مقالہ جات

محسود طالبان ملا فضل اللہ کی تقرری سے خوش نہیں، جنگ بندی پر طالبان میں واضح تقسیم

ttp ssp ljکالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ امن معاہدے کے حکومتی عمل نے عسکریت پسندوں کے نیٹ ورک کو بے نقاب کر دیا ہے۔ اسلام آباد میں کچہری واقعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ طالبان کی دیگر گروپس پر گرفت ختم ہوتی جا رہی ہے۔ جریدہ لکھتا ہے کہ خیبر پختونخوا کے پولیس سربراہ کے مطابق صوبے میں عسکریت پسندوں کے نو گروپ سرگرم ہیں، وفاقی وزیر داخلہ کے مطابق 37 عسکریت پسند گروپ سرگرم ہیں۔ پاکستانی حکومت کے ساتھ جیسے ہی مذاکرات شروع ہوئے تو کئی دیگر عسکریت پسند گروپوں نے طالبان کے نام پر کارروائیاں شروع کر دیں جس کی کئی وجوہ ہیں، ان میں گروہی اور انفرادی مفادات، قبائلی وابستگیاں، فرقہ وارانہ خیالات، القاعدہ یا دیگر غیر ملکی گروپوں سے الحاق ہے، ان کے لئے بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان اور اسمگلنگ کے راستے ذریعہ آمدنی ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال کراچی میں دیکھی جاسکتی ہے۔

کراچی میں طالبان کے چار دھڑے بھتے اور شہر کے مختلف علاقوں سے تحفظ کے روپے پر لڑ جھگڑ رہے ہیں۔ ان میں مہمند کے عبدالولی عرف عمر خالد، موجودہ طالبان کے سربراہ فضل اللہ کے حمایتی سوات سے عسکریت پسند اور وزیرستان کے دو گروپ حکیم اللہ محسود اور ولی الرحمن محسود کے طالبان گروپ ہیں۔ حکیم اللہ اور ولی الرحمان گروپوں کے درمیان لڑائی شدید تر ہے اور شہر کے مختلف علاقوں میں تحفظ کی رقم کی وصولی کے دوران دونوں اطراف سے کئی افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ مالی مفادات کے علاوہ غیر ملکی تنظیم القاعدہ سے وابستگی والے عسکریت پسند گروہ پاکستان کی حکومت کا تختہ الٹنا چاہتے ہیں اور جوہری ہتھیاروں پر قبضہ چاہتے ہیں۔ عمر خالد خراسانی جس کا اصل نام عبدالولی ہے اس کا گروپ حکومت سے مذاکرات کا حامی نہیں، وہی 23 سکیورٹی فورسز کی ہلاکت کا ذمہ دار ہے۔ وہ امن مذکرات کو سبوتاژ کرنا چاہتا ہے۔ وہی القاعدہ اور اسامہ کا حامی ہے۔ 2013ء میں اس نے حکومت کے ساتھ امن مذاکرات پر طالبان کمانڈروں کو خبردار کیا تھا کہ وہ اس کا حامی نہیں، اگر کسی طالبان کمانڈر نے ایسا کیا تو وہ خود ذمہ دار ہوگا۔

فروری میں احرار الہند نامی تنظیم نے امن مذکرات کی مخالفت کی اور مسلح کارروائیوں کی دھمکی دی، یہی گروپ اسلام آباد کے کچہری واقعے میں ملوث ہے۔ جریدے نے ذرائع کے حوالے سے لکھا کہ تحریک طالبان پاکستان کے موجودہ سربراہ ملا فضل اللہ پاکستانی حکومت کے ساتھ امن مذاکرات کے خلاف ہیں۔ انہوں نے بامعنی خاموشی اختیار کر رکھی ہے اور عمر خالد خراسانی کو استعمال کر رہے ہیں۔ امن مذاکرات کے دوران "میجر مست گل بریگیڈ” کے نام سے ایک معمولی عسکریت پسند گروپ نے پشاور اور کوہاٹ کے شہروں میں کئی حملوں کا دعویٰ کیا ہے۔ خان عرف سجنا گروپ امن مذاکرات کا حامی جبکہ حکیم اللہ محسود گروپ مخالف ہے۔ وزیرستان سے تعلق نہ ہونے کی وجہ سے محسود طالبان ملا فضل اللہ کی تقرری سے خوش نہیں۔ شمالی وزیرستان میں گذشتہ دو ماہ میں طالبان نے ایک دوسرے کے کئی حامیوں کو قتل کیا ہے۔ عصمت اللہ شاہین کی ہلاکت بھی انہیں میں سے ایک ہے۔ جریدے کے مطابق خیبر ایجنسی کے لشکر اسلام نے اپنے آپ کو مذاکرات سے الگ رکھا ہوا ہے۔

کالعدم سپاہ صحابہ اور اس کے مسلح ونگ کالعدم لشکر جھنگوی نے مذاکرات کی مخالفت ظاہر نہیں کی۔ کشمیری جہادی گروپ اور افغانستان میں برسرپیکار حقانی نیٹ ورک کو امن مذاکرات کی صورت میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ذرائع کے مطابق کرم، اورکزئی اور مہمند قبائلی ایجنسی، پشاور، سوات اور ہنگو کے طالبان کمانڈر حکومت کے ساتھ امن مذاکرات کے خلاف ہیں جبکہ راولپنڈی، کوہاٹ، مردان، صوابی، اور جنوبی وزیرستان کے ذمہ دار اور کمانڈر بات چیت اور جنگ بندی کے حق میں ہیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button