مقالہ جات

آہ، پروفیسر سیّد سبطِ جعفر زیدی

ja1سادہ لباس زیب تن کئے ہوئے، ایک پرانی سی موٹر سائیکل پر سوار پورے شہر میں سر وعدہ پہنچنے والے شخص کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ یہ شخص ایڈووکیٹ، مصنف و شاعر اور سوز خوان و قومی سماجی کارکن ایک کالج کا پروفیسر، کئی مذہبی اور تعلیمی اداروں کا بانی، پاکستان میں فن سوز خوانی اور مرثیہ خوانی کے مؤثر ترین بلکہ واحد ادارے، ادارہ ترویج سوز خوانی کا سربراه اور ان سب باتوں سے بڑھ کر شاعر و مداح اہلبیت (ع) تھا۔ ہزاروں شاگردوں کی مختلف میدانوں میں تربیت کرنے والے سبط جعفر کی شخصیت سادگی میں پر کاری کا مصداق تھی۔ طبیعت کی سادگی نے مزاج کو اتنا شفیق کر دیا تھا کہ ہر ملاقات کرنے والا یہ سمجھتا تھا کہ استاد اسی سے اتنا قریب ہیں۔ بچے بڑے کا فرق ان کی نظر میں کیا تھا بس احترام کرنا تھا ہر انسان کا اور وہ بھی عبادت جان کر۔ ہر وقت خوشگوار مزاج میں دوسروں کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرنے کے مشاق ہر حال میں راضی برضائے الہی نظر آتے۔ ایکسیڈنٹ میں ہاتھ ٹوٹا اور میری ان سے اسپتال میں ملاقات ہوئی اور ہاتھ پر بندھا پلاسٹر دیکھ کر میں نے خیریت دریافت کی تو بولے بس طوطا پال لیا ہے۔ جب آنکھ کا آپریشن ہوا تو پھر ملنے کا اتفاق ہوا، جب عیادت کی تو بولے کچھ نہیں بس چند دنوں آرام کرنا تھا۔ نہ جانے کون سا دل دے کر خدا نے انہیں اس زمین پر بھیجا تھا۔ اتنی سادگی تھی کہ سادگی بھی شرما جائے۔

مولانا سید احمد میان زیدی راہی جہانگیر آبادی مرحوم ابن مولانا سید انوار الحسن زیدی کے گھر سن 1957ء میں آپ کی ولادت ہوئی۔ تعلیم کے مراحل طے کرتے ہوئے نمایاں امتیازی حیثیت سے متعدد مضامین میں ایم اے، بی ایڈ، ایل ایل بی اور جامعہ کراچی سے پوسٹ گریجویٹ سرٹیفکیٹ بزبان عربی بدرجہ امتیاز حاصل کیا۔ ادیب اعظم، مفسر قرآن مولانا ظفر حسن نقوی امروہوی کی سرپرستی اور مولانا پروفیسر سید عنایت حسین جلالوی صاحب کی نگرانی میں مدرسۃ الواعظین جامعہ امامیہ کراچی سے گریجویٹ مبلغ کورس بھی مکمل کیا اور اس کے بعد عملی وکالت اور سول سروس سے دستبرداری کے بعد پبلک سروس کمیشن کی سفارش پر گورنمنٹ کالج (محکمہ تعلیم / حکومت سندھ) میں ایسوسی ایٹ پروفیسر، مشیر قانون و نگران امورِ طلبہ اور ناظم تقریبات مقرر ہوئے۔ اس کے علاوہ پیشہ وارانہ اور شعبہ جاتی وابستگیاں کچھ اس طرح تھیں۔

مختلف دینی، ادبی، علمی و سماجی و ثقافتی اداروں سے مختلف حیثیتوں میں وابستگی کے علاوہ دورانِ طالب علمی اسکول، کالج اور یونیورسٹی میں مختلف عہدوں پر منتخب ہوئے۔ (کراچی یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کا کونسلر، FR چیئرمین پریس اینڈ پبلیکیشنز اور چیئرمین اسپورٹس بورڈ۔ اس دوران اعلٰی سطح پر کرکٹ اور ٹیبل ٹینس بھی کھیلی)۔ انجمن محمدی قدیم (رجسٹرڈ) کے صدر اور انجمن سوز خوانان کراچی کے بھی عہدے دار رہے۔ انجمن محبان اولیاء کے مرکزی خادم، بانی رکن ہونے کے علاوہ کراچی بار ایسوسی ایشن اور سندھ پروفیسرز لیکچررز ایسوسی ایشن کی رکنیت کے علاوہ آرٹس کونسل آف پاکستان (کراچی) کی تاحیات رکنیت حاصل تھی۔ نیز بین الاقوامی ادارہ تزویج سوز خوانی کے بانی ہونے کے علاوہ انجمن وظیفہ سادات و مومنین پاکستان رجسٹرڈ کے مرکزی صدر (2005ء تا 2008ء) ہونے کا اعزاز حاصل تھا۔ بطور شاعر و سوز خوان مختلف ممالک کی سیاحت و زیارت کا شرف حاصل ہوا۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی نامور یونیورسٹیز (بالخصوس ہارورڈ یونیورسٹی) نے بطور ماہر فن خصوصی پذیرائی کی۔

1967ء میں مختلف حیثیتوں میں ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے وابستگی رہی۔ خصوصاً کمپیئر، سوز خوان اور مقرر اور مہمان و صدر کی حیثیت سے بھی شرکت کی، جبکہ بطور شاعر و ناظم، نعت خوان ریڈیو ٹی وی سے طویل اور مستقل وابستگی رہی ہے۔ نارویجن ریڈیو / ٹی وی پر بھی بطور ادیب و شاعر و سوز خوان پروگرام کئے۔ نیز مختلف سرکاری اور نجی چینلز کے لئے خصوصی پروگرام تحریر و تیار اور پیش کیے۔ بطور محقق و مصنف 1996ء پاکستان ٹیلی وژن نے صوتی علوم و فنونِ اسلامی پر "لحن عقیدت” کے نام سے دس خصوصی تحقیقی و معلوماتی پروگرام نشر کئے۔ بطور شاعر و سوز خوان تقریباً 50 آڈیو، ویڈیو کیسٹس اور سی ڈیز EMI، شالیمار، رضوی کیسٹس، زیدی پروڈکشن، یاسین اسٹوڈیو، جعفری کسیٹس، پنجتن کیسٹن، AB میوزک سینٹر، باب العلم کیسٹ لائبریری، عترت فاؤنڈیشن، پیام، ترابی کیسٹس لائبریری، شاہ جی اسلامک سی ڈی سینٹر وغیرہ نے جاری کئے۔ ان میں سے خاصا مواد مختلف اداروں نے سی ڈی اور ویب سائٹ / انٹرنیٹ پر بھی جاری کر رکھا ہے اور مزید کام جاری ہے۔

اس کے علاوہ آپ کی تصانیف میں انٹر میڈیٹ اور ڈگری کلاسز کیلئے نصابی، امدادی نصابی کتب 1983ء سے 1988ء کے دوران متعدد بار شائع ہوئیں۔ مطالعہ پاکستان، عمرانیات اور اطلاق عمرانیات وغیرہ نیز منتخبات نظم و نثر، "زادِ راہ”، "نشان راہ” اور صوتی علم و فنونِ اسلامی وغیرہ۔ علاوہ ازیں علمی دینی ادبی سماجی اور فن و ثقافت کے حوالہ سے مختلف مقامی و قومی اور بین الاقوامی اخبارات و جرائد میں مضامین و مقالات شائع ہوئے۔ بالخصوص روزنامہ جنگ، اخبار جہاں، عوام، نوائے وقت، قومی اخبار، پبلک، امن حریت، جہانِ چشت، تنظیم، ندائے اسلام، رہنما، نوائے اسلام، توحید، سنگم ٹائمز، عوامی مسائل، اصلاح، سفینہ (ناروے) اور دیگر جبکہ مختلف مجلوں، رسالوں اور خصوصی شماروں کی ادارت اور ترتیب و تدوین و اشاعت کی سعادت بھی حاصل کی۔ بالخصوص منتخب و معیاری کلام پر مشتمل مجموعہ کلام "بستہ” انتخاب بستہ اور گلدستہ وغیرہ شامل ہیں۔

تعلیم و تدریس کے حوالہ سے شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں ہے، تصنیف و تالیف اور شعر و سخن میں بھی بہت سے شاگرد ہیں، تاہم سوز خوانی کے حوالہ سے براہ راست استفادہ کرنے والے خواتین و حضرات کی تعداد بھی سو سے زائد ہے، جو کراچی و بیرون کراچی اور ملک سے باہر بھی کسی نذرانہ یا کرایہ آمد و رفت کے بغیر یہ خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ (ان افراد کے متعلقین اور بالواسطہ استفادہ کرنے والے بے شمار ہیں)۔ لیکن جب خود ان کے جاہ و حشم کا تذکرہ کروں تو ان خراب حالات میں بھی اپنی روٹین کے مطابق اسی موٹر سائیکل پر اکیلے پورے شہر میں گھومنا کیونکہ خود ہی تو کہتے تھے
موت برحق ہے تو پھر موت سے ڈرنا کیسا
ہے شہادت کی خبر اپنے لئے خوشخبری

آج دشمنوں نے بلاشبہ ایک بہت بڑے ہدف کا انتخاب کیا، کیونکہ کسی بھی قوم کو اگر تباہ کرنا ہو تو اس کی علمی اور تربیتی بنیادوں کو کمزور کر دو، بس وہ قوم خود بخود تباہ و برباد ہوجاتی ہے۔ اسی نظریہ کے پیش نظر ہزاروں جوانوں کے مربی اور مرد مومن استاد سبط جعفر کو ڈگری کالج لیاقت آباد کہ جس کالج میں وہ علم دوست جوانوں کو علم کی دولت سے مالا مال کیا کرتے تھے، علم دشمنوں نے اپنے ہدف کا نشانہ بنایا اور وہ اس حملے میں شہید ہوگئے۔ ورثاء میں ایک بیٹا دو بیٹیاں اور ان کی اہلیہ شامل ہیں۔ آج ببانگ دھل یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ مرثیہ نگاری کا قلم ٹوٹ گیا۔ علم کی مسند ویران ہوگئی، بلکہ کیا لکھوں، ایک انسان اس دنیا کی وحشی گری کا شکار ہوگیا۔ مگر یہ دشمن کی بھول ہے کہ وہ سبط جعفر کو شہید کر پایا ہے، کیونکہ سبط جعفر کسی شخص واحد کا نام نہیں بلکہ ہر باشعور انسان، علم دوست جوان اور اردو زبان عزاداران شہہ مظلوم کا نظریہ اور اسکی فکر کا نام ہے۔
چھری کی دھار سے کٹتی نہیں چراغ کی لو
بدن کی موت سے کردار مر نہیں سکتا

متعلقہ مضامین

Back to top button