مقالہ جات

وطن سے محبت ہے جو خاموش ہوں

stop shia killingآج وطن عزیز پاکستان اندرونی اور بیرونی انتشار کا شکار ہے اور ہر طرف سے مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ ملک دشمن عناصر اپنی مزموم سازشوں میں مصروف ہیں اور اسلام و پاکستان کو ختم کرنے کیلئے نئے نئے طریقے اور فارمولے آزماء رہے ہیں۔ دشمن کی ہر چال اور ہر سازش یقیناً پاکستان اور اسلام کیلئے ایک امتحان ہے، مگر ان تمام امتحانوں میں سے ایک بڑا امتحان مذہب کے نام پر قتل و غارت گری ہے، یعنی فرقہ واریت کی آگ ہے۔

یوں تو ملک میں دہشت گردی اور قتل و غارت کی ایک لہر اٹھی ہے، جس کا شکار ہر پاکستانی شہری ہے اور کوئی بھی اس آگ سے محفوظ نہیں، مگر اس قتل و غارت اور دہشت گردی کی جنگ میں سب سے زیادہ نقصان اور سب سے زیادہ قربانی شیعہ کمیونٹی کے لوگوں نے دی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ کوئی نئی بات نہیں، کیوں کہ پاکستان میں اہل تشیع کو قتل کرنا اُس دن سے شروع ہوا کہ جس دن محسنِ ملت قائداعظم محمد علی جناح کو ایک منظم سازش کے تحت قتل کر دیا گیا۔

یہ قتل و غارت اُس دن سے شدت اختیار کر گئی کہ جس دن ضیاءالحق پاکستان کے صدر بن بیٹھے اور اِسلام کے نام پر احمق اور سادہ لوح لوگوں کو مجاہدین بنا کر خود امریکہ اور اسرائیل سے ڈالر وصول کرتا رہا اور طالبان جیسے خوارج گروہ کو جنم دیا، جو آج پاکستان اور اِسلام کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ اِس خوارج اور فاسق گِروہ نے وہ کارنامے سرانجام دیئے کہ تاریخ بھی لکھنے سے شرماء گئی ہے۔ ہر طرف خون و فریادیں و آہ و زاری ہیں۔ ماوں اور بہنوں کی رونے کی صدائیں ہیں۔ ہر طرف آگ و خون ہے اور وہ بھی اِسلام کے نام پر۔

بہت سارے واقعات و سانحات میں سے ایک واقعہ ’’واقعہِ بابو سر‘‘ ہے کہ جہاں (28) اٹھائیس بے گناہ شیعہ نوجوانوں کو روزے کی حالت میں بسوں سے اُتار کر اور اُن کے شناختی کارڈ چیک کرکے بڑی بے دردی اور بے رحمی سے شہید کر دیا گیا۔ جس میں سے ایک میرا دوست برادر اشتیاق حسین استوری بھی شامل تھا۔ شہید کا تعلق گلگت کے علاقے استور سے تھا اور حال ہی میں گومل یونیورسٹی سے ایم بی اے (MBA) کی ڈگری حاصل کی تھی اور Through out اپنے کلاس کا Topper بھی رہا تھا۔

دوسرے لوگوں کی طرح اشتیاق بھائی بھی عیداُلفِطر اپنے پیاروں کے ساتھ گزارنے کیلئے اپنے گھر جا رہا تھا کہ راستے میں بابوسر کے مقام پہ(16-08-2012) 27 رمضان المبارک کو اسلام کے ٹھیکے داروں کے ہاتھوں دوسرے ساتھیوں سمیت شہید کر دیئے گئے۔ جب اس کی شہادت کی خبر مِلی تو پہلے تو یقین نہیں آرہا تھا، مگر جب دوستوں سے رابطہ ہوا تو انہوں نے بھی اِس دردناک خبر کی تصدیق کر دی اور جب یقین ہوا تو دِل بے ساختہ رونے لگا، آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور ایک عجیب سی کیفیت طاری ہوگئی۔

مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے اشتیاق بھائی کی روح چیخ چیخ کر یہ بات پوچھ رہی ہو کہ اے ظالمو! اے قاتلو! مجھے کس جرم میں قتل کر دیا گیا؟ آخر کس گناہ کے بدلے میں میرا خون بہایا گیا؟ کیا تم لوگوں کو نہیں معلوم کہ میں بھی کسی کا بھائی اور کسی کا بیٹا تھا۔؟ کیا نہیں معلوم کہ میری بھی ایک ضعیف ماں اور ایک بوڑھا باپ تھا۔؟ کیا نہیں معلوم کہ میں بھی بہنوں کا بھائی تھا۔؟ کیا نہیں معلوم کہ میرے بھی دو چھوٹے چھوٹے بھائی تھے، جو اس اُمید میں تھے کہ بڑا بھائی کامیاب ہوگا تو ہمیں بھی پڑھائے گا۔؟

کیا نہیں معلوم کہ میری ضعیف ماں اور بوڑھا باپ میرے آنے کے مُنتظر تھے، تاکہ دوسرے لوگوں کی طرح وہ بھی اپنے بیٹے کے ساتھ خوشی خوشی عید گزار سکیں اور کیا نہیں معلوم کہ دوسری ماوں کی طرح میری ماں کی بھی یہ آرزو تھی کہ اپنے بیٹے کیلئے اپنے گھر دلہن لے کر آئیں۔ مگر کون سنُے گا اور ان تمام سوالات کا جواب کون دے گا۔ نہ جانے کتنے ایسے خاندان ہوں گے جو تباہ و برباد ہو گئے ہوں گے۔ کتنے ایسے گھر ہوں گے جو اُجڑ گئے ہوں گے۔ کتنی ماوُں اور بہنوں کے آرمان پارہ پارہ ہوگئے ہوں گے۔

مگر ان ساری باتوں کا علم شاید ان درندہ صفت لوگوں کو نہیں، یا اگر ہے تو وہ اس حد تک مردہ ضمیر بن چکے ہیں کہ ان کو یہ ساری چیزیں دکھائی نہیں دیتیں، اور شاید اللہ کے نام پر یہ لوگ اپنی ماں بہنوں اور بھائیوں کے بھی گلے کاٹ ڈال دیں اور یہ بات نہیں جانتے کہ اسلام کے نام پر یہ لوگ امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب کی خدمت کر رہے ہیں اور اسلام کے نام پر اُنہیں بیوقوف بنایا جا رہا ہے۔

خیر میں اس بات کی طرف جانا نہیں چاہتا، مگر اصل بات یہ ہے کہ شیعوں کا اتنا بے گناہ خون بہانے پر سیاسی راہنما، انسانی حقوق کے ادارے، فوجی سربراہ، خفیہ ادارے، چیف جسٹس اور دوسری مذہبی جماعتیں تو خاموش ہیں ہی، مگر خود اہلِ تشیع کیوں خاموش ہیں؟ آیے روز ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں کے خلاف پریس کانفرنس، احتجاجی ریلیز اور بڑے بڑے اجتماعات تو ہوتے ہیں، مگر ہتھیار کیوں نہیں اُٹھاتے؟ ان درندہ لوگوں کی طرح اہلِ تشیع بھی درندگی کا اظہار کیوں نہیں کرتے۔؟

میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان بنانے میں اہلِ تشیع کا مرکزی کردار رہا ہے اور بہت ساری قربانیاں دی ہیں اور اب پاکستان بچانے کیلئے بھی حیدرِ کرار (ع) کے ماننے والے ہی قربانیاں دے رہے ہیں، کیوں کہ پاکستان اور اسلام کے دشمن چاہتے ہی یہی ہیں کہ شیعہ کمیونٹی کے لوگ بھی ہتھیار اُٹھا لیں اور قتل و غارت شروع کر دیں، تاکہ دشمن کے ایجنڈے کی تکمیل ہو سکے اور پاکستان ٹوٹ جائے۔ خُدا کی قسم وطن سے محبت ہے جو خاموش ہوں، مگر اِس خاموشی کا ہرگز ہرگز مطلب یہ نہیں کہ ہم بے بس ہیں یا ہم کُچھ کر نہیں سکتے، ہرگز نہیں۔

میں تمام سیاسی راہنماوُں، خفیہ اداروں کے سربراہوں، چیف جسٹس اور دوسری مذہبی جماعتوں کے راہنماوُں کو اس بات کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ ہوش کے ناخن لیں اور ان درندہ صفت، فاسق و فاجر یزیدی ٹولے کو لگام دیں، ورنہ اگر ایک دفعہ مِلت تشیع کے نوجوانوں نے ہتھیار اُٹھا لئے تو پھر سب کا خدا ہی حافظ ہوگا اور پھر کوئی بھی اس آگ سے نہیں بچ پائے گا۔ کیوں کہ ہم وہ لوگ ہیں جو کہ خیبر کو فتح کرنے والے کے پیروکار ہیں۔ ہم اُس کے ماننے والے ہیں کہ جس نے کبھی بھی میدانِ جنگ سے فرار نہیں کیا ہے۔

جب ہم میدان میں آتے ہیں تو پھر بھاگتے نہیں اور تاریخ گواہ ہے کہ کبھی بھی شیعوں کا امیرالمومنین کسی غار میں نہیں چھپا ہے۔ کبھی بھی کوئی شیعہ راہنما زنانہ لباس میں یعنی برقعہ پہن کر نہیں پکڑا گیا ہے۔ کیوں کہ ہم شہادت کو سعادت سمجھتے ہیں، اور یہ تکفیری ٹولہ جو اپنے اباو و اجداد کی طرح بے گناہوں کو قتل کرنے کے بعد غاروں میں بھاگ کر چھپ جاتے ہیں، اُن سے گزارش ہے کہ جو کام یہ لوگ کر رہے ہیں تو یہ کوئی بہادری نہیں، بلکہ ذلت کی انتہا ہے، کیوں کہ نہتے لوگوں کو راستے میں روک کر یا بےخبری کی حالت میں گولی مار کر بھاگ جانا مردوں کا کام نہیں بلکہ نا مردوں کا کام ہے اور یہ کام تو عورتیں بھی سرانجام دے سکتی ہیں۔

مرد تو وہ ہیں جو میدان میں آمنے سامنے مقابلہ کریں اور دوسروں کو جنت کی چابی دینے والے کبھی خود بھی میدان میں آ جائیں۔ ہم نے جب بھی سُنا ہے تو یہ سُنا ہے کہ فلاں امیرالمومنین فلانے غار میں مارا گیا۔ فلاں امیر فلاں جگہ زنانہ لباس میں بھاگتے ہوئے پکڑا گیا۔ فلاں امیر فلاں جگہ چھپ کر ڈرون کی نذر ہو گیا اور ہم نے کبھی یہ نہیں سُنا ہے کہ جنت کی چابی دینے والے کبھی خود بھی میدان میں مردوں کی طرح لڑتے ہوئے مر گئے ہوں اور میری گزارش ہے کہ مزید یہ کھیل کھیلنا بند کریں۔ کیوں کہ اِسی میں فائدہ ہے، اسلام کا بھی اور پاکستان کا بھی اور مزید بے گناہوں کا خون بہا نہ ہو۔
ہم خون کی قسطیں تو بہت دے چکے لیکن
اے عرضِ وطن قرض ادا کیوں نہیں ہوتا

متعلقہ مضامین

Back to top button