقوام متحدہ کی بات بھی نہیں مانتا۔ انہوں نے کہا کہ شام اور عراق پر تکفیری دہشتگردوں کو حملہ کرنے کے لئے امریکہ، سعودی عرب، قطر، کویت اور متحدہ عرب امارات نے مالی اور فوجی مدد دی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ مشرق وسطی میں ایک بڑا کھیل کھیلنا چاہتا ہے اور اس کا اہم اور اصل مقصد علاقے کی معدنیات بالخصوص تیل اور گيس پر قبضہ کرنا ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی حضرت آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای نےبھی عراق کی حالیہ تبدیلیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہےکہ اسلامی جمہوریۂ ایران کا خیال ہے عراق کے عوام، حکومت اور مرجعیت، اس جنگ کی آگ کو بجھانے پر قادر ہیں۔ آپ نے عراق میں فتنہ انگیزی اور جنگ افروزی کے پس پردہ، تسلط پسند طاقتوں اور ان میں سرفہرست امریکہ کا ہاتھ قرار دیا اور فرمایا کہ عراق کے حالیہ مسائل کا اصلی مقصد اس ملک کے عوام کو جمہوریت سے محروم کرنا ہے کہ جو امریکی مداخلت اور موجودگی کے سبب حاصل ہوئی ہے۔ حضرت آیۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ امریکہ، عراق کی موجودہ صورتحال یعنی عراق میں عوام کی بھاری شرکت سے کامیاب ہونے والے قابل اعتماد امیدواروں کے انتخاب سے راضی نہیں ہے اور وہ عراق پر اپنا تسلط چاہتا ہے تاکہ لوگ اس کے تابع ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ وہ صورتحال جو عراق میں پیش آئی ہے وہ شیعہ اور سنی کی جنگ نہیں ہے بلکہ تسلط پسند نظام، صدام کے باقیات اور تکفیری عناصر کو اصلی مہرہ بناکر عراق کی ارضی سالمیت اور امن وامان کو درہم برہم کرنے میں کوشاں ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی کی طرح
عراق کے مراجع تقلید اور علمائے کرام نے بھی اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ، کسی فرقے، طائفے یا کسی قوم و مذہب سے مخصوص نہیں ہے، تکفیری دہشتگردوں کے خلاف جنگ کو ایک شرعی اور قومی فریضہ قرار دیا ہے۔ یہ ایسے میں ہے کہ سعودی عرب کے ایک سو پچاس سے زائد انٹلیجنس افسر، غیر قانونی طور پرعراق کے موصل شہر میں داخل ہوئے ہیں جبکہ صیہونی حکومت کے اخبار یدیعوت احارانوت نے بھی اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ عراق کے صوبے الانبار میں موساد کے قائم کردہ ہیڈکوارٹر کی اہم سرگرمیاں جاری ہیں۔اور اس بات کی تائید خود امریکی سینیٹر رینڈ پاول نےبھی کرتے ہوئے کہا کہ داعش دہشتگرد گروہ کے افراد کو ہتھیاروں کی فراہمی سے حالات مزید خراب ہوئے ہیں اور اس جانب ابھی اپنی گفتگو میں عالمی امور کے ہندوستانی تجزیہ نگار قمرآغا نے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ مشرق وسطی میں ایک بڑا کھیل کھیلنا چاہتا ہے اور اس کا اہم اور اصل مقصد علاقے کی معدنیات بالخصوص تیل اور گيس پر قبضہ کرنا ہے ۔

متعلقہ مضامین

Back to top button