مقالہ جات

دهشت گردی اور دهشت گردی کا سرٹیفکیٹ

maqtalمغربی استعمار كي سرپرستی ،قبائلی تعصب و زور شمشیر ، مقدسات کی بیحرمتی اور بیگناه انسانیت کے قتل عام پر قائم هونے والی آل سعود کی فاشسٹ مملکت ، اب اپنے منطقی زوال کی طرف تیزی سے رواﮞ دواﮞ هے. شرق وغرب میں پائی جانے والی نفرتیں هوﮞ یا بد امنی ، آئے دن تارگٹ کلنگ هوں یا دهماکے،ان سب کی ﺟﮍں تکفیریت کے محور و مرکز سعودی عرب میں جا پهنچتی هیں. اب تو یه بات کسی سے پوشیده نهیں رهی ،بلکه روز روشن کی طرح عیان هو چکی هے اور پوری دنیا جانتی هی که لیبیا کو تباه کرنا هو یا مصری عوام کی خونریزی هو، بحرینی عوام پر ظلم وستم هو یا شام وعراق کی تباهی وبربادی ان سب سیاهکارناموں کو اسی صحرائی ملوکیت نے سر انجام دیا هی.پهر بهی اگر بیں الاقوامی معروف دهشت گرد دهشت کردی کا سرٹیفکیٹ صادر کریں تو یه بذات خود دهشت گردی هو گی.
یهاں پر چند ایک سوالات پیدا هوتی هیں که :
1- یه سب کچهـ سعودی حکمران کیوں کر رهے هیں؟
2- اس تباهی سے کس کو فائده پهنچ رها هے ؟
3- حزب الله اور اخوان المسلمین کو اس عالمی دهشت گردی کی سرغنه مملکت نے دهشت گرد کیوں قرار دیا هے؟
پهلے سوال کی جواب میں عرض خدمت هے که جب مغربی استعمار نے عالم اسلام کی دل یعنی فلسطیں کی مقدس سرزمیں پر نجس صهیونی حکومت کا منصوبه بنایا تو اسی وقت انهیں احساس تها که مسلم امه اس اقدام پر خاموش نهیں رهے گی اور امت اسلامیه اس وجود کی خلاف بهرپور مزاحمت کریگی. اس لئی ضروری هو گا که:
1- امت کو توﮍنےاور اس کی وحدت کو پارا پارا کرنے کا ایک جامعه منصوبه بنانا چاهیے
2- خطے میں ایک مسلمانوں کی ایسی حکومت بهی هماری هاتهـ میں هو جو اس صهیونی حکومت کی بقا کی ضامں هو اور اس کیخلاف متفقه فیصله نه هونے دے.
ان دونوں اهداف کی حصول کیلئی مغربی استعمار نے آل سعود کا انتخاب کیا. اور آل سعود نے اس زمه داری کا عهد خوب نبهایا. آج آپ پورے عالم اسلام پر نظر دوﮍائیں تو آپکو مسلمان آپس میں ﻟﮍتے نظر آئین گے. وه اسلام که جس نی عصر جاهلیت کی بکهری هوئی انسانیت کو وحدت واخوت کی ﻟﮍی میں پرویا تها اور انسانوں کو انسانی غلامی کی زنجیروں سے آزاد کرایا تها. جس نی قتل وغارت اور عصمت دری کو ختم کیا تها آج اسی تکفیری مملکت کی بدولت ، عصر علم ونور میں، دیں اسلام کی نام پر انسانیت کے قتل عام کا بازار گرم هے. جهاد نکاح کی نام پر عصمت دری هو رهی هی اور کلمه گو مسلمانوں کو غلام اور لونڈی بنایا جارها هی. سب کچهـ دیکهتے هوئی لوگ اندهے اور گنگے نظر آتے هیں اور سب کچهـ سنتے هوئے بهی بهرے هیں . کیونکه بهیانک جرائم کے ارتکاب سے ایک رعب اور خوف کی کیفیت طاری کر دی گئی هی.
صهیونی حکومت آج مطمئن هے که اس کی خلاف مقامت اور جهاد کرنے والے مسلمان آپس میں ﻟﮍ رهے هیں. شام کی حکومت جو صهیونی (اسرائیلی) حکومت کی خلاف آزادی کی تنظیموں کا مرکز اور پناهگاه تهی اسے آج جرم وفا کی سزا دی جا رهی هے اور وه فلسطینی که جنکا اپنا وطن اور سرزمیں منحوس صهیونی قبضے میں هے انهیں سعودیه نے اپنی پنگاه شام کی تباهی پر لگا دیا هے . تکفیری نٹ ورک کے 83 ممالک کی مسلح دهشت گرد آل سعود کی سرپرستی اور مدد کیساتهـ قلعه مقاومت سوریه کی تباهی میں گذشته 3 سال سے ﻟﮍ رهے هیں.
دوسرے سوال کا جواب یهیں سی مل جاتا هے که ان جنگوں میں دونوں طرف سی ﻟﮍنے والے بهی مسلمان هیں اور تباهی بهی مسلمانوں کی هو رهی هے. اور مسلمانوں کو قتل کرنے اور آباد وشاد شهروں کو تباه کرنے کیلئے اسلحه بهی مسلمانوں کی پیسوں سے خریدا جا رها هی اور کهربوں ڈالرز کا اقتصادی نقصان بهی مسلمانوں کا هو رها هی. اور اس کا فائده فقط اور فقط صهیونیوں کو هو رها هے. آج صهیونی غاصب حکومت (اسرائیل) خوش هے، نام نهاد مجاهدیں کو ٹرینگ بهی دے رهی هی اور انکے زخمیوں کا علاج اور انهیں هر قسم کی تیکنالوجی فراهم کر رهی هے تاکه یه جنگ طولانی هو. اور آج ال سعود اور صهیونی گٹهـ جوﮍ بالکل کهل کر سامنے آ جکا هے. آل سعود نے ان تکفیریوں کی اتنی بریں واشنگ کردی هے، که وه نه تو حقیقی روح اسلام کو سمجهـ سکتے هیں که جس کو لانے والے همارے پیارے نبی (ص)، (ما ارسلناک الا رحمة للعالمین) کا مصداق هیں. اور اسلام محبت اور سلامتی کا دیں هی. (المسلم من سلم المسلمون من یده و لسانه). اور سب مسلمان آپس میں بهائی بهائی هین (انما المؤمنون أخوة).
تیسرے سوال کا پهلا حصه ، که حزب الله کو کیوﮞ دهشت گرد قرار دیا گیا جبکه طالبان جو هزاروں بیگناه افراد کے قاتل هیں انکی هر لحاظ سے مدد کی جا رهی هے اور انهیں محفوظ رکهنے کیلئے حکومت پاکستان کو ملینز ڈالرز کی رشوت دی جارهی هے. انکے دفاتر کهولنے اور ان سے مذاکرات کیلئے پریشر ڈالا جاتا هے. آل سعود کبهی اپنی نا جائز اولاد کو ختم هوتا نهیں دیکهـ سکتے. پاکستان رهے یا نه رهے، وه پوری کوشش کریں گے که حکومت پاکستان انکے بچوں کی رکهوالی کرے. اور ویسی بهی ان دنوں حکومت هی اپنی هے. آخر 8 سال شریف برادران کو کیوں پالا پوسا تها. انهیں ایام کی لئے هی تو پهانسی کی پهندوں سی بچایا تها. اور یه بهی اپنی بهائیوں کی وفادار هیں. انکا کام اگر عسکری دهشت گردی هی تو انکا کام بهی سیاسی دهشت گردی اور عسکری دهشت گردوں کی سر پرستی. دونون ایک هی ریال (سکے) کی دو رخ هیں. اسی لئی تو ایک مرتبه عوامی پریشر مین آکر طالبان کیخلاف عسکری کاروائی کی حمایت کرتے هین اور اگلی دن مذاکراتی کمیتی کا اعلان کر دیتے هیں.
آل سعود کا حزب الله کو دهشت گرد قرار دینا ، پهلے نمبر پر اسرائیل کی خوشنودی و رضایت حاصل کرنا هے. کیونکه یه حزب الله هی تهی جس نے تنها دو مرتبه صهیونی (اسرائیلی) اور امریکی تکبر کو خاک میں ملایا تها. ایک مرتبه سال 2000 میں اسے شکست دی اور جنوبی لبنان سی بهاگنے پر مچبور کیا اور دوسری مرتبه سال 2006 میں اسے شرمناک شکست دی تهی . اور دوسرے نمبر پر اپنا ذاتی غیض وغضب بهی هے. کیونکه حزب الله کے مجاهدین نے اپنے ایمانی جذبے اور فنی مهارتوں سے قلعه مقاومت شام حکومت کو سعودی ایجنتوں (تکفیری مسلح گروهوں) کی هاتهوں گرنے نهیں دیا. شامی عوام کی استقامت اور فوج کی جوانمردی اور محور مقاومت کی حکمت عملی نے عالمی سیاست کا رخ بدل کررکهـ دیا هے. اب شرق وغرب سے صدائیں بلند هو رهی هیں که اس تکفیریت کا قلع قمع کیا جائے . تکفیریت اورعالمی فتنوں کے محورومرکز ، امریکه اور سعودی عرب بهی مجبورا اپنی واپسی کی قدم اٹها رهے هیں. اور هر روز سعودیة میں نئے فرامیں صادر هو رهے هیں. اب وه دن آ چکے هیں که اسی عالمی بیداری اور اقوام عالم کی انتقام سی بچنے کیلئے اس زمانے کے یزید وں کو اپنے جرائم سے دست برداری کا اعلان کرنا هو گا اور کهنا هو گا که میں نے تو فرزند رسول حضرت امام حسین (ع) کو قتل کرنے کا حکم نهیں دیا تها اس کا زمه دار حاکم کوفه عبید الله ابن زیاد هے اور اسی طرح زمانے کا ابن زیاد کهے گا که اس کا زمه دار عمر بن سعد هی جس نی کربلا میں کمانڈ کی تهی اور عمر بن سعد شمر لعین کو قاتل قرار دیگا.
اور اختتام تیسرے سوال کے جواب کے دوسرے حصی پر کرتی هیں ، که آخر اخوان المسلمین جوکه فکری اور عقائدی اعتبار سے وهابیت اور سلفیت سی زیاده فاصلے پر نهیں آخر انهیں کیوں سعودی حکومت نے دهشت گرد قرار دیا هی؟
اس میں کوئی شک نهیں که اخوان المسلمین تعلیم یافته اور مفکریں کی جماعت هے اور اس کی ظاهری تاریخ گواه هے که اس نے همیشه استکباری قوتوں کیخلاف جدوجهد کی لیکن ایک طویل سیاسی وجهادی جدوجهد کیبعد جب پورے عالم اسلام میں نمونے کی ایک حکومت بهی بنانے میں کامیاب نه هو سکی تو انهوں نی اپنے اسلاف کی اصولون سے انحراف کیا. اور استعمار واستکبار سے جهاد کی بجائے افهام وتفهیم اور ساز باز کا راسته اختیار کیا جس کی مثال مصر میں محمد مرسی حکومت کا حصول هے. اس حکومت کے حصول کے مقابلے میں کیمپ ڈیوڈ معاهدی کی مخالف جهادی وسیاسی پارٹی کو شمعون پیریز سی مخاصانه اور دوستانه خط وکتابت کرنا ﭙﮍی. اور امریکه کا سهارا بهی لیا. لیکن اس انحراف سے نه حکومت باقی رهی اور نه هی سنهری اصول.
اور دوسرا انحراف تمام مسلمانون کی حقوق کی بات کرنے والی پارٹی تعصب کی لهر کا شکار هو گئی. تمام مسلمان سنی هون یا شیعه انهیں قدر کی نگاه سے دیکهتے تهے ، لیکن عالم تسنن کی رهبری اور نمائندگی کی سرد جنگ میں وهابیت اور سلفیت (که جس کا مرکز سعودیه هی) کے مقابلے میں اخوان المسلمین تکفیری سوچ کے نفوذ کو نه روک سکی بلکه وه اسکا فقط شکار نهیں هوئی بلکه یوں نظر آنے لگا که اسکا باقاعده حصه بن چکی هے. اور اپنے اسلاف کی اعتدال کی راه کو چهوﮍ دیا هے. لیکن تکفیری محور سعودی عرب انهیں اپنا آله کار تو دیکهـ سکتا هے. لیکن انهیں اقتدار میں شریک نهیں دیکهـ سکتا. اور اس کی وضاحت عباسی خلیفه هارون الرشید کے اس جملے سی هو سکتی هی که جب اس نے اپنے بیٹے مامون الرشید سی کها تها که اگر چه تو میرا بیٹا هے لیکن تو بهی میری خلافت اور حکومت کی لئے خطره بنے گا تو تمهاری جان لے لوں گا ( یا بنی ، ان الحکم لعقیم) که حکومت کا نشه بےاولاد هے.
اخوان المسلمین کی کسی بهی ملک میں حکومت قائم هونا آل سعود کی حکومت کیوجود کیلئے خطرے کی گهنٹی هے. اس لئے وه کهیں بهی انکی حکومت قائم نهیں هونے دین گے. کیونکه اگر ایک جگه پر حکومت مضبوط هو گئی تو اس کا نفوذ پهیلے گا اور اس پهیلاؤ کی زد میں سعودی اور دیگر خلیجی حکومتیں عوامی انقلابات دیکهں گی. اسی لئے مصر کی مرسی منتخب حکومت کو گرانے میں سعودی عرب نے بهر پور حمایت اور مدد کی تهی.
خلاصه پوری دنیا کی مسائل سیاسی هیں انهیں استکباری قوتون کیطرف سے دینی اور مذهبی رنگ دینے کی کوشش کیجاتی هی . شام حکومت اسرائیل کو قبول کر لی اور فلسطین کا فاتحه ﭙﮍهـ لےتو بشار الاسد قابل قبول هے ، وگرنه نهیں. یه جنگ کا ایندهں رهی هی . یه سعودیه کا پروپیگنڈا هے . ایسی آمرانه حکومت که جس نے نه کبهی الیکشن دیکها هے ، نه وهان پارلیمنت اور نه هی عوام کی رائے کا احترام وه شام میں جمهوریت پر اعتراض کر رهی هے اور مختلف قسم کی باتیں کر رهی هے.

…………………………………………………………………………………………….
(تحریر: سید شفقت حسین شیرازی)

متعلقہ مضامین

Back to top button