مقالہ جات

دربار یزید میں امام زین العابدین ع کا تاریخی خطبعہ

shiitenews imam sajjad qaberیزید کے کہنے پر خطیبِ مسجد نے  حضرت علی۴ کی برائ بیان کرنی شروع کی اور رسول [ص] سے بنی امیہ کا شجرہ ملا دیا ۔ اب حضرت امام سجاد۴ اپنی جگہ سے اُٹھے اور بلند و بالا آواز سے خطیب پر لعن طعن شروع کی ۔ ویلک الخاطب اشتریت رضاۃ المخلوق بسخط الخالق فتبو ، معتدت من النار۔۔۔
وائے ہو تجھ پر اے تقریر کرنے والے تو نے لوگوں کی خوشی کے لئَے اللہ تعالٰی کے غصے کی پرواہ نہیں کی اور یدیز کی طرف دیکھ کر امام سجاد۴ نے فرمایا کہ اے یزید کیا تو مجھے اجازت دیتا ہے کہ لکڑی کے اس منبر پر بیٹھوں اور اللہ تعالٰی کی خوشنودی کے لئَے کچھ تقریر کر سکوں ۔ اُس مسجدِ بنی امیہ میں بے شمار مجمع تھا اور ہر طرح کے لوگ وہاں جمع تھے ۔ یزید نے چاہا کہ امام سجاد۴ کو اجازت نہ دے لیکن امام سجاد۴ کی بلند آواز کو سب مجمع نے سنا اور تمام حضرات سیدِ سجاد۴ کی طرف غور سے دیکھنے لگے اور سب نے کہا اے یزید اس نوجوان کو بھی منبر پر جا کر تقریر کرنے کی اجازت دے تاکہ ہم بھی تو واقعات کی اصلیت کا اندازہ لگا سکیں اور اے یزید تو اس نوجوان کی تقریر کرنے سے کیوں گھبرا رہا ہے ۔ اسے فوراً اجازت دی جائَے تاکہ وہ بھی چند الفاظ ادا کر سکے لیکن یزید کا دل نہیں چاہتا تھا کہ امام سجاد۴ منبر پر جا کر اصل حالات سے لوگوں کو با خبر کر سکیں کیونکہ وہ جانتا تھا کہ نبوت کا چشم و چراغ منبر پر آ کر حقائْق بیان کر دے گا اور جو کچھ ملکِ شام کی حکومت نے برسہا برس سے علی۴ کی توہین کی تھی اور دنیا اور زمانے کو دھوکا دیا تھا تو عوام الناس کو حقیقت کا پتہ چل جائَے گا اور بنی امیہ کی جھوٹی سازش کا بھانڈہ پھوٹ جائَے گا۔ آخر کار عوام الناس کا اصرار بڑھا اور یزید مجبور ہو گیا اور اُس نے امام سجاد۴ کو اجازت دی کہ امام منبر پر جا کر اپنے خیالات کا اظہار کریں ۔
خطبہ۶ امام زین العابدین۴
اللہ تعالٰی کا بے انتہا شکر ہے جو بہت مہربان اور نہایت ہی رحم والاہے ۔ جس کی تعریف کی کوئ انتہا نہیں ہے ۔ وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا ۔ اُس کی ذات ہمیشہ باقی رہنے والی ہے ۔ اُسے کوئی زوال نہیں ہے ، وہ سب سے پہلے تھا اور سب کے آخر تک رہے گا ۔ وہی لوگوں کو دن اور رات روزی تقسیم کرتا ہے ۔ پس اللہ تعالٰی کی تعریف سن چکے ہو ۔ اے مرد مانِ شام عوام الناس ہوشیار ہو جاو کہ اللہ تعالٰی نے بے شمار نبی و اولیا۶ دنیا میں بھیجے ہیں اُن میں سے سات فضیلتیں اللہ تعالٰی نے ہم کو خاص طور پر بخشی ہیں ۔ ۱ ۔ علم  ۲۔ حلم ۔  ۳ ۔ بخشش  ۴۔ بخشش  ۵ ۔ بزرگواری 6 ۔ محبت ۷ ۔ اور مومنین کے دلوں میں ہماری محبت قائم کی ہے ۔ ہماری فضیلت کے لئَے یہ کیا کم ہے کہ ہمارے جد رسولِ خدا [ص] اور راست گو اُمت کے صدیق حضرت علی۴ ہمارے دادا ہیں ، جعفر طیار اور حمزہ۴ ہم میں سے ہیں ، شیر خدا و شیرِ رسولِ خدا [ص] کے دونوں نواسے حسن۴ و حسین ۴ ہم میں سے ہیں اور اے لوگوں تم میں سے کچھ حضرات تو مجھے جانتے ہی ہیں کہ میں خانوادہ رسول اللہ [ص] ہوں ۔ میں اپنا شجرہ حسب و نسب بیان کرتا ہوں ۔ ۔۔۔
اب امام زین العابدین۴ نے اپنا تعارف جن الفاظ میں کرایا ہے وہ اُن کے عزم و ہمت ، نسب کی پاکبازی اور افضل ترین شجرہ کی عکاسی کرتا ہے ۔ تمام جہانوں میں آج تک کسی نے اپنا تعارف یوں نہ کرایا ہو گا جیسا کہ امام سجاد۴ نے کرایا اور دربارِ یزید میں موجود تمام لوگوں سمیت رہتی دنیا تک مخلوقِ خدا کو یہ باور کرا دیا کہ خبردار حسب و نسب میں ہمارا مقابلہ بھول کر بھی نہ کرنا ۔ تاریخ میں اپنا ایک تعارف امیرالمونین علی ابنِ ابیطالب۴ نے جنگِ خیبر کے موقع پر کرایا تھا اور آج امام زینُ العابدین۴ نے اپنے جد کی سنت ادا کی ۔
امام سجاد۴ کا بیان اپنے تعارف میں ۔۔۔
– میں مکہ و منٰی کا بیٹا ہوں ، مِں زمزم و صفا کا بیٹا ہوں ، میں اُس نبی کا نواسہ ہوں کہ اللہ تعالٰی نے براق کے زریعے جن کو زمین و آسمان کی سیر کرائی اور ان کو رات کے وقت مسجد الحرام سے مسجد الاقصٰی تک لے گیا اور سیر کروائی ۔
میں حجرِ اسود کا بیٹا ہوں کہ جس کو اپنی عبا میں لے کر اصل مقام پر لگا دیا ۔
میں اس پاک و پاکیزہ ہستی کا بیٹا ہوں کہ جنھوں نے اسلام کے اصولوں کو دنیا کو بتلایا ، میں اُس ہستی کا بیٹا ہوں کہ جس نے جوتے پہنے ساتھ احرام باندھا ۔
میں اُس ہستی کا بیٹا ہوں جس نے حج کیا اور اللہ تعالٰی کی آواز پر لبیک کہا ۔ میں اُس کا بیٹا ہوں کہ جس کو اللہ تعالٰی نے سدرۃ المنتہٰی کی سیر کرائ ۔
میں اُس پاک ہستی [محمد مصطفٰی] کا بیٹا ہوں جو قربِ خدا تک گیا ، میں اُس ہستی کا بیٹا ہوں کہ جس نے آسمان کے فرشتوں کو نماز پڑھائ ، میں اُس ہستی کا بیٹا ہوں کہ جس پر اللہ تعالٰی نے وحی کا سلسلہ جاری کیا ۔
میں محمدِ مصطفٰی اور علیِ۴ مرتضٰی کا بیٹا ہوں اور میں اُس بہادر کا بیٹا ہوں جس نے بڑے بڑے کافروں کو قتل کر کے اسلام کو سر بلند کیا ۔
میں اُس کا بیٹا ہوں جس نے ہجرت کی اور جنگِ خندق و حُنین میں کامیابی حاصل کی ۔
میں اُس ہستی کا بیٹا ہوں کہ جس نے مارقین ، ناکثین و قاسطین سے جنگ کر کے کامیابی حاصل کی۔
میں اُس ہستی کا بیٹا ہوں کہ جس کو اللہ تعالٰی نے سخاوت بخشی ، عاقل پیشرو ، صابر ، روذہ دار اور مہذب شبِ زندہ دار مشرکوں کے قلعوں کو تباہ کرنے والا اللہ کا شیر ہے ۔
میں علی ابنِ ابیطالب۴ کا بیٹا ہوں جس کے خلاف حکومتِ شام ہو گئی۔
میں فرزندِ فاطمہ الزہرا ۴ ہوں جو سیدہ نسا۶ العالمین ہیں۔
میں خدیجۃ۴ الکبرٰی اُم المومنین کا بیٹا ہوں ۔
میں اُس مظلوم حسین۴ کا بیٹا ہوں جس کا سر گردن کے پیچھے سے کاٹا گیا ۔
میں اُس تشنہ لب شہید کا بیٹا ہوں کہ جو دنیا سے پیاسا چلا گیا۔
میں اُس حسین۴ کا بیٹا ہوں جس کا لاشہ دفن نہیں کیا جا سکا۔
مِن اُس بے کس غریب کا بیٹا ہوں کہ مرنے کے بعد اُس کے جسم پر سے لوگوں نے کپڑے لوٹ لئَے اور لاش برہنہ رہ گئی ۔
میں اُس ہستی کا بیٹا ہوں کہ جس پر چرند و پرند اور جنات نے جنگلوں اور ہواوں میں نوحہ پڑھا ۔
میں اُس بے کس و غریب مسافر کا بیٹا ہوں کہ جس کے کنبے کو ظالم کشاں کشاں اسیر کر کے ہاتھوں کو کمر سے باندھ کر کربلا سے کوفہ اور کوفہ سے شام لے گئَے ۔ میں سیدِ سجاد۴ اللہ تعالٰی کی بے انتہا تعریف و توصیف کر رہا ہوں اور اُس کا بے انتہا شکر ہے کہ اُس نے ہم کو امتحان میں ڈالا تاکہ پرچمِ رشد و ہدایت ہمارے خاندان میں قرار دے اور تمام ضلالت و گمراہی کو ہم سے دور کر دے۔
خطبہ امام۴ منقطع کرانے کے لئَے یزید کا بے وقت ازان دلوانا؛
اب امام۴ کا خطبہ تقریباً آخری منزل میں تھا کہ امام۴ نے اللہ کی تعریف بیان کی اور اپنے امتحان کا زکر کیا ۔ یہ سن کر تمام عوام الناس سر پھوڑ پھوڑ کر بلند آوازوں سے رو رہے تھے ، اب یزید ملعون کو خطرہ ہوا کہ عوام میں انقلاب آ رہا ہے اور میری حکومت ڈوبتی نظر آ رہی ہے ۔
یزید ملعون نے گھبرا کر موزن کو حکم دیا کہ فوراً خطبہ علی ابن الحسین۴ کو کاٹ دیا جائے اور ازان [بے وقت] دی جائے ۔
اور موزن نے ازان کہنی شروع کی اور اللہ اکبر اللہ اکبر کہا تو امام سجاد۴ نے فرمایا کہ بے شک خداوندِ عالم ہر شے سے بلند و بر تر ہے ، آُس سے کوئی شے بھی بلند نہیں ہے ، پھر موزن نے اشھدان الا الہٰ الا اللہ کہا تو امام سجاد۴ نے کہا میرا خون اور گوشت ہڈیاں اور جسم کا انگ انگ اللہ تعالٰی کی بڑائ بیان کرتا ہے پھر جب موزن نے کہا کہ اشھدان محمد الرسول اللہ تو امام سجاد۴ نے یزید کی طرف رخ کر کے فرمایا اے یزید تو یہ بتا یہ محمد رسول اللہ [] تمہارے جد ہیں یا ہمارے جدِ بزرگوار ہیں اور اے یزید تو اگر یہ کہے یہ میرے جد ہیں تو یہ بات جھوٹی ہے اور تو کافر ہے اور اگر حق بات کہے کہ وہ میرے جدِ بزرگوار ہیں تو پھر تو نے اُن کی عترت کو اسیر کیا اور در بدر پھرا کر کیوں قید میں ڈال رکھا ہے۔
[  خصوصاً بیانِ خطبہ از ناسخ التواریخ ج ۲ صفحہ 167 ، طبع جدید زندگی حضرت سید الشہدا۶
امام زین العابدین علیہ السلام نے دیکھا کہ لوگ زار و قطار رو رہے ہیں ،امام علیہ السلام نے انھیں خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور پھر کھڑے ہوکر حمد خدا بجالائے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کی تعریف کر کے فرمایا :
ایھا الناس ! جو مجھ کو پہچانتا ہے ،پہچانتا ہی ہے جو نہیں جانتا وہ مجھے پہچانے ، میں علی حسین بن علی بن ابی طالب علیھم السلام کا فرزند ہوں ،میں وہ ہوں جس کی حرمت پامال کی گئی ہے ،جس کا مال لوٹا گیا ہے، جس کا سرمایہ تاراج کیا گیا ہے اور جس کے گھر والے اسیر کئے گئے ہیں ۔ میں اس کا بیٹا ہوں جس کا فرات کے کنارے بے جرم و خطا سر کاٹا گیا ،میں اس کا بیٹا ہو جسے ستا کر قتل کیا گیا اور یہ شہادت اس کے لئے باعث فخر ہے ۔
ایھا الناس ! تمھیں خدا کی قسم ! ذرا بتاؤ کیا تم لوگوں نے میرے باپ کو خط نہیں لکھا تھا، لیکن ان کے ساتھ غداری کر بیٹھے ، ان کی بیعت کی لیکں ان سے جنگ پر آمادہ ہو گئے ، مردہ باد تمہارے اس کردار پر جو تم نے خدا کے یہاں بھیجا ہے ، پھٹکار ہو تمھارے ان افکار پر ،اگر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تم سے کہیں ” تم نے میرے اہلبیت(ع) کو قتل کیا ،میری حرمت کو پامال کیا اس لئے تم ہماری امت میں سے نہیں ہو ” تو کس طرح پیغمبر کا سامنا کرو گے؟
یکایک چاروں طرف سے صدائیں بلند ہونے لگیں لوگ ایک دوسرے سے کہنے لگے ” تباہ و برباد ہو گئے ہم لوگ ” پھر حضرت نے فرمایا :
خدا رحمت نازل کرے اس پر جو میری نصیحت کو قبول کرے اور خدا و رسول (ص) خاندان پیغمبر(ص) کا پاس و لحاظ رکھے اور در حقیقت رسول خدا کا پاس رکھے چونکہ رسول خدا(ص) کی سیرت ہی بہترین سیرت ہے ۔سب نے جواب دیا : ” اے فرزند رسول خدا! ہم سب آپ کی باتیں سنیں گے اور اس پر عمل کریں گے اور اس بات کا وعدہ کرتے ہیں کہ آپ کا ساتھ چھوڑ کر دوسروں سے دلبستہ نہ ہوں گے ۔
لہذا جو حکم دیں ہم تیار ہیں ،جو آپ سے جنگ کرے گا ہم اس سے جنگ کریں گے ،جو آپ سے صلح کرے گا ہم اس سے صلح کریں گے ہم یزید کو گرفتار کریں گے ۔ہم آپ پر اور ہم لوگوں پر ستم کرنے والوں سے بیزار ہیں ۔
امام سجاد علیہ السلام علیہ السلام ان کے بیجا اور نفاق آمیز باتیں سن کر غضبناک ہوئے اور فرمایا : ہرگزنہیں ! اے دھوکہ باز اور مکار لوگو! تم کبھی اپنی مراد تک نہ پہنچو گے ، ہمارے ساتھ بھی وہی کرنا چاہتے ہو جو تم نے ہم سے پہلے ہمارے آباء و اجداد کے ساتھ کیا ہے ، راہوار اونٹوں کی قسم ! ابھی ہمارے زخم بھرے نہیں ہیں ،ہماری تم لوگوں سے صرف اتنی گزارش ہے کہ نہ ہمارا ساتھ دو نہ ہمارے دشمن کا ،
امام سجاد علیہ السلام نے اس مختصر سے خطبے میں واقعہ کربلا کی دو زاویوں سے تحلیل کی ہے ، ایک طرف یزید اور اس کے ساتھیوں کی درندگی اور غیر انسانی جنایتوں کا پردہ فاش کیا اور انھیں غارتگر ، قاتل اور فرزند رسول خدا(ص) کی حرمت کو پامال کرنے والا اور اہلبیت رسول (ص) کو اسیر کرنے والا قرار دیا اور کوفیوں کو مکار ،بیعت شکن ،اور یزید کے جرم میں شریک قرار دیا اور انھیں ان کے برے انجام سے خبردار کیا ۔
دوسری جانب امام حسین علیہ السلام اور ان کے خاندان والوں کو رسول خدا(ص) کا اہلبیت قرار دیا اور ان کی اور ان کے اصحاب کی شہادت کو اپنے لئے بہترین فخر قرار دیا ۔ اس طرح سے امام علیہ السلام نے نہضت کربلا کے حسین خد و خال کو دنیا کے سامنے واضح کر دیا اور یزیدیوں کو اس بات کی مہلت نہ دی وہ واقعہ کربلا میں تحریف کر سکیں یا اس سے کوئی فائدہ اٹھا سکیں ۔

متعلقہ مضامین

Back to top button