مقالہ جات

آہ!شہید آغا ضیاء الدین کی فراقت کا ساتواں سال

Shaheed-Agha-Ziauddinشیعت نیو ز بزرگ عالم دین شہید آغا ضیاء الدین کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اس مقالہ کو اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کر رہی ہے ۔شہید علامہ آغا ضیاء الدین کہ جنہوںنے اسلام ناب محمدی (ص) کی سر بلندی کے لئے اپنی جان کی قربانی دے کر شجر اسلام کی آبیاری کی ۔شہید آغا ضیاء الدین حضرت ابا عبداللہ الحسین علیہ السلام کے سچے پیروکار اور عاشقوں میں سے ایک تھے۔اور آپ نے امام حسین علیہ السلام کے سیرت پر ہی عمل پیرا ہوتے ہوئے وقت کے یزیدوں کے سامنے اپنا سر تسلیم خم نہ کیا بلکہ ابا عبد اللہ الحسین علیہ السلام کی طرح سر کٹوانے کو ترجیح دی۔
شہید آغا ضیاء الدین کا تعارف:
شہید آغا ضیاء الدین کا تعلق گلگت کے ایک معروف اور دین دار گھرانے سے تھا آپ سنہ ١٩٥٨ ء میں گلگت میں ہی پیدا ہوئے،آپ مذہبی اسکالر،عالم دین،مقالہ نویس تھے اور گلگت بلتستان میں اعلیٰ مقام سے جانے جاتے تھے۔شہید آغا ضیاء الدین میٹرک پاس کرنے کے بعد دینی تعلیم کے لئے جامعۃ المنتظر چلے گئے جہاں آپ نے اپنی زندگی کو اسلام کو سنہری اصولوںکے مطابق چلانے کا پیروکار بنایا اور اللہ سے لگاؤ لگانے لے لئے عبادت میں مصروف عمل رہے۔شہید ضیا ء الدین نے ایف اے کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد بی اے میں اعلیٰ درجے کی پوزیشن حاصل کی۔
شہید آغا ضیاء الدین کی ایران میں تعلیمی سر گرمیاں:
سنہ ١٩٧٩ء میں شہید آغا ضیاء الدین جامعۃ المنتظر لاہور سے فراغت کے بعد دینی علوم کی اعلیٰ درجے کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے ایران کے شہر قم تشریف لے گئے ،اس وقت ایران میں عظیم رہنما امام خمینی (قدس سرہ) کی قیادت میں اسلامی انقلاب رونما ہو چکا تھا۔ایران میں شہید آغا ضیاء الدین نے انتھک محنت اور لگن کے ساتھ دینی علوم حاصل کئے تاہم امام خمینی (قدس سرہ) نے آپ کو آپ کی محنت اور لگن کو دیکھتے ہوئے آپ کو اعلیٰ ڈگری سے نوازا اور اختیارات فراہم کئے۔جو کہ شہید آغا ضیا ء الدین کے لئے عظیم انعام اور تحفہ تھا۔
شہید آغا ضیا ء الدین لندن میں :
ایران میں اپنی دینی تعلیم کو مکمل کرنے کے بعد شہید ضیا ء الدین لندن چلے گئے جہاں پرسٹن یونیورسٹی میں اعلٰی تعلیم حاصل کرنے کے بعد واپس پاکستان آئے اور لاہور میں قائم جامعۃ المنتظر کے پرنسپل مقرر ہوئے۔شہید آغا ضیا ء الدین نے ہمیشہ علم کی تلاش جاری رکھے آپ نے لندن میں کئی دروس دئیے جو کہ انگریزی زبان میں دئیے جاتے تھے ۔
شہید آغا ضیا ء الدین رضوی کی گلگت واپس آمد:
سنہ ١٩٨٨ ء میں پاکستانکے شمالی علاقوں میںنام نہاد جہاد کے نام پر شیعیان حیدر کرار (عٌ) کا بڑی تعداد میں قتل عام ہوا تاہم چند مومنین نے حضرت امام حسین علیہ السلام کی سیرت کے مطابق قیام کیا اور بغیر کسی اسلحہ کے نام نہاد جہادی دہشت گردوں کو مار بھگایا۔
اس معرکے کے بعد گلگت بلتستان میں شیعیان حیدر کرار کی صورت حال کافی کمزور ہو چکی تھی جس کی وجہ قیادت کا فقدان اور جنگ کے اثرات ہونے کے ساتھ ساتھ علاقے میں شیعہ دشمن انتظامیہ کا ہونا تھا۔
شہید آغا ضیاء الدین رضوی علاقے کی اس صورت حال پرشدید پریشان تھے لہذٰ ا آپ نے سنہ ١٩٨٩ء میں گلگت واپسی کا فیصلہ کیا اور واپس تشریف لے آئے۔
شہید آغا ضیاء الدین نے گلگت واپسی کے بعد انتہائی جد وجہد کے زریعے ملت کو یکجا کرنے کی کوشش کی ،شہید آغا ضیا ء الدین نے اپنی محنت اور جد وجہد کے نتیجہ میں لوگوں کو نئی زندگی اور جوش و ولولہ عطا کیا جبکہ نوجوانوں میں نیا خون بھر دیا۔پوری قوم ہمیشہ آپ کی پیروی کیا کرتی تھی۔
شہید آغا ضیاء الدین رضوی کی نصابی تحریک:
جب دشمنان اسلام و شیعیان حیدر کرار (ع) نے دیکھا کہ وہ اسلحہ کے زور پر ملت جعفریہ کو شکست نہیں دے سکے تو انہوں نے نوجوان اور معصوم اذہان کو خراب کرنے کے لئے نئی حکمت عملی بنائی اور اسکول کالجوں میں دی جانے والی تعلیم کے نصاب میں ایسی تبدیلیاں کروانا شروع کر دیں جس میں مکتب اہلبیت علیہم السلام کے خلاف ترویج کی جاتی تھی۔طلباء کو تشدد کے زریعے ایسے نصاب کو پڑھنے کے لئے کہا جاتا تھا جس میں اہل بیت علیہم السلام کی شان میں گستاکی کی جاتی ہو،تاہم شہید آغا ضیاء الدین ہی وہ فرد واحد تھے کہ جنہوں نے اس ناصبی سازش کے خلاف قیام کیا اور ہر فورم پر جا کر اس کے خلاف سخت احتجاج کیا،تاہم حکومت نے وقت ضائع کرو کی پالیسی کے تحت ملت جعفریہ کے مطالبے کو طول دیئے رکھا۔
بالآخر ٣ جون سنہ ٢٠٠٥ ء کو عوام نے اپنے عظیم قائد کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے حکومت کی اس سازشی پالیسی کے خلاف زبر دست احتجاج کیا اور اس احتجاج کو روکنے کے لئے فورسز نے نہتے طلباء پر فائرنگ کر دی جس کے نتیجہ میں واجد حسین شہید ہو گیا۔
حکومت نے کوشش کی کہ شہید آغا ضیا ء الدین کو گرفتار کر لیا جائے لیکن ہزاروں افراد جو کہ گلگت کے مختلف علاقوں نگر،ہنزہ،دینور اور دیگر علاقوں سے آئے ہوئے تھے سراپا احتجاج بن گئے اور حکومت کو جب یہ خبر پہنچی کے حسینی جوان آغا ضیاء الدین کے ساتھ ہیں تو بالآخر حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پڑے اور ایک اجلاس میں تمام مذہبی فرقوںکے ساتھ ہم آہنگی کے ساتھ شیعہ طلباء کے لےئے نصاب کا فیصلہ کیا گیا ۔
فیصلہ کے مطابق یہ پایا کہ کسی بھی طالب علم کو اس کے عقیدے کے خلاف کسی قسم کی تعلیم نہیں دی جائے گی ،تاہم حکومت ایک مرتبہ پھر شیعہ دشمن لوکل حکومت اور ناصبی دہشت گردوں اور ملک دشمن عناصر کی وجہ سے اس فارمولے کو علم درآمد کروانے میںناکام رہی۔
شہید آغا ضیاء الدین کی شہادت:
آٹھ جنوری تاریخ کا وہ سیاہ دن تھا کہ جس دن ملت جعفریہ گلگت بلتستان کے محبوب قائد آغا ضیاء الدین رضوی کو شہید کر دیا گیا۔یہ وہ دن تھا کہ جس روز ملت جعفریہ کا ہرفرد غم سے نڈھال ہو گیا تھا اور ابا عبد اللہ الحسین علیہ السلام کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے وقت کے یزیدوں کے سامنے سر نہ جھکانے کے جرم میں شہید آغا ضیا الدین اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔
٨ جنوری سنہ ٢٠٠٥ کو شہید آغا ضیاء الدین رضوی پر ناصبی وہابی دہشت گردوں نے حملہ کیا جس کے جواب میں شہید کے ساتھی اقبال نے جوابی کاروائی کی اور ایک ناصبی وہابی دہشت گرد کو واصل جہنم اور دیگر کو زخمی کر دیا ۔
یہ حملہ صرف ایک شخص پر نہیں بلکہ اسلام،امن کے سفیر اور عظیم رہنما پر حملہ تھا ،آپ کو فوری طور پر راولپنڈی اسپتال منتقل کیا گیا لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کی شہادت کی دعا کو قبول فرما لیا اور آپ شہید ہو گئے۔آپ نے اپنی دعاؤں میں اکثر اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ آپ کو شہادت نصیب ہو اور پھر وہی ہوا کہ آ پ ١٣ جنوری کو رات ٣ بجے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button