مقالہ جات

پاکستان میں کالعدم دہشت گرد طالبان کے تین با اعتبار ضمانتی

taliban cartonپاکستانی قوم کے اذہان میں متعدد سوالات گردش کر رہے ہیں کہ کالعدم دہشت گرد گروہ طالبان نے پاکستان کے تین بڑے سیاسی رہنماؤں پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ طالبان کے ان اقدامات کہ جو غیر انسانی اور دہشت گردی پر مبنی ہیں اس کی وضاحت کر پائیں گے؟
سب سے پہلی اور اہم بات یہ ہے کہ دیکھتے ہیں کہ کالعدم دہشت گرد ناصبی تکفیری گروہ تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان احسان اللہ احسان نے اپنی تازہ ترین جاری کی جانے والی ایک ویڈیو میں کیا کہا ہے؟ناصبی تکفیری گروہ طالبان کا ترجمان احسان اللہ احسان اپنی ویڈیو میں کہتا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ نواز کے سربراہ میاں محمد نواز شریف، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اور جماعت اسلامی پاکستان کے سربراہ سید منور حسن ضمانت دیں اور طالبان حکومت اور فو ج سے مذاکرات کریں گے۔
ناصبی تکفیری دہشت گرد گروہ طالبان کے ترجمان نے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ دہشت گردانہ کاروائیوں میں ملوث اور سیکڑوں بے گناہ پاکستانیوں کے قاتل پانچ ناصبی تکفیری طالبان دہشت گرد حاجی مسلم خان،مولوی عمر اور مولانا محمود سمیت دیگر دو کو بھی رہا کیا جائے تاہم کالعدم طالبان حکومت کے ساتھ مذاکرات کریں گے۔
مولوی عمر جو کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا اہم ترین کمانڈر ہے اور بیت اللہ محسود کے بھائی حکیم اللہ محسود کا خاص ساتھی ہونے کے ساتھ ساتھ اس کا ترجمان بھی ہے ۔مولوی عمر کو سیکورٹی فورسز نے ایک کاروائی کے دوران اگست 2009ء میں گرفتار کیا تھا۔
مسلم خان جو کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے مشہور معروف رہنما ملا فضل اللہ کا ترجمان ہے ،ملا فضل اللہ کا گروہ سوات میں کاروائیوں میں ملوث رہاہے۔مسلم خان کو سیکورٹی فورسز نے ایک کاروائی کے دوران ستمبر 2009ء میں گرفتار کیا تھا۔
یہ وہ ناصبی تکفیری دہشت گرد ہیں کہ جنہوں نے علی الاعلان پاکستان فوج سیتعلق رکھنے والے جانبازوں کے گلے کاٹے ہیں اور اس کے بعد پاک فوج سے تعلق رکھنے والوں کے خاندانوں کو قتل کیا ہے اسی طرح ان ہی دہشت گردوں نے سیکڑوں پاکستانیوں کو موت کے گھاٹ اتار کر اپنے پیغامات میں بڑے فخریہ انداز میں اپنی کامیابیاں ظاہر کی ہیں اورپاکستان کے عوام پر خود کش حملوں کو جائز قرار دیا ہے۔
انہی ناصبی تکفیری دہشت گردوں نے پاکستان میں بزرگ اولیائے کرام بشمول کراچی میں عبد اللہ شاہ غازی (رح) ،اسلام آباد میں بری سرکار بابا (رح)، پاک پتن میں بابا فرید گنج شکر(رح) ،خیبر پختون خواہ میں رحمان بابا(رح) سمیت بلوچستان میں متعدد بزرگان دین کے مزارات پر دہشت گردانہ حملے کروائے ہیں جن میں نہ صرف اولیائے اللہ کے مزارات کو نقصان پہنچا بلکہ سیکڑوں بے گناہ اور معصوم انسانوں کی جانیں بھی ضائع ہوئیں جن میں خواتین ،بچے اور نوجوانوں سمیت بزرگ شامل تھے۔
اسی طرح ان ناصبی تکفیری دہشت گردوں کے حملوں میں سنی بریلوی مفتی سرفراز نعیمی،دیوبند اسکالر خواجہ خان محمد اور شیعہ علماء میں علامہ ثقلین کاظمی اور علامہ آفتاب حید جعفری شہدی ہوئے۔
طالبان دہشت گردوں پر پاکستان میں بشنے والے شیعہ مسلمانوں کی نسل شی سمیت افغانستان میں بھی شیعہ مسلمانوں کی نسل کشی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔طالبان دہشت گردوں نے ہمیشہ شیعہ مسلمانوں کو ٹارگٹ کلنگ او ر خود کش حملوں کا نشانہ بنایا ہے اور شیعہ مسلمانوں کی مذہبی رسومات کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا ہے جس کے نتیجے میں سیکڑوں شیعہ مسلمان شہید ہوئے جبکہ ان کے ہمراہ درجنوں سیکورٹی اہلکار بھی شہید ہوئے۔
افواج پاکستان،نیول فورسز اور پاک فضائیہ بھی ان کالعدم طالبان دہشت گردوں کی دہشت گردی کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔
ناصبی تکفیری دہشت گرد طالبان کے ترجمان احسان اللہ احسان نے اعتراف کیا ہے کہ پاکستان کی افواج اور پاک افواج کے جنرل ہیڈ کوارٹر پر دہشت گردانہ حملے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کرتی رہی ہے۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ نواز شریف،فضل الرحمان اور منور حسن ان تمام دہشت گردانہ کاروائیوں کو دیکھتے ہوئے اپنی پوزیشن واضح کریں۔نواز شریف کے دور حکومت میں افغان طالبان دہشت گردوں نے ریاض بسرا کو دہشت گردی کی تربیت دی جس کے بعد ریاض بسرا نے نواز شریف پر رائے وانڈ پل پر حملہ کیا جس کے باعث پل تباہ گیا تھا۔تاہم اس وقت کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے آن ریکارڈ یہ بات بتائی تھی کہ پنجاب میں دہشت گردانہ کاروائیوں میں افغان طالبان دہشت گرد ملوث ہیں جنہوں نے مقامی طالبان دہشت گردوں کو تربیت دی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس وقت کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے حکم پر دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کیا گیا جس میں ناصبی تکفیری طالبان دہشت گردوں کو قتل کیا گیا۔
منور حسن کو یاد رکھان چاہئیے کہ ان سے پہلے جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد نے طالبان دہشت گردوں کے لئے کیا کہا تھا۔
یہ وہ چند دہشت گردی کے واقعات ہیں جن میں طالبان دہشت گرد ملوث رہے ہیں۔اب ان تین رہنماؤں کو چاہئیے کہ اپنی حکمت عملی وضع کریں کہ آخروہ عبد اللہ محسود اور اس کے سربراہ حکیم اللہ محسود سمیت ان طالبان دہشت گردوں کے ساتھ ہیں یا نہیں کہ جن طالبان دہشت گردو ں نے امریکی ایماء پر پاکستان کے اندر دہشت گردی کا کھیل شروع کر رکھا ہے اور پاکستان کے معصوم اور نہتے شہریوں کا قتل عام کر رہے ہیں۔طالبان دہشت گردوں نے امریکی ایماء پر چین سے آئے ہوئے انجینئرز کو بھی ایک حملے میں قتل کیا۔
عبد اللہ محسود جو کہ خود ایک افغان باشندہ ہے ،بلوچستان میں ایک خود کش حملے کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے گرفتار ہوا تھا۔یاد رکھا جائے کہ عبد اللہ محسود سنہ2004ء میں امریکی قید گوانتا ناموبے سے آزاد کیا گیا تھا اور پاکستان بھیجا گیا تھا۔حاجی مسلم خان جو کہ امریکی ریاست بوسٹن میں رہائش پذیر تھا اسے بھی پاکستان بھیجا گیا۔
ناصبی تکفیری طالبان دہشت گرد جو کہ نہ صرف معصوم پاکستانی شہریوں کے قاتل ہیں بلکہ پاکستان کے مفاد میں ہر اس ملک کو نقصا ن پہنچانے میں صف اول رہے ہیں کہ جس کے دوستانہ تعلقا ت سے پاکستان کو فائدہ پہنچ رہاہو۔یہ ناصبی تکفیری طالبان دہشت گرد ہزاروں پاکستانیوں کے قاتل ہیں لہذٰا ان کو کسی قسم کی سہولت نہیں دی جانی چاہئیے۔یہ دہشت گرد ہیں اور سزا کے مستحق ہیں۔
پاکستان کے عوام نواز شریف،فضل الرحمان اور منور حسن سے چاہتے ہیں کہ وہ ان پاکستانی عوام کے قاتلوں کے ساتھ کھڑا ہونے کی بجائے پاکستان کے عوام کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوں اور پاکستا ن کے عوام کی امنگوں اور ان کے خون کا سودا کرنے کی بجائے پاکستانی مظلوم شہریوں کے ذخموں پر مرہم کا کام کرنے میں کردار ادا کریں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button