مقالہ جات

شہید مرتضی مطہری اپنے افکار کے آئینے میں اسلام کی نگاہ میں علماء کا اعلی مقام ہے

ayatulla mothari، بلاشبہ یہ اعلی مقام ان کی ذمہ داریوں کےسبب ہے کیونکہ ہرعالم دین کی ذمہ داری ہےکہ وہ وقت کے مطابق امت کی رہنمائي کرے اور حقیقت و حق کو بیان کرتے ہوئےامت کو دنیا وآخرت کی سعادت سے ہمکنار کرے۔ دوسری طرف سے اسلام اور اس کے عقائد واحکام پرایمان کی بناپرعالم دین کو حق وصبر کی تلقین سے پہلے خود ان امور پرعمل پیراہوناضروری ہوتاہے، اسی طرح اس کا علم ، قران و احکام وحدود کا علم امت کی ھدایت اوراسے نجات کےراستے پرلگانے کی اس کی ذمہ داری کو مزید سنگین بنادیتاہےبنابریں ہم ان امور سے بآسانی یہ اندازہ لگاسکتےہیں کہ ایک مسلمان عالم دین کی ذمہ داری کس قدر سنگین ہے۔ اگر عالم دین معاشرے کےانحرافات اور کج فکریوں کے سامنے خاموشی اختیارکرلے تویہ توحید و تقوی کے اصولوں کے منافی ہوگا اور عالم دین خلق خدا کی نظروں میں خوارہوجائے گا۔بلاشک مسلمان معاشرےمیں علماء دین کو سرگرم کردار اداکرنا چاہیےکیونکہ دشمن ہمیشہ سے گھات میں رہتاہے اور ثقافت و تہذیب کےراستے سے دراندازی کرکے اسلامی معاشروں کو نقصان پہنچاسکتاہے بالخصوص اگر معاشرےکےعلماء دین خواب غفلت کا شکارہوں تواسکی دلی آرزوبرآتی ہے۔شیعہ علماء اور حوزات علمیہ کی تاریخ سے واضح ہےکہ علماء شیعہ نے کبھی بھی ملت کو تنھانہیں چھوڑا اور ہرزمانےمیں اسلام کے دشمنوں کا ڈٹ کا مقابلہ کیا ہےاور وقت کے مطابق ہرشبہے اور سوال کا جواب دیاہے تاکہ امت گمراہی سے بچ جائے اور صراط مستقیم پرگامزن رہے۔ علماء اسلام میں جن بزرگ ہستیوں نے قوم کی تاریخ کا دھارا موڑا ہے اور مخالفیں نیز دیگر اقوام کوبھی اپنی شخصیت سے متاثرکیا ہے انمیں شہید مرتضی مطہری بھی ایک ہیں ۔ شہید مطہری ان ہستیوں میں سےہیں جنہوں نے تاریخ سے بہت کچھ سیکھاہے اور ماضی کی اقوام وملل کی سرگذشت سے بخوبی واقف تھے وہ اپنے زمانے اور معاشرے کی خصوصیات سے بخوبی آشناتھے۔ وہ ایسے لوگوں میں نہیں تھے جو جمود فکری کا شکارہوکر اپنے مخالفیں کو برابھلاکہنے لگتےہیں بلکہ وہ اپنے سامنے وسیع افق پاتےتھے ۔ اپنے زمانے سےواقف عالم دین اور اجتماعی اور تاریخی علم رکھنے والی ہستی اپنے حکیمانہ اقدامات سے دین کی شناخت کرواتی ہے شہید مطہری بھی ایسے ہی تھے ۔شہید نے ماضی کی صدیوں کے فکری اور مذھبی رجحانات کا عمیق مطالعہ کیاتھا تودوسری طرف عصرحاضرکی پیچیدگيوں کو بھی اچھی طرح سمجھ لیاتھا۔شہید مطہری اور مسلمانوں کا انحطاط۔شہید مطہری مسلمانوں کی سماجی اور ثقافتی مشکلات سے آگاہ ہونے کےساتھ ساتھ عالم اسلام کی موجودہ صورتحال سے بہت رنجیدہ تھے وہ ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش میں لگے رہتے تھے ۔ دراصل شہید مطہری کی ساری کوشش یہ تھی کہ مسلمانوں کی اصلاح کی جائے انہیں اس کسمپرسی اور انحطاط کی حالت سے نکالا جائے۔ وہ عالمی سطح پرمسلمانوں کی صورتحال میں اصلاح اور بہتری لانے کی فکر میں تھے۔وہ ایک اسلامی مفکر تھے جسے مسلمانوں کو دوبارہ زندہ کرنے کی فکر لگي ہوئي تھی۔ شہید اس بارےمیں کہتےہیں: مجھےیاد نہیں کہ کب سے مجھے مسلمانوں کے انحطاط کا علم ہوا اور کب سے میں نے اس مسئلے پرمطالعہ اور تحقیقات کرنا شروع کیا اور فکر میں کھوگيا، تاہم یہ بات یقین سے کہ سکتاہوں کہ میں بیس برسوں سے اس مسئلے پرغور وخوض کررہاہوں اور دوسروں کی نگارشات کا مطالعہ کررہاہوں۔ شہیدمطہری جو ایک مفکر مصلح تھے انہوں نے صرف حقیقت کی تلاش کی ہے اور ہرطرح کی جاہلانہ مصلحت اندیشی سے گریزکرتےہوئے مسلمانوں کے مسائل کےحل پیش کئےہیں وہ کہتےہیں کہ : آج کے زمانے میں مسلمانوں کی صورتحال کا حل تلاش کرنے کےلئے یہ ضروری ہےکہ دیکھاجائے کہ مسلمانوں کےاس انحطاط کی وجوہات کیا ہیں، وہ کہتےہیں کہ ماضی سے چلی آرہی وجوہات اورموجودہ دور کی وجوہات کو جاننا ضروری ہے۔ وہ کہتےہیں اس کام کے لئے ضروری ہےکہ میں دوسرے لوگوں کےنظریات کاعلم حاصل کروں خواہ وہ مسلمان ہوں یاغیر مسلم۔ دوسرے مرحلے میں میرےلئے یہ بھی ضروری ہےکہ اس مسئلے کےبارےمیں ان تمام موضوعات کو چھیڑوں کو جو بحث کے قابل ہیں گرچہ اب تک ان موضوعات کو بیان نہ کیاگیاہو اور ان سے غفلت برتی گئي ہو۔ علماء میں شہید مطہری کی مثال بہت کم ملے گي جن کی نظرو فکر جغرافیائي حدود میں قید نہیں تھی بلکہ انہیں سارے عالم اسلام کی فکرتھی اور وہ سارے عالم اسلام کےتعلق سے احساس ذمہ داری کرتےتھے۔ اس خصوصیت سے ان کے دیرینہ دوست اور مجاھد آیت اللہ سید امام موسی صدرکی یادتازہ ہوجاتی ہے۔یادرہے سید امام موسی صدرنے لبنان کے شیعوں کی ثقافتی، علمی ، سماجی اور اقتصادی لحاظ سے اصلاح کرنے اور عالم عرب میں شیعوں کو سربلند کرنےمیں بے مثال کردار اداکیاہے ۔ شہید مطہری جب پیرس میں امام خمینی رح سے ملنےگئےتھے تو امام موسی صدرکو یادکرکے کہتےہیں کہ اگر آج موسی صدر ہوتےتو وہ چونکہ دنیا کو بہت اچھی طرح سے پہچانتےتھے اور اسکی شناخت رکھتے تھے وہ امام خمینی کےلئے دنیا کےحالات کی بہت اچھی طرح سے وضاحت کرسکتے تھے اور ایک ماہر کی حیثیت سے دنیا کے مسائل اور اسکے تقاضوں پرروشنی ڈال سکتےتھے۔وہ کہتےہیں کہ احکام واضح ہیں لیکن ہماری مشکل یہ ہےکہ ہم موضوعات کی شناخت میں غلطی کربیٹھتےہیں لیکن جناب موسی صدرنے عمل اور اجرائي لحاظ سے تقاضوں کا ادراک کرلیاتھا وہ عالم اسلام کے مسائل و مشکلات نیز آج کی صورتحال سے بخوبی واقف تھے اور اکثرموضوعات کے سلسلےمیں فقہی حکم بھی رکھتے تھے۔ ایسے علماء اورمفکریں جنہوں نے تاریخ کے ساے میں اسلام کو سمجھاہے وہ آ‎سانی سے موثر حکمت عملی سے فائدہ اٹھاتےہوئے دین کی افادیت کو زندگي کے سارے شعبوں میں اجاگر کرسکتےہیں۔ تاریخي ،علمی، ثقافتی نیز جذباتی لحاظ سے علماء کےعوام سے کٹ جانےسے علماء، عوام اور زمانے کی ضرورتوں اور تقاضوں سے لاعلم ہوگئےہیں اور اس سے دشمن کی ثقافتی یلغار کا موقع فراہم ہوا۔ بنابریں اس خطرناک صورتحال سے یہ پتہ چلتاہے کہ علماء اسلام کا وسیع افق دید اور وسیع البنیاد فکراور سارے عالم اسلام کو اپنے فکری پیمانے میں سمونے سے تدریجا علماء اسلام کے مابین علمی اور عملی مفاہمت اور تعاون بڑھ سکتاہے اور اس کے نتیجے میں اسلامی مذاھب حقیقی معنی میں ایک دوسرے کے قریب آسکتےہیں اور اتحاد کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔ اس کے برعکس اگر قوم پرستی میں گرفتار ہوجائيں اور عالم اسلام کے مقدرات سے غافل ہوجائيں تو تفرقہ اور تشدد اور ایک دوسرے پرالزام تراشی کا ماحول بن جائے گا جس کےنتیجےمیں عالم اسلام کےمسائل کے تعلق سے حساسیت ختم ہوجائے گي اور عالم اسلام کے اہم مسائل جیسے فلسطین پرصیہونی قبضے کو نظرانداز کرنے لگيں گے۔ آج فلسطین کے افسوسناک حالات مسلمانوں کی اسی المناک صورتحال کا نتیجہ ہیں۔اسلام اور اسلامی تہذیب وتمدن شہید مطہری جنہوں نے برسہابرس مسلمانوں کی موجودہ صورتحال کےبارےمیں تحقیق کرنے میں گذاردئے دراصل مسلمانوں کی اس میراث کے خاتمے سے تشویش میں مبتلاہیں جس نے عظیم اسلامی تہذیب وتمدن کو جنم دیکر پروان چڑھایاہے۔ شہید مطہری کی نگاہ میں مسلمانوں کا معنوی اورروحانی پہلواور ان کی اپنی حقیقی شناخت سیاسی اور فوجی پہلو سے کہیں زیادہ اہمیت رکھتاہےکیونکہ اسلام انسان کو اعلی کمالات تک لےجانے پریقین رکھتاہے یعنی انسانی اقدار کی حیات کا دین ہے اور مادی ذخائر و اشیاء پرتسلط حاصل کرنے سے کہیں زیادہ انسان کے لئے فضیلت و عدل وانصاف، سربلندی اور عزت کا خواہاں ہے۔ شہید مطہری کہتےہیں: اس بات میں کسی طرح کا شک وشبہ نہیں ہے کہ مسلمانوں نے عظمت وافتخاراور حیرت انگیزاقتدار کے دن بھی گذارےہیں اس لحاظ سے نہیں کہ انہوں نے دنیا کو مسخرکرکےاس پرحکومت کی ہے ایسے حکمران تو بہت آئے جنہوں نے دنیا کواپنے پیروں تلے روند ڈالا اس پر اپنا تسلط جمایااور کچھ دنوں حکومت کرنے کےبعد تاریخ کے قبرستان میں غائـب ہوگئے ، بلکہ اس لحاظ سے کہ انہوں نے اپنے اقتدار کے دنوں میں ایک عظیم الشان تہذیب و تمدن کی بنیاد رکھی اور یہ سلسلہ کئي صدیوں تک انسان کے لئے مشعل راہ بنارہا اور آج بھی اسلامی تہذیب، انسانی تہذیب و تمدن کا ایک سنہرا باب شمارہوتی ہے اور انسانی تمدن کو اس پرناز ہے ۔ مسلمان کئي صدیوں تک علم وسائنس، صنعت و فلسفہ اور ہنر واخلاق میں سرامد دہر رہےہیں اوردوسری قوموں نے اس کے خرمن سے خوشہ چینی کی ہے ۔ آج یورپ کی خیرہ کنندہ تہذیب جس نے سب کو حیران کردیاہے اور ساری دنیا پرمسلط ہوچکی ہے مغرب کے منصف محققین کے اعتراف کے مطابق اس نے سب سےزیادہ اسلامی تہذیب وتمدن سے فائدہ اٹھایاہے ۔ شہید مطہری لاحاصل تعریفوں اور زیان بخش غفلتوں سے پرہیزکرتےہوئے اسلامی کے نجات بخش معارف کی تعلیم دیتےہوئے مسلمانوں کی تہذیب وتمدن کے حقائق بھی بیان کرتےہیں اور ذہن کو خود پسندی اور حصار ذات سے رہاکرانے کےلئے مہمیزکرتےہیں۔ اسلامی کتابوں میں ماضی میں مسلمانوں کی ترقی وپیشرفت کی افتخارآمیز تصویر کشی کی جاتی ہے مگریہ نہیں بیان کیا جاتاکہ آج کے مسلمانوں کےمسائل کس طرح حل کئےجاسکتےہيں اور نہ مسلمانوں کے آج کے افسوسناک حالات کا تجزیہ ہی پیش کیا جاتاہے ۔ شہید مطہری اس طرح دین کی تبلیغ کرنے کےقائل نہیں تھےبلکہ وہ اسلام اور مسلمانوں کو گوشہ نشینی سے نکالنے کا راستہ بھی بتاتےتھے اور مسلمانوں کے موجودہ مسائل کوبھی بیان کرتےتھے۔شہید مطہری کہتےہیں کہ: یہ مسلم بات ہےکہ اسلامی تہذیب و تمدن کا درخشان چراغ صدیوں تک ضوفشانی کرنے کےبعد بجھ گيا اور اب نور نہیں پھیلاتا، آج کے مسلمان دنیا کی بہت سی قوموں کےمقابلے نیز اپنے درخشان ماضی کے مقابلے انحطاط اور پسماندگي کاشکارہیں۔ یہاں یہ سوال اٹھتاہےکہ کیا ہوا کہ مسلمان جودینی اور دنیوی علوم میں سب سے آگے تھے اب سب سے پيچھے ہوگئے ہیں؟ سامراج اور اس سے قبل کلیساکی زبان سے یہ سناجاتارہاہےکہ اورانہوں نے یہ ظاہرکرنے کی کوشش کی ہےکہ قران اور دین اسلام مسلمانوں کی پسماندکي اور انحطاط کے باعث ہیں اور ان کےپاس آج عیسائیت یا دیگر سیاسی مکاتب فکر اپنانے کےعلاوہ کوئي چارہ نہيں ہے۔یادرہے حقائق سے صاف ظاہرہےکہ دین اسلام ، اسلامی تہذیب وتمدن سے الگ ہے اور اب بھی دین اسلام انسان معاشرے کو صحیح ڈھنگ سے چلانے کی صلاحیت رکھتاہے۔عالم اسلام میں دورحاضر کی فکری اور سیاسی تحریکوں سے پتہ چلتاہےکہ اسلام انسانی زندگی کے تقاضوں کوپوراکرنےکی توانائي رکھتاہے ۔ اسلامی تمدن کے چراغ کےگل ہونے کی وجوہات ہمیں مسلمانوں کی خود غرض اور مطلق العنان حکومتوں کی روشوں میں ڈھونڈنا چاہیے جن کا اسلام سے دورکا بھی واسطہ نہیں ہے۔ شہید مطہری ایسے مصلح ہیں جو یہ سمجھتےہیں کہ اسلام اب بھی زندہ ومتحرک ہے اور مسلمانون کو اسی وقت ترقی و پیشرفت حاصل ہوسکتی ہےجب وہ اسلامی تعلیمات پرعمل کریں اور دین کو عملی صورت میں اپنائيں۔گرچہ اسلامی تہذیب وتمدن نابود ہوچکی ہے لیکن اسلام آج بھی زندہ و پایندہ ہے اور ہرجگہ ترقی کررہاہے اور آج کے طاقتور ترین مکاتب فکر سے مقابلہ کرسکتاہے۔ ٭٭٭٭٭ ایران کا اسلامی انقلاب ان گہری علمی ، فکری اور ثقافتی کوششوں کا مرہوں منت ہے جو گزشتہ کئی صدیوں کے دوران عالم اسلام کے اہم مفکرین اور دانشوروں نے اپنی اپنی سطح پر انجام دی ہیں علامہ مرتضی مطہری عصر حاضر کے ان ہی ممتاز مفکرین میں سے ہیں کہ جنہوں نے اسلام سے اپنی گہری آشنائی کے سبب عصر حاضر کی نئی نسلوں کے ذہنوں میں اٹھنے والے سوالات کے اطمینان بخش جواب فراہم کئے ہیں ۔ شہید مطہری نے ایک ایسے زمانے میں کہ جب ہرطرف سے غیر اسلامی الحادی افکار و نظریات پر مبنی نظاموں کی ترویج و اشاعت کے لئے طرح طرح کے نغمے الاپے جارہے تھے اپنے استاد امام خمینی (رح) کے ساتھ مل کر قرآنی تعلیمات کی روشنی میں اسلامی انقلابی افکار و نظریات کا احیاء اور نفاذ کیاہے ۔ فکری انحرافات سے جنگ شہید مطہری کی تحریروں میں جگہ جگہ صاف طور پر جلوہ گر ہے ۔ خود آپ نے اپنی کتاب "عدل الہی” میں لکھاہے :” ایک طرف سے مغربی سامراج اور اس کے خفیہ اور آشکارا آلہ کاروں کی یلغار اور دوسری طرف اسلام کی حمایت کے دعویدار عصر حاضر کے بہت سے لوگوں کے ذریعے جانے یا انجانے میں پیش کئے گئے غلط تصورات کے سبب اصول سے لے کر فروغ تک بہت سے میدانوں میں اسلام کے محکم نظریات ، حملوں کی آماجگاہ بنے ہوئے ہیں ۔ اسی لئے یہ ناچیز بندہ اپنا فریضہ سمجھتاہے کہ اپنی توانائی کی حد تک اس میدان میں اپنا فریضہ پورا کرے ۔ شہید مطہری نے ” انسانی زندگی میں غیبی امداد ” ، ” الہی انصاف” ، ” پردے” اور ” مادیت کی طرف میلان کے اسباب ” کی مانند عصر حاضر کے بہت سے اہم مسائل پر قلم اٹھایا اور افراط و تفریط پر مبنی غلط تصورات کی بیخ کنی کا ایک منظم پروگرام شروع کردیا ۔ چنانچہ انہوں نے اگر خالص مذہبی و اعتقادی مجمعوں میں واقعات کربلا کی تاریخی حقیقتوں کو ” تحریفات عاشورا” کے عنوان سے اپنی تقریروں میں موضوع سخن بتایا تو دوسری طرف یونیورسٹی کے جوانوں میں جاکر ” اومانزم” ، ” اسلامی تفکر کا احیاء ” اور ” آزادی ” جیسے موضوعات کو اپنی تقریر اور درس و بحث کا محور قرار دیا ۔ حسب ضرورت موضوع اور گفتگو کا انتخاب علامہ مطہری کی تمام تقریروں اور تحریروں میں نمایاں ہے ۔ جس زمانے میں ایران بعض قوم پرست مغرب نوازوں کی پہلوی حکومت کے ساتھ ساز باز کی مشکل سے دوچار تھا اور قوم پرستی اسلام دشمنی کے اظہار کے لئے ایک سیاسی حربے میں تبدیل کی جارہی تھی شہید مطہری نے کتاب ” خدمات متقابل اسلام و ایران ” یعنی ایک دوسرے کے تئیں اسلام و ایران کی خدمتیں لکھی اور دشمنان اسلام کی اس سازش کو براہ راست نشانہ بنایا آپ نے اس کتاب میں صاف طور پر لکھاہے : ” ہم چونکہ اسلام کے نام سے ایک آئین ، مذہب اور نظریے کے پیرو ہیں اور اس میں خود قومیت کا عنصر موجود ہے اس لئے ملیت اور قومیت کے نام سے اس مذہب اور نظریے کے خلاف جو لہر شروع کی گئی ہے ہم اس کی طرف سے ” بے پروا ” نہیں رہ سکتے ۔ اسی طرح جب انہوں نے دیکھا کہ بعض مغرب نواز عناصر مغرب کی بے غیرت مادی تہذیب کی حمایت کے ذریعے اسلامی معاشرے کی پاکیزہ زندگی کو متاثر کرنے کے درپے ہیں اور عورتوں کے سلسلے میں اسلام کے وسیع نظریات کو مبہم و مخدوش کردینا چاہتے ہیں انہوں نے اس موضوع پر دو اہم کتابیں ” مسئلۂ حجاب ” اور ” اسلام میں خواتین کے حقوق ” تحریر کیں اور عورتوں کے مسائل کے سلسلے میں اسلامی طرز تفکر کا علمی پیرائے میں جواب دیا ۔ شہید مطہری نے اپنی کتاب ” مسئلۂ حجاب ” میں قرآن و روایات پر اپنی گہری نظر کے ساتھ تاریخ بشریت سے بھرپور آگہی اور وسیع مطالعےکے سبب پردے کے موضوع کو عقلی بنیادوں پر استوار قرار دیتے ہوئے ، ویل ڈورانٹ کی کتاب تاریخ تمدن کی مانند اہم تاریخی ماخذوں سے ثابت کیاہے کہ ” پردہ” اسلام سے قبل و بعد دنیا کی دوسری قوموں میں بھی رائج تھا اور اس کے بعد علامۂ موصوف نے مسئلۂ حجاب پر فلسفے ، سماجیات ، اخلاقیات ، اقتصادیات اور نفسیات کی روشنی میں مختلف پہلوؤں سے بحث کی ہے اور پھر اسلام میں پردہ کا فلسفہ تفصیل کے ساتھ بیان کیاہے ۔ اس کتاب میں ایک مقام پر انہوں نے لکھاہے ” اگر بعض سماجی بھلائیوں کے پیش نظر اسلام نے مرد یا عورت پر معاشرت میں خاص روش اپنانے کا حکم دیاہے کہ اس طور پر رہیں کہ دوسروں کا سکون خلل میں نہ پڑے اور اخلاقی توازن درہم برہم نہ ہو تو اس کا مطلب کسی کو قیدی بنانایا گلے میں غلامی کا قلادہ لٹکادینا یا کسی کی انسانی حیثیت پامال کرنا یا اصل آزادی سلب کرنا نہیں ہے اسلام نے پردہ کے ذریعے عورت کو گھر میں مقید نہیں کیاہے اور نہ ہی اس کی صلاحیتوں کے اجاگر ہونے کے مواقع سلب کئے ہیں بلکہ حجاب کی بنیاد یہ ہے کہ جنسی صلاحیتیں گھریلو ماحول سے مخصوص رہیں اور معاشرے میں سکون کے ساتھ کام و کوشش کی صلاحیتیں برو‏ئے کار لائی جاسکیں پردہ کام کاج کی صلاحیت مفلوج نہیں کرتا بلکہ عورت کی دوسری توانائیوں کو تقویت پہنچاتاہے ۔” شہید مطہری کے دوسری اہم کتاب جس کا ہم نے ابھی ذکرکیا ” اسلام میں خواتین کے حقوق ہے ” جس میں انہوں نے تحقیقی پیرائے میں اسلام کی منظور نظر خاتون کے ” خصوصیات و کیفیات ” بڑے ہی جامع طورپر بیان کئے ہیں ۔ شہید مطہری کی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ وہ تمام قدیم و جدید مکاتب فکر اور علمی اخلاقی ، فلسفی ، سماجی اور نفسیاتی علوم پر گہری نظر رکھتے تھے ، چنانچہ انہوں نے خاص طور پر انسان اور اس کے مختلف انسانی پہلوؤں کو اپنا موضوع سخن قراردیاہے اور ” انسان و ایمان ” قرآن میں انسان ” ، ” انسان کامل ” اور ” انسان اور اس کے انجام ” کے عنوان سے مستقل کتابیں لکھی ہیں جن سے اس موضوع پر ان کے ” تبحر فکری ” کا اندازہ ہوتاہے ۔ شہید مطہری علم کو انسانی ترقی و کمال کے اعلی مقاصد تک پہنچنے کا وسیلہ قرار دیتے ہیں وہ اعلی مقاصد جو ایمان کے پرتو میں مشخص ہوتے ہیں ۔ انہوں نے لکھاہے : دیکھنا چاہئے کہ علم ہم کو کیا دیتاہے اور ایمان کیا دیتاہے ۔ علم روشنی اور توانائی عطا کرتاہے اور ایمان عشق و امید ، علم وسائل تیار کرتاہے اور ایمان اس کے مقصد ، علم رفتار میں تیزی لاتاہے اور ایمان رخ معین کرتاہے ، علم ” خوب کرسکنا ” اور ایمان ” خوب چاہنا ” ہے علم عقل کی زیبائی ہے اور ایمان روح کی زیبائی ۔”بہرحال شہید مطہری نے اپنی کتابوں میں ایک بڑا حصہ ترقی کی راہ مین انسان کی درونی قوتوں کی شناخت تعلیم و تربیت اور تربیت کے مسا‏ئل بیان کرنے میں صرف کیاہے ۔ شہید مطہری کے قیمتی آثار میں ایک کتاب ” شہید اور شہادت ” بھی ہے جس میں انہوں نے شہادت کو ایک مستقل حقیقت قرار دیاہے جو ایک ” نہج و منطق ” اور ایک انتخاب ہے ، علامہ مطہری کی نظر میں ” شہید کی مثال ایک شمع جیسی ہے جس کی عمر ، جلنے ، ختم ہونے اور نور افشانی کرنے میں گزرتی ہے تا کہ دوسری اس کی روشنی اور جلا سے جو خود اس کی ‌زندگی کے خاتمے پر منتہی ہوتی ہے سکون و آرام حاصل کریں اور اپنے کام آسانی سے انجام دے سکیں ۔ شہید مطہری لکھتے ہیں : شہید کی سب سے بڑی خصوصیت شجاعت و دلیری سے بھرپور ” سرفروشی کا جذبہ ” بیدار کرناہے جن قوموں میں سرفروشی کا جذبہ مرجاتاہے شہید ان کے جسموں میں اپنے خون کی لالی دوڑاکر ان کے مردہ جذبوں کو پھر سے زندہ کردیتاہے ۔ لہذا اسلام کو ہمیشہ شہید کی ضرورت ہے کیونکہ اسے ہمیشہ سرفروشی کا جذبہ در کار ہے اور بالآخر اس مرد عظیم نے بھی شہادت کا شیریں جام نوش فرمایا اور اس کے افکار و نظریات اسلامی معاشروں کی رگوں میں ” گرم خون ” کی مانند روان دوان ہوگئے شہید مطہری نے شہادت کے ذریعے نہ صرف ملت کے اندر جذبۂ سرفروشی پیداکیا بلکہ آپ کی شہادت سے مروجہ انحرافات کے درمیان حقائق کی راہیں اور زیادہ روشن ہوگئیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button