مقالہ جات

طُلوعِ مُقاومت شیخ الشّہداء الشَّہید شیخ رَاغِب حَرب

shiite_raghib

خطاب شیخ راغب: قتل و غارت گری اور گھروں کو تباہ کرنے سے وہ ہمیں شکست نہیں دے سکتے وہ کچھ بھی کہیں کہ انہوں نے عرب فوجوں کو شکست دے دی ہے یا فلسطین پر قبضہ کر لیا ہے اس کا یہ مطب نہیں کہ وہ اہل جنوب کو شکست دے سکتے ہیں۔ کمنٹری:جبشیت، جبل عامل کا ایک نسبتا چھوٹا ساحصہ ہے کہ جس کی صبح کی پو پھوٹتی ہے تو اپنی طرف کھینچتی ہے ،جس کہ صبح گنگناتی ہے تو باد نسیم صبح کی ازان کے ساتھ ایک نوید دے رہی ہورہی ہے یہاں زیتون کے درخت تلے ایک جوان ، کچھ الگ داستان رقم کرنے جا رہا ہوتا ہے اس کے اطراف کی مٹی بھی کچھ الگ سی خشبو رکھتی ہے ،تو اس کی نظریں دور افق پر آنے والے مستقبل کو تلاش کر رہی ہوتیں ہیں ۔ دنیا کے مشرق یعنی ایران زمین سے ایک آفتاب طلوع ہواجس کی تپش کو اہل لبنان نے بھی محسوس کی ،وہ ایک ایسا نور تھا کہ جس نے اپنے ملک کو منور کردیا، انقلابیوں کے دلوں میں تڑپ ایجاد کی اور اس انقلاب نے ظالموں کے شرفاء پرظلم کو قبول نہیں کیا،لبنان کے ایک شہر جبل عامل(جبشیت) نامی علاقے میں آباد ایک عالم دین یعنی شیخ راغب حرب شروع ہی سے نماز جمعہ کے منبر سے اس انقلاب کی حمایت میں اپنی آوز بلند کر تے ہوئے اسے حق کی فتح کہا اور منبر جمعہ سے اس انقلاب کے ساتھ تجدید عہد و بعیت کا اعلان کیا۔ شیخ راغب حرب:ہم اس منبر اور اس امام بارگاہ سے ایران کے بابرکت انقلاب کی مکمل حمایت کا اعلان کرتے ہیں اور اس انقلاب کے رہبر ،رہبر کبیر انقلاب اسلامی و مسلمین حضرت امام خمینی (قدس سرہ)کی بیعت کرتے ہیں۔ کمنٹری:1980کا حملہ قائدین اور مجاہدین میں فاصلہ پیدا ہونے کا نقطہ آغاز تھالوگوں پر خوف طاری تھا لوگ اپنے گھروں کے کونوں میں چھپے ہوئے تھے اور اسرائیلی ٹینکوں کے مقابلے میں کوئی آواز بلند کرنے کو تیار نہ تھااورنہ ہی کوئی دشمن کے مدمقابل ڈٹ جانے کے لئے آمادہ نظر آرہا تھا۔ شیخ راغب حرب تہران میں ایک فکری سمینار میں شرکت کے لئے گئے ہوئے تھے ان تک اسرائیلی حملوں کی خبریں مسلسل پہنچ رہی تھیںکہ انہوں نے ہر چیز تباہ کر دیا ہے ، ہر چیز پتھر سے لے کر انسانوں تک سب کچھ۔لہذا شیخ راغب نے یہ طے کر لیا تھا کہ انہوںنے جنوبی لبنان کے مقبوضہ علاقوں میں جانا ہے۔ رفیق شیخ(سید کا نام نہیں معلوم):میں شیخ راغب کے ساتھ تہران میں تھا اورپھر لبنان کی طرف جہاز میں ایک ساتھ لوٹ کر آئے۔اُن کو بس اس بات کی فکر تھی کہ کسی طرح جبشیت پہنچیںجبکہ انہیں اس بات کی کوئی فکر نہ تھی کہ وہاں پر اسرائیل اور صہیونیوں کا قبضہ ہو گیاہے اور نہ جانے وہاں پہنچانا ممکن بھی ہے یا نہیں ؟شیخ راغب حرب کے علاوہ کوئی بھی اور شخص آسانی سے لبنان اور جنوب لبنان کے سخت حالات کا بہانہ کر سکتا تھا کہ میں وہاں ان سخت حالات کی وجہ سے نہیں پہنچ سکتااور کسی دوسری جگہ پر ہی مستقر رہوں گا۔شیخ راغب اس دنیا کے انسان نہ تھے وہ اپنے ہدف کے سامنے کسی چیز کو رکاوٹ تصور نہیں کرتے تھے کہ جنوب تک پہنچنے میں کوئی چیز ان کےلئے روکاوت ہے بھی یا نہیں۔ میں نے اُن سے کہا کہ تھوڑی دیربقاع میں آرام کر لیں پھر چلے جایئے گا انہوں نے کہا نہیں مجھے جنوب جانا ہے، ایک رات ”دیر نہر نامی گاوں میں گزاری اور پھر صبح ہوتے ہی اپنے سفر کا آغاز کردیا۔ کمنٹری:تمام تر مشکلات کے باوجود شیخ جبشیت پہنچ گئے، لبنان پر قبضہ کے بعد حالات بہت سخت تھے،رات کوچند افراد کاایک ساتھ جمع ہونا ممنوع تھااسرائیلی فوجی سڑکوں پر گشت کرتے تھے،ہر طرف دہشت اور خوف کی فضاتھی لیکن شیخ ان حالات سے زرا بھی نہیں گھبرائے اور ان کے مقابلے کا فیصلہ کیا۔ شیخ راغب حرب:ہمارا قتل ہمارے لئے ایک نئی زندگی کی نوید ہے ،جنہوں نے ہمارے بچوں کا قتل عام کیا ہے وہ جان لیں ہر ایک معصوم بچے کے خون سے ایک اور مجاہد جنم لیگا ،ہم اپنے زخموں سے دنیا کے محرومین کا مرہم بنیں گے اوراسلام کے پیغام سے دنیاکو امن و سکون کی ضمانت دیں گے۔ کمنٹری:شیخ راغب نے جس نماز جمعہ کی ابتداء تھی اس کو شیخ نے بند نہیں ہونے دیااور یہ وہ پہلا مورچہ تھا جس کے ذریعے شیخ راغب نوجوانوں کو اسرائیلی غاصبانہ قبضے کے خلاف قیام کی دعوت دیتے تھے تورات کے وقت گھر گھر کو انہوں نے مقاومت ، اور بیداری کے دروس کے مراکز بنائے تھے ، لوگ مختلف مقامات پر شیخ راغب کے خطابات اور حالات کے تجزیہ و تحلیل کے لئے ملتے تھے شیخ راغب حرب ان کے دلوں اور ذہنوں میں رچ بس گئے تھے اور اُن کی زندگیوں میں آپ ہی کا رنگ نظر آتا تھا ،ان کو شیخ راغب کی زبان سے اسلام ناب کے مطالب سننے کو ملتے تھے یہی وجہ تھی کہ ہر جگہ پر لوگوں نے شیخ راغب کا والہانہ استقبال کیا اور ان سے دروس کی شکل میں مقاومت کا علم حاصل کیا۔ سید حسن نصراﷲ:شیخ کی ذاتی معروف خصوصیات اور امتیازات میں سے آپ کا تواضع تھا ،آپ کالوگوں سے ملنا، فقیروں کی مدد کرنا،آپ کا جاذب لہجہ،غلطیوں پر عفو ودرگزر،یہ سب چیزیں اُن کی لطیف روحانی شخصیت کی طرف اشارہ کرتیں تھیں۔ کمنٹری:شیخ راغب حرب نے غاصب فوجوں اور سعد حداد نامی خیانت کارکے ایجنٹوں کے ساتھ پہلا مقابلہ حجارہ نامی قصبے میں اسرائیلی گشتی دستوں کے ساتھ کیا،لیکن یہ لڑائی دو بدو اور ہتھیاروں کے بغیر لڑی جارہی تھی جس میں شیخ کے ساتھ پورا گاؤں شریک تھا، جس کے بعد شیخ راغب نے امام بارگاہ میں ایک جمع غفیر سے خطاب فرمایا اور غاصبوں کے مقابلے میں ڈٹ جانے کےلئے لوگوں میں ہمت پیدا کی۔ شیخ راغب حرب:جب غاصب دشمن اسرائیل ہمارے ملک میں داخل ہوا ہے خداوندمتعال نے ہمیں کامیاب کیا ہے سب سے اہم نعمتوں میں سے یہ ہے کہ خدا نے ہمیں ان کے سامنے کامیاب کیا ہے ہم صراط مستقیم کو دیکھتے ہوئے اور اسی کو بنیاد بناتے ہوئے ایک متحد معاشرے کے طور پر دشمن کے مقابلے کے لئے تیار ہیں جس کی وجہ سے دشمن ڈر گیا ہے اور خدا نے ہمیں عزت دی ہے۔ کمنٹری:شیخ راغب کی راہنمائی اور بتائے ہوئے اقدامات غاصب دشمن کے لئے ایک کاری ضرب ثابت ہوئے اور شیخ راغب ان مجاہدین کے ساتھ بھی شامل ہوگئے جنہوں نے مختلف مقامات پر دشمن پر حملہ کرنا شروع کر دیا تھاجبکہ غاصب دشمن اپنے دہشت گردی کے منصوبوں میں کامیاب نہیں ہوپارہا تھا خصوصاً آس پاس کے دیہاتوں پر حملہ کرنے میں ،تاکہ جنوب لبنان کے حالات خراب ہوں۔ شیخ راغب حرب کے اصرار اور ”خلفا”گاؤں کے لوگوںکے اجتماع کی وجہ سے غاصب دشمن کو ایک ایسی عوامی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑاجو شیخ کی کوششوں کا نتیجہ تھی اس کے بارے میں شیخ اپنی یاداشت میں لکھتے ہیں”ایک دن شام کے وقت شیخ علی ضیاء میرے پاس آئے اورہم گھر کی گیلری میں بیٹھ کر چائے پینے لگے اس دوران دو اسرائیلی گاڑیاں نمودار ہوئیں جو میرے گھر کی طرف بڑھ رہی تھیں وہ گھر کے قریب رکیں اور ان میں سے کچھ افراد اترے اور تین افراد ہماری طرف بڑھے وہ اسرائیلی انٹیلی جنس کے افراد لگ رہے تھے میں نے ان کے سامنے جاکر کہا کہ کیا چاہتے ہو؟ان میں سے ایک نے سلام کیا لیکن میں نے جواب نہیں دیااس نے مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھایالیکن میں نے مصافحہ نہیں کیا،میں نے ان کی مذمت کرتے ہوئے ان سے سوال کیاتم لوگ میرے گھر میں بغیر اجازت کیسے داخل ہوئے ہواور ہمارے درمیان گرماگرمی ہوگئی وہ مجھ سے مذاکرات کرنا چاہتے تھے لیکن میں نے انکار کر دیا،جب اُس نے وجہ پوچھی تو میں نے کہا کہ تم غاصب ہو۔ کمنٹری:اس طرح شیخ راغب کا یہ مقولہ مشہور ہوا ”الموقف سلاح و المصافحۃ اعتراف” ہمار موقف اسلحہ کی زبان ہے مصافحہ کا مطلب ناجائز وجود کا اعتراف ہے یعنی صہیونیوں سے اسلحہ کی زبان میں بات ہوگی اور ان سے مصافحہ کا مطلب ان کے وجود کو تسلیم کرنا ہے۔ وہ دشمن کی انٹیلی جنس کے اہداف سے واقف تھے اور ان سے کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتے تھے اور ان لوگوں کوبھی اُنہی الفاظ کے ساتھ رد کیاکرتے تھے جو ان حالات میں غاصبوں کے ایجنٹ بنے ہوئے تھے شیخ راغب:اگر دشمن ہمیں شہروں میں جینے نہ دے تو پہاڑوں پر چڑھ جائیں گے تاکہ ان سے جنگ کر سکیں لیکن کبھی بھی شکست تسلیم نہیں کریں گے۔ کمنٹری:دشمن نے اہل جبشیت سے سختی سے نمٹنے کا فیصلہ کیا لیکن حقیقت میں یہ سختی جنوب کے اکثر ہی علاقوں میں پائی جاتی تھی جوغاصبوں کے خلاف تھے،ان دیہاتوں میں صبح ،شام، دن اور رات لوگوں کو تنگ کرنے کی پالیسی پر عمل شروع کیا گیاان دیہاتوں کے اکثر لوگ اسی طرح کے حملوں کا شکار تھے اور دشمن نے اکثر نوجوانوں کو انصار نامی جیل میں ڈال دیا تھا۔ شیخ راغب حرب کا گھر بھی ان غاصبوں سے محفوظ نہیں تھااور یہ ہر روز شیخ راغب کے گھر پر حملہ کرتے تھے لیکن وہ شیخ کو گرفتار نہ کرسکے کیونکہ وہ اکثر ”عبا”اور اس کے قریبی دیہات کے مختلف لوگوں کے گھروں میں رات بسر کرتے تھے اسرائیلی ادارے شیخ راغب کو گرفتار نہ کرپانے کی مختلف توجیہات پیش کیا کرتے تھے۔ شیخ راغب:ہماری یہ حالت طبیعی نہیں ہے بلکہ یہ اس مشکل زندگی کے تابع ہے یہ ہماری کمزوریوں کے سبب ہے کہ ہمارے خوابوں تک کو چورا کر لے جایا جارہا ہے اے لوگو!دنیا میں بعض لوگ بچے چوری کرتے ہیں بعض روٹی چوری کرتے ہیں اور بعض خون بہاتے ہیں لیکن ہمارے خواب تک چوری کر لئے گئے ہیں بعض دفعہ جو اچھا کھانا چاہتا ہے اس کو روکا جاتا ہے یا جو اچھا پہننا چاہتا ہے اس کومنع کیا جاتا ہے لیکن ہمارے اچھے خواب دیکھنا بھی ممنوع کر دیئے گئے ہیں ہمیں اُس خواب کو دیکھنے سے منع کردیا گیا ہے کہ کلمہ ”لا الہ الااﷲ”زمین پر چھاجائے اور ہمارے لئے ممنوع ہے کہ ہم زمیں پر لوگوں کے درمیان عدل و انصاف کے جاری ہونے کے بارے میں سوچیں۔ کمنٹری:جمعہ کی رات 16رچ 1983کو شیخ راغب نے مسجد میںنماز پڑھی اور دعائے کمیل جس سے وہ عشق رکھتے تھے کی تلاوت کی اور قریب ہی اس گھر کی طرف جانے لگے جس میں رات بسر کرنا تھی لیکن غاصبوں کی انٹیلی جنس کو مانیٹر کر رہی تھی اور آدھی رات کو دو بجے کے بعد ایک بڑی فورس کے ساتھ اُس گھر پر چھاپہ مارااور شیخ راغب کواغواکر لیا۔ لوگوں کو اس واقع کی خبر ملی کہ دشمن نے شیخ راغب کو گرفتار کر لیا ہے جب یہ خبر پھیلی تو علاقے کے لوگوں کو ایک جگہ پر جمع ہونے کےلئے کہا گیاشہر کہ امام بارگاہ میں جمع ہوکر احتجاج کا فیصلہ کیاگیااور ان کے ساتھ شیخ عبدالکریم عبید بھی مل ہوگئے،تھوڑا ہی وقت گزرا تھا کہ امام بارگاہ ایک عظیم اجتماع سے بھر چکاتھااور تکبیر کی آوازیں بلند ہورہی تھیں۔ غاصبوں کے خلاف ،شیخ راغب کی رہائی کے نعرے بلند ہونے لگے نیز انصار جیل کے قیدیوںکی رہائی کا مطالبہ بھی ہونے لگا۔ دشمن کو غیر متوقع ردعمل کا سامنا کرنا پڑاجنوب کے مختلف دیہاتوں کی طرف سے احتجاجی اجتماع بڑھنے لگے اور مظاہرے طویل ہونے لگے اور تمام علاقوں میں احتجاج ہونے لگادشمن حالات پر قابو کواپنے ہاتھ سے جاتے ہوئے دیکھ رہا تھااور وہ ان لوگوں کو گرفتار کرنے لگا جو یہ مظاہرے منظم کرتے تھے۔لیکن صورتحال اس سے سنگین تر ہوگئی تھی اور لوگ بھوک ہڑتال اور شٹرڈاؤن ہڑتال کرنے لگے تھے نیز لوکل میڈیا اور عالمی میڈیا شیخ راغب کی گرفتاری اور اس پر احتجاج کی خبریں نشر کرنے لگا تھا۔شیخ راغب کی گرفتاری کو سترہ دن گزر گئے اور تحریک جاری تھی ۔غاصب دشمن عوامی دباؤ کے سامنے نہ ٹھہر سکا اور اسے شیخ راغب کو رہا کرنا پڑا۔ شیخ راغب حرب:مجھ سے پوچھا گیا کہ اگر ہم فلسطین کے باقی ماندہ حصے پر قبضہ کر لیں تو کیا ممکنہ ردعمل ہوگا؟ اور لبنان کے علماء کا فلسطینی مسائل میں کس قسم کا رول ہے ؟میں کہا کہ بظا ہر تو فلسطین اور لبنان دو الگ جگہ ہے میں نے کہا کہ تم لوگ غاصب ہو اور اس کی سب سے بڑی پہچان یہ ہے کہ تم لوگوں کے گھروں کو تباہ کر رہو انہیں ازیتیں دے رہے ہو میں نے کہا کہ تم لوگ غاصب ہو اور بس اس کے بعد میں ان کے کسی سوال کا جواب نہیں دیا ۔ سید حسن نصراﷲ:جو شہید راغب حرب کو جانتا ہے ممکن ہے کہ اس پر شہید کے اندر پائی جانے والی اعلیٰ انسانی خصوصیات اور امتیازات منکشف ہوں،خصوصاً روحانی،اخلاقی،اور معنوی خصوصیات۔اور اسرائیل کے لبنان پر قبضے کے بعد ان کی قائدانہ خصوصیات ظاہر ہوتی ہیں جب اسرائیل نے لبنان پر قبضہ کیا تو لوگوں کے موقف میں کمزوری اور معنویات کا ضعف موجود تھااس وقت ہم نے شیخ راغب حرب کو واضح و محکم موقف کے ساتھ پایاایک ایسا شخص جس کو یقین تھا،اُس پر جو وہ کہتا تھا اور اس پر جو وہ کرتا تھااُن میں ایسی شجاعت موجود تھی کہ اپنے واضح موقف کو بیان کرسکیںاور وہ اس مقاومت کے راستے پر چلنے کا محکم ارادہ رکھتے تھے اس مختصر سے عرصے میں جو ہم نے لبنان پر اسرائیل کے غاصبانہ قبضے اور شیخ راغب کی شہادت کے درمیان اُن کے ساتھ گزارا، ہم نے اس مدت میں آپ کے اندرقیادت کا انداز،قائدانہ ارادہ اورشجاعت کو دیکھا۔ کمنٹری:جس وقت مجاہدین شہادت طلبانہ عملیات کے ذریعے دشمن پر آگ برسا رہے تھے شہید احمد قصیر ، شہید بلال فحص اور ابو زینب لےکر شیخ راغب حرب مشتمل افراد کا مجموعہ مقاومت کی علامت بن گئے تھا۔ مقاومت کی آگ مزید تیز ہونے لگی تھی بلوسی شہر میں شیخ عباس حرب شہید ہوئے توشیخ راغب حرب بغیرکسی تذبذب کے اس شہر میں پہنچے جس کو ہر طرف سے صہیونیوں نے گھیر رکھاتھا،شہر کے لوگوں نے شیخ راغب کے ساتھ احتجاج میں شرکت کی تاکہ استقامت اور سربلند ی کا چہرہ دیکھا سکیںاور مقاومت کایہ راستہ بہت طولانی تھااور ابھی تو اس راستے کی ابتداہوئی تھی شیخ راغب حرب:ہمیں چاہیے کہ دشمن کی اسٹراٹیجی کو سمجھیں اور پھر اسی کو ان پر استعمال کریں دشمنن کے ساتھ کسی بھی قسم کا رابطہ خواہ زبانی کلامی ہو یا پھر ان کے ہاتھوں استعمال ہوکر گناؤنے     جرائم کا ارتکاب کسی بھی حالت میں ناقابل قبول ہے کمنٹری:١٦ فروری 1984 جمعہ کی رات شیخ راغب حرب کی زندگی کی غیر معمولی رات تھی شیخ راغب نے اپنے امور کوانجام دیااوراس رات شیخ راغب نے آخری مرتبہ دعائے کمیل میں گڑگڑ اکر اور اپنے آنسوؤں کے ساتھ رب ذوالجلال کے سامنے کتاب کے صفحات الٹتے رہے،اپنی عادت کے مطابق گاؤںکے لوگوں اور ساتھیوں کے ساتھ نشست برقرار کی۔ دشمن جو شیخ راغب سے مایوس ہوچکا تھا اس نے شیخ راغب کا کام تمام کرنے کا فیصلہ کیا۔ اور جب شیخ راغب گاؤں کے برادران میں سے کسی ایک کے گھر سے باہر آنے لگے توان پر گولی چلائی گئی جو ان کے سینہ مبارک میں لگی اور آپ کی روح پرواز کر گئی۔ شیخ راغب حرب: انسان کی فعالیت اس کی موت یا زندگی کی دلیل ہے اس طرح ہم جان سکتے ہیں کہ شہید کیسے زندہ ہوتاہے۔اور یہ سنت الٰہی ہے کہ جب کسی شہید کا خون زمین پر گرتا ہے تو جم جاتاہے اور پھر زمین پر پھیل جاتا ہے ۔یہاںپر ایک تعبیر ہے جو دقیق ترین تعبیر ہے جو امام حسین – جو ان کے ساتھیوں کے وصف میں بیان کی جاتی ہے۔ایک مؤرخ کہتا ہے کہ امام حسین – کربلا میں عاشور کو شہید ہوگئے لیکن ان کا خون ہر پتھر کے نیچے تھاشہید کا خون جب گرتا ہے تو نشوونما پاتا ہے ہم دیکھتے ہیں کہ وہ زندہ ہوتا ہے۔ کمنٹری: حبشیت اور لبنان ہی نہیں بلکہ لبنان کا ہر باشرف انسان شہید کو الوداع کرنے کے لئے آیا۔ ہزاروں لوگوں نے ان کے جنازے میں شرکت کی اور شہید کے راستے پر چلنے اورشہید کے راستے کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔ شیخ راغب کی شہادت کے ساتھ ہی جپشیت میں مقاومت مزید تیز ہوگئی اور تمام محاذوں پر مقاومت شروع ہوگئی اوراسی دوران حدیدہ پر قبضہ ہوگیا قید کی زنجریں ٹوٹنے لگیں اور مقاومت کا پودا نشوونما پانے لگا۔ شہید عباس موسوی:بنیادی وصیت،مقاومت جس کو ہمیشہ آپ کی حمایت رہی اور آپ نے ہر قوت کو شکست دی اور آپ نے اپنے سچے موقف کے ساتھ مقاومت کے ساتھ وفا کی ،ہماری وصیت ہے کہ قیام کرواور ہم نے آپ کے ساتھ قیام کیاہر معرکہ میں خصوصاً اسرائیل کے ساتھ ہر معرکہ میں ۔جب بھی مقاومت پر کوئی برا وقت آیا اﷲ کے اذن سے فتح ہمارے ساتھ ہوگی۔ سید حسن نصراﷲ:یہ مقاومت اپنے شہیدوں کے خون اور مجاہدین کے پسینے سے اس وصیت کی حفاظت کرے گی ،شہداء کے خانوادوں،اسراء اور اپنے زخمیوں کے ذریعے ہر وہ کوشش کرے گی جس سے ان اہداف کو حاصل کر سکے جو شہیدشیخ راغب اور شہید عباس موسوی کے تھے اور بہت جلد وہ تمام خوبصورت اور عظیم خواب سچے ہوں جو عزت و کرامت کے میدان میں اس امت کے لئے انہوں نے دیکھے تھے،اپنی زمین کو واپس لینے اور مقدسات کی حفاظت کے لئے جیسا کہ گزشتہ سالوں میں کرتے رہے ہیں۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

متعلقہ مضامین

Back to top button