مقالہ جات

عزاداری شعار یا شعور؟

azadari_1اگر کسی نے مستند مقالہ لکھا تو وہ مستقل طور پر ” عاشورا خلقت کا راز” کے حصے میں درج کیا جائے گا اور پوری امانتداری سے لکھاری کا نام بھی درج کیا جائے گا۔
راہنمائی کے لئے اشارہ:
امام حسین علیہ السلام نے مدینہ سے نکلنے کے وقت سے لے کر کربلا پہنچنے تک دسیوں مرتبہ اپنے مقاصد بیان فرمائے تھے جن میں احیاء شریعت محمدیہ (ص)، اصلاح امت جد (ص)، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر، ظلم اور تحریف اسلام کے خلاف قیام وغیرہ جیسے مقاصد شامل تھے۔
روز عاشور بھی امام حسین اور تین اماموں کے مکتب میں تربیت حاصل کرنے والے عالم و دانشور حضرت عباس علمدار علیہما السلام نے کم از کم دس مرتبہ شامیوں اور ان کے کوفی ساتھیوں سے خطابات فرمائے کیونکہ ہدایتِ انسان خاندان رسالت (ص) کا اولین مقصد تھا اور اگرچہ علی اصغر کی شہادت، عباس علمدار کی پانی پہنچانے سے ناامیدی اور مظلومانہ شہادت، امام حسین علیہ السلام کی رخصتی اور شہادت اور اس کے بعد حرم رسول اللہ (ص) کی صورت حال، خیموں کا جلایا جانا، امام سجاد علیہ السلام کا بیمار ہوجانا، سیدانیوں کو لاشوں کے قریب سے گذارا جانا وغیرہ سب بہت بڑے بڑے غم ہیں، پیاس اور پانی کا بند ہوجانا بھی بہت بڑا غم ہے، خاندان رسول (ص) کی اسیری بھی بہت بڑا غم ہے لیکن امام حسین علیہ السلام سمیت شہداء کربلا اور اسیران دشت نینوا کے لئے ـ جو ان تمام واقعات سے امت کو شعور دینے کا فائدہ اٹھاتے رہے ـ سب سے بڑا غم یہ تھا کہ وہاں کسی نے امام حسین علیہ السلام کی بات نہیں سنی حتی کہ هل من ناصر کا جواب بھی کسی نے نہیں دیا سوائے کمسن عبداللہ بن حسن علیہاالسلام کے جو 10 سال کی عمر میں چچا کی آغوش میں تیر حرملہ کا نشانہ بنے اور اس چھوٹے نواسۂ رسول (ص) کی کیفیت شہادت علی اصغر جیسی تھی فرق صرف یہ تھا کہ علی اصغر (ع) شیرخوار تھے۔
چنانچہ غم سب سے بڑا یہ تھا کہ پیغام امام حسین علیہ السلام نہیں سنا گیا اور دعوت امام حسین علیہ السلام لبیک کی صدا سے آشنا نہ ہوسکی۔ یا یوں کہئے کہ اس صدا سے کسی کو شعور نہیں ملا۔
چنانچہ ہم نے عاشورا کو شعار بنایا؛ ہماری سینہ زنی، ہمارا گریہ جو باعث جنت قرار دیا گیا ـ من بکی او ابکی اور تباکی علی الحسین (ع) وجبت له الجنة ـ ہماری مجالس سب کے سب شعار ہیں جیسا کہ امام حسین علیہ السلام کی صدا بھی شعار تھی اور مقصد لوگوں کو شعور بخشنا تھا۔ لہذا ہم یہ شعار اٹھا رہے ہیں تا کہ ہمیں بھی اور دیکھنے اور سننے والوں کو شعور ملے۔ شعائر عاشورا میں سب سے زیادہ قدر و منزلت گریہ و بکاء کے لئے عطا ہوئی شاید اس لئے کہ آپ کو روتا دیکھ کر سبب گریہ پوچھا جاتا ہے جس کا اگر آپ بہتر جواب دے دیں تو بہت زیادہ مؤثر ہو سکتا ہے۔
روایت ہے کہ ایک دفعہ امام سجاد علیہ السلام قصاب کی دکان کے سامنے سے گذر رہے تھے۔ قریب تشریف لے گئے اور قصاب سے دریافت کیا: بھائی! جب آپ بکرا یا دنبہ یا بیل ذبح کرتے ہو تو کیا اس کو پانی دیتے ہو؟
قصاب نے کہا: یابن رسول اللہ (ص)! یہ تو ہماری مقدس روایت ہے اور اس پر ہم ضرور عمل کرتے ہیں تو امام (ع) کی آنکھیں اشکبار ہوئیں۔
قصائی نے سبب پوچھا تو امام (ع) نے فرمایا: میرے والد کو پانی دیئے بغیر کربلا مین ذبح کیا گیا۔
اسی طرح ہیں ہمارے تمام اعمال جو امام حسین علیہ السلام کی یاد میں انجام دیتے ہیں اور اگر ایسے نہیں ہیں اور ان کا نتیچہ ایسا نہیں ہے تو نظر ثانی کی ضرورت ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button