مقالہ جات

حضرت امام حسن (ع) کی ولادت

IMAM_HASSAN_3پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کے ممتاز صحابی حضرت سلمان فارسی رضوان اللہ علیہ کہ جن کو نبی اکرم (ص) نے ” منّا اہل البیت ” یعنی وہ ہم اہلبیت میں شامل ہیں، سے مفتخر کیا ہے فرماتے ہیں :
اگر آپ کو کسی عظیم ہستی سے کوئی کام لینا ہو اور کوئی اہم حاجت رکھتے ہوں تو حاجت روائی کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ” حاجت روا ” کے کسی قریب ترین شخص کو وسیلہ قرار دے کر اپنی بات اس تک پہنچائیں کیونکہ کوئی محبوب ترین شخص آپ کی سفارش کردے تو کام پورا ہونے کا  یقین ہوجاتا ہے اور یہ طے ہے کہ خداوند عالم کی بارگاہ قدس میں محمد و آل محمد علیہم السلام سے زیادہ قریب اور حبیب کوئی اور نہیں پایا جاتا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم اور ان کے اہلبیت کو وسیلہ بنا کر خدا سے جو کچھ طلب کرنا ہو طلب کیجئے آپ کی حاجت ضرور پوری ہوگي ۔
ماہ مبارک کے یہ ایام دعاؤ توسل اور طلب مغفرت کے ایام ہیں خاص طور پر آج 15 ماہ مبارک کی شب فرزند رسول سبط اکبر حضرت امام حسن (ع) کی ولادت کی شب ہے ہم کو آپ کی تعلیمات اور آپ کی سیرت سے روشنی حاصل کرنی چاہئے ۔کریم آل محمد محتبائے شہر مدینہ حضرت امام حسن (ع) نے ایک حسین جملے میں ماہ مبارک کی اہمیت کی طرف متوجہ کیا ہے فرماتے ہیں : ” خداوند متعال نے اپنی مخلوق کے لئے ماہ مبارک کو ایک میدان قرار دیا ہے کہ اس کے بندے اپنی بندگی اور پیروی کے ذریعے اس کی رضاؤ خوشنودی حاصل کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت کی کوشش کریں ۔”
امام حسن علیہ السلام نہ صرف علم و زہد اور تقوے میں بلکہ بخشش و عطا میں بھی اپنے نانا کی مکمل شبیہ تھے اور غریبوں اور محتاجوں کی دستگیری میں آپ کی وسیع القلبی زباں زد خاص و عام تھی ایک دن محتاج و مفلوک غریبوں کی ایک جماعت کے درمیان پہنچ گئے وہ سب زمین پر بیٹھے نان و نمک کھانے میں مصروف تھے انہوں نے امام (ع) سے خواہش کی کہ آپ بھی ہمارے ساتھ کھانے میں شریک ہوجائیں ، آپ ان کے پاس بیٹھ گئے اور فرمایا : "خدا غرور و تکبر سے کام لینے والوں کو پسند نہیں کرتا ، اگر تم لوگوں کی یہ غذا صدقہ نہ ہوتی تو میں تمہاری دعوت کو ضرور قبول کرلیتا ” اور پھر ان سب کو ساتھ لے کر آئے گھر پر کھانا کھلایا اور لباس دے کر رخصت کیا ۔اسی طرح ایک اور موقع پر کچھ فقیروں کے درمیان سے گزرے وہ لوگ کھانے میں مشغول تھے انہوں نے دعوت دی تو آپ گھوڑے سے اتر کر ان کے ساتھ شریک ہوگئے اور ان سب کو گھر پر بلاکر کھلایا پلایا اور لباس پہنا کر رخصت کیا ، اس موقع پر ایک شخص نے آپ کی داد و دہش کی تعریف کی تو امام حسن (ع) نے فرمایا :
” انہوں نے زیادہ کرم سے کام لیا ہے ان کے پاس جو کچھ بھی تھا اس سے میری دعوت کی اور میں نےان کو جو کچھ دیا ہے اس کے علاوہ بھی میرے پاس موجود ہے ۔
٭٭٭٭٭
بنی امیہ کے دارالحکومت شام کے ماحول میں پرورش یافتہ ایک شامی جوان ، جہاں شب و روز اہلبیت دشمنی کی بنیاد پر امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کو حتی مسجدوں کے منبر سے کھلے عام برا بھلا کہا جاتا تھا ، جس وقت مدینۂ منورہ پہنچتا ہے ایک مقام پر نواسۂ رسول امام حسن علیہ السلام سے آمنا سامنا ہوجاتا ہے اور وہ بے قابو ہوکر اپنی عادت کے تحت کینہ ؤ دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے امام حسن (ع) کے سامنے حضرت علی (ع) کو برا بھلا کہنا شروع کردیتا ہے ایک جری و گستاخ شامی کے دہن سے اپنے خلاف ہر طرح کی دشنام اور باپ کے خلاف جسارت آمیز کلمات سننے کے بعد بھی امام حسن علیہ السلام بڑے ہی پر سکون انداز میں مرد شامی سے فرماتے ہیں:
” تمہاری باتوں سے لگتا ہے تم یہاں مسافر ہو ، اگر بھوکے ہو تو آؤ میں تم کو کھانا کھلوادوں اگر مقروض ہو تو قرض ادا کردوں اور اگر کوئي اور پریشانی ہو تو بتاؤ میں تمہاری ہر پریشانی دور کرنے کو تیار ہوں ۔”
امام حسن (ع) کے یہ الفاظ سن کر ، مرد شامی ، خاندان رسول (ص) کے کریمانہ اخلاق سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا اور شرم و ندامت سے سر جھکاکر کہنے لگا :
علی(ع) اور اولاد علی(ع) کے بارے میں جو کچھ ہم سے بیان کیا گیا تھا آپ کی ذات اس سے قطعی طور پر پاک و منزہ ہے آپ کی دشمنی نے مجھے اندھا کردیا تھا اور اسی دشمنی میں میں نے بہت کچھ کہدیا لیکن آپ کے اخلاق نے میرا دل جیت لیا اب آپ کی دوستی میرے قلب سے کوئی نہین نکال سکتا مجھے معاف کردیجئے میں اپنی جسارت پر شرمندہ ہوں امام (ع) نے آگے بڑھ کر مرد شامی کو گلے لگا لیا ۔
در اصل ، اسلام اہلبیت کے اسی اخلاق و کردار سے دنیا میں پھیلا ہے اسلام کے فروغ کے لئے ضروری ہے کہ مسلمان بھی امام حسن (ع) کے کردار کو اپنائیں اور دنیا کو دعوت عمل دیں ۔

متعلقہ مضامین

Back to top button