مقالہ جات

یمنی شیعہ مجاہدین کے عقائد


houthijpg

گذشتہ پانچ برسوں میں یمنی صدام کی طرف سے چھ جنگیں شیعیان حوثی پر مسلط کی گئی ہیں اور چھٹی جنگ گذشتہ اگست سے شروع ہوئی ہے۔ سعودی عرب نے اعلانیہ جارحیت کرکے اس جنگ میں یمنی        صدام کی حمایت کی ہے اور عرب سربراہوں نے بھی اس کی حمایت کا اعلان کیا ہے غیر جانبدار دنیا میں البتہ یمن کی صحیح اطلاع رسانی کا فقدان ہے اور ابھی تک کہیں بھی کوئی صدا سننے میں نہیں آئی ہے البتہ ایران اور ترکی کے عوام نے مظاہرے کئے اور ایرانی طلباء تین دن تک دھرنا دیا مگر شعیان یمن کا حق اس سے کہیں زیادہ ہے جو ادا نہیں ہورہا اور یہی وہ مظلومیت ہے جو تاریخ میں شیعیان علی علیہ السلام کا مقدر ہے اور انصاف پسند دنیا کی خاموشی اس مظلومیت میں مزید اضافے کا  باعث بن رہی ہے۔  یمن میں سادات بنی فاطمہ (ع) کا قتل عام ہورہا ہے؛ ان کا جرم یہ ہے کہ وہ استکبار اور استعمار کے سنجیدہ دشمن ہیں گویا وہ اپنے عقائد کی قیمت ادا کررہے ہیں۔ عالمی استکبار اور اس کے بے قدر و قیمت چیلے ـ جو اسرائیل، امریکہ اور یورپ کے بیک وقت غلام ہیں ـ متحد ہوکر ان کے خلاف غیر منصانہ جنگ لڑرہے ہیں۔ میں یہ سطور لکھ رہا ہوں تا کہ خاموشی کے تالے ٹوٹ جائیں اور اگر کسی کو ان کے عقائد کے بارے میں شک وشبہات ہوں تو ان کو رفع کیا جاسکے۔ زیدی ایک گالی نہیں ہے، ہم مسلمانوں کے اتحاد کے حامی ہیں اور جو بھی قبلہ رخ ہوکر نماز پڑھے وہ مسلمان ہے اور ہمیں استکبار کے مقابلے میں اس کی حمایت کرنی ہے اور زیدی بھی کم از کم اس حد تک تو تمام مسلمانوں کی مدد و حمایت کے مستحق ہیں اور پھر زیدیہ ایک شیعہ مکتب ہے جو اصول اور فروع دین میں دیگر مسلمانوں کی مانند ہیں؛ نماز ادا کرتے ہیں، روزہ رکھتے ہیں، حج و زکاة و خمس سمیت تمام دینی احکام کی تعمیل کرتے ہیں اور کلمہ توحید و رسالت پڑھتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ وہ مجاہد بھی ہیں اور ان کا مکتب خمینی کبیر کا مکتب ہے جس میں استعمار کی حکمرانی کی کلی طور پر نفی ہوئی ہے۔ زیدی امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے پیروکار ہیں۔ آپ بھی کہیں گے کہ بے سند قلم فرسائی سے حقائق کی حقانیت ثابت نہیں ہوتی چنانچہ ہم نے یہ مضمون لکھنے سے قبل یمن کے مسائل کے تین ماہرین سے انٹرویوز لئے اور ان انٹرویوز سے حاصل ہونی والی اطلاعات کو مضمون کی شکل دے دی۔ یہ حضرات یمن کی سماجی اور سیاسی حالات      پر نظر رکھتے ہیں ٭ جناب حجت الاسلام غریب رضا ٭ جناب سید علی موسوی نژاد ٭ جناب محمود پیر بداغی یمن جزیرہ نمائے عرب کے انتہائی جنوب میں واقع ایک سبز و خرم خطہ ہے؛ یہاں کی آبادی کے 40 فیصد زیدی 5 فیصد جعفری اثنا عشری اور اسماعیلی، 54 فیصد شافعی، حنبلی اور مالکی ہیں اور ان مین بعض  سلفی فکر کے پیروکار بھی پائے جاتے ہیں اور ایک فیصد آبادی غیر مسلموں کی ہے جن مین اکثریت ہندؤوں کی ہے۔شیعیان یمن کی مانند اہل سنت کے پیروکار بھی اہل بیت اطہار (ع) سے گہری محبت و عقیدت رکھتے ہیں۔ ان سب کے مذہبی مراسمات اثناعشری اہل تشیع کے اعمال و مراسمات سے مشابہت رکھتے ہیں۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ جس طرح کہ وہابیت نے دیگر ممالک میں مسلمانوں کے بھائی چارے کا ماحول تباہ و برباد کیا ہے؛ یمن میں بھی آمر کی حمایت سے وہابیت کافی اثر و رسوخ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے اور وہ مذاہب کے اشتراکات کو وہابی عقائد کے زیر اثر لارہی ہے۔ لیکن لیکن وہابی اثر و رسوخ کے باوجود یمن کے تمام مسلمان اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ انھوں نے امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے ہاتھوں اسلام قبول کیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے تبلیغ اسلام کے لئے علی علیہ السلام اور دیگر صحابیوں کو یمن روانہ کیا تھا۔ اس سے بھی زیادہ دلچسپ امر یہ ہے کہ یمن کے دو کروڑ آبادی میں پچاس لاکھ آبادی سادات کی ہے۔ سادات میں 90 فیصد حسینی سادات اور 10 فیصد حسنی سادات ہیں۔ زیدیوں کے دو اہم گروہ "جارودیہ” اور غیرجارودیہ ہیں۔ جارودی زیدی قیام و انقلاب کا عقیدہ رکھتے ہیں اور عقائد و اعمال کے لحاظ سے اہل تشیع سے قریب تر ہیں۔ یہ لوگ اہل بیت (ع) سے شدید تعلق و محبت رکھتے ہیں اور یمن کے مسائل میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ غیر جارودی زیدی ـ جو اہل حدیث ہیں ـ متشیع سمجھے جاتے ہیں یعنی یہ کہ یہ لوگ زیدی ہیں اور تشیع کو قبول کرتے ہیں اور اسی لحاظ سے حنفی سنیوں کے امام ابوحنیفہ بھی متشیع اور زیدی سمجھے جاتے ہیں کیونکہ وہ بھی زید بن علی (ع) کے قیام کے ہمراہ تھے گو کہ ان کے عقائد شیعہ عقائد سے مختلف تھے۔ یہ لوگ تاریخ کے تمام مراحل میں تھے اور ہیں مگر زیدیوں میں ان کی تعداد بہت کم ہے اور وہ اقلیت سمجھے جاتے ہیں اور صرف تاریخ کے بعض مراحل میں ان کا وجود مؤثر رہا ہے جبکہ باقی قرون و اعصار میں ان کے حوالے سے کوئی خبر منظر عام پر نہیں آئی ہے۔ آج بھی ان ہی لوگوں پر وہابیت کے گہرے نقوش ہیں اور یہ لوگ حکومت اور سعودی عرب کے وہابیوں کے ساتھ مل کر اہل تشیع کے جارودی زیدی مکتب کے خلاف سازشوں میں ملوث ہیں گو کہ اب بھی زیدی کہلاتے ہیں. جارودی رسول اللہ (ص) کے بعد علی علیہ السلام کی بلافصل جانشینی پر ایمان رکھتے ہیں؛ وہ امامت کے لئے چودہ شرائط کے قائل ہیں اور یہ شرائط اثنی عشری مکتب کے ہاں ولی فقیہ کی شرائط سے ملتی جلتی ہیں صرف ایک شرط مختلف ہے اور وہ یہ ہے امام کو "اولاد زہراء سلام اللہ علیہا” سے ہونا چاہئے۔ وہ صرف پنجتن آل عبا علیہم السلام کے لئے عصمت کے قائل ہیں۔ ان کے حوزات علمیہ میں امام باقر اور امام صادق علیہما السلام کی روایات و احادیث سے بکثرت استفادہ کیا جاتا ہے۔ وہان قرآن، نہج البلاغہ اور صحیفہ سجادیہ سمیت امام خمینی کی تصنیف "چہل حدیث” بھی پڑھائی جاتی ہے۔ وہ عید غدیر اور عاشورا کو پرشکوہ انداز میں مناتے ہیں۔ یمنی عوام ـ خاص طور پر شیعیان زیدی ـ آخرالزمان کے نجات دہندہ حضرت مہدی (عج) پر راسخ عقیدہ رکھتے ہیں اور شیخ علی الکورانی کی کتاب "عصر ظہور” گذشتہ پانچ برسوں میں مقبول ترین کتاب تھی جو یمن کے ثقافتی شعبے پر حاوی رہی ہے۔ اس وقت فارسی میں زیدی عقائد کے بارے میں معتبر ترین منبع و مأخذ "درسنامۂ تاریخ و عقائد زیدیہ” ہے جو مہدی فرمانیان اور سید علی موسوی نژاد نے تالیف کی ہے اور ادیان پبلیکیشنز سے شائع ہوئی ہے۔ زیدیہ کے معاصر علماء میں علامہ مجدالدین المؤیدی کا نام لیا جاسکتا ہے جن کی عمر 100 سال سے زاید ہے اور اور بقید حیات ہیں۔ وہ جارودی زیدیوں کے موجودہ رہنما ہیں؛ صعدہ میں رہائش پذیر ہیں اور متعدد کتابوں کے مؤلف ہیں۔ صعدہ جارودی زیدیوں کا مرکز ہے۔ اس علاقے میں رہنے والے ایک عالم دین سید بدرالدین طباطبائی الحوثی ہیں جو نامور علماء میں سے ہیں اور متعدد کتابوں کے مؤلف ہیں۔ حوثی جہادی تفکر کے سابق راہنما سید حسین الحوثی الطباطبائی ان ہی کے فرزند تھے اور اس تفکر کے موجودہ راہنما سید عبدالملک بدرالدین الطباطبائی الحوثی بھی ان ہی کے فرزند ہیں۔ علامہ بدرالدین پورے یمن میں نامی گرامی ہیں۔ انھوں نے اپنے فرزند کی شہادت کے بعد چوتھی جنگ میں اہل تشیع کی قیادت کی تھی۔ ان کی دوکتابیں بہت مشہور ہیں: 1ـ من ھم الرافضۃ؟ (یعنی رافضی کون ہیں؟) انھوں نے اس کتاب میں ثابت کیا ہے کہ شیعیان امامیہ اور امام صادق علیہ السلام کے پیروکار رافضی نہیں ہیں بلکہ رافضی دراصل بنو امیہ اور دشمنان اہل بیت (ع) ہیں۔ 2۔ "آل محمد لیس کالامة” علامہ نے اس کتاب میں آل محمد (ص) اور سادات کو ممتاز و برتر قرار دیا ہے۔ 90 کی دہائی میں یمن خانہ جنگیوں کا شکار ہوا تو وہ اپنے شہید فرزند سید حسین کے ہمراہ ہجرت کرکے ایران آئے اور ان کی زندگی بہت سادہ اور زاہدانہ تھی۔ 12 سال تک شمالی یمن پر حکومت کرنے والا جنرل علی عبداللہ صالح 19 سال سے متحدہ یمن کا صدر ہے۔ اس نے اب تک مجموعی طور پر 31 سال حکومت کی ہے اور زیدی خاندان میں پیدا ہونے کے باوجود وہ بظاہر سیکولر ہے اور وہ بنیادی طور پر اسلام دشمن ہے اور چونکہ یمن میں مزاحم قوت اہل تشیع پر مشتمل ہے چنانچہ وہ تشیع کی دشمنی میں کسی بھی قوت کے ہاتھ میں ہاتھ دے سکتا ہے۔ جنرل صالح بغداد کے ملٹری کالج کا فارغ التحصیل ہے چنانچہ عراق کے بعثی عناصر خاص طور پر معدوم آمر صدام کے ساتھ اس کے خصوصی تعلقات تھے۔ اور وہ خود یمن میں صدام صغیر کے نام سے مشہور ہے۔ نام نہاد خادمین حرمین شریفین کو "دیگر اعزازات” کے علاوہ یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ بے دین اور سیکولر یمنی بعثی ڈکٹیٹر 31 سال قبل ان ہی کی حمایت سے یمن کے اقتدار پر قابض ہوا تھا اور اس طویل مدت میں اسے مسلسل سعودی حمایت حاصل رہی ہے اور اس حمایت کے بدلے اس نے زیدیوں کو تمام کلیدی مناصب سے محروم کرکے یمن میں وہابیت کی ترویج کا راستہ ہموار کیا ہوا ہے اور اس ملک میں تکفیری وہابیوں کو تبلیغ و ترویج عقائد کے سلسلے میں مکمل آزادی حاصل ہے۔ یوں یمنی آمر نے یمن کو وہابیت اور سلفیت کی خلوتگاہ میں تبدیل کردیا ہے۔ زیدیوں کے مدارس اور جامعات بھی وہابیت کے فروغ کے بعد متأثر ہوئی ہیں اور ان کی سرگرمیوں کو صالح آمریت نے محدود کر رکھا ہے۔ صالح آمریت اور وہابیت کے نفوذ کی وجہ سے زیدی ائمہ کو بھی بھلادیا گیا ہے اور ان کی کاوشوں کی اشاعت یا تو منع ہے یا پھر بہت محدود ہے جبکہ وہابیت کی کتب پورے یمن میں بلا روک ٹوک تقسیم کی جاتی ہیں۔ صعدہ جارودیہ زیدیوں کا مرکز ہونے کے ساتھ ساتھ فوجی اور سیاسی لحاظ سے بھی نہایت اہم صوبہ ہے مگر اس صوبے کو کلی طور پر الگ تھلگ کیا گیا؛ یہ مذہبی امتیازی سلوک شدید مذہبی اور سیاسی خلا کا موجب بن گیا۔ فطری امر ہے کہ جب مذہبی اور سیاسی خلاء رونما ہوجاتا ہے تو یہ معاشرے میں گہری تبدیلیوں کا پیش خیمہ بنتا ہے ایک ایسی تبدیلی جو یمن کی معاصر تاریخ کا چہرہ تبدیل کرلے۔ اسی صورت حال میں "شباب المؤمن” نامی تنظیم تشکیل پائی جس کی قیادت علامہ سید بدرالدین الحوثی کے ہاتھ میں تھی اور ان کے فرزند اور بعض دوست اور مریدین اور شاگرد اس تنظیم میں شامل ہوئے۔ شباب مؤمن نے تشکیل ہوتے ہیں صعدہ میں تعلیمی سرگرمیوں کا آغاز کیا اور پھر اس کی یہ سرگرمیاں پورے یمن تک پھیل گئیں۔ تھوڑا عرصہ بعد علامہ کے بیٹے سید حسین بدرالدین نے شباب المؤمن کی قیادت سنبھالی۔ شہید حسین بدرالدین نہابت با نفوذ اور اثر و رسوخ کے مالک عالم دین تھے۔ قرآنی تعلیمات ان کے افکار پر حاوی تھیں اور جب کہیں تقریر کے لئے اٹھتے تو ان کا پورا خطاب قرآنی مفاہیم کا مجموعہ ہوتا۔ شعلہ بیان مقرر تھے اور نہایت جاذب قلب و احساس اور انقلابی تقاریر کے لئے مشہور تھے۔ ان کی تقریریں علمی اور افکار کو منور کردینے والی تھیں اور وہ اپنی مصلحانہ کوششوں کے ذریعے زیدیوں کے رخوت زدہ معاشرے کو قرآنی تعلیمات و مفاہیم کی طرف لوٹا کر زندہ کرنے کی کوشش کررہے تھے۔ انھوں نے بچوں اور نوجوانوں پر کام کیا اور ان میں بیداری کی روح پھونک دی اور ان کی اصلاحی تحریک ذیل کے اصولوں پر استوار تھی 1. سب کو شیعہ بن کر دکھانا اور اپنی انفرادی اور سماجی حیات میں تشیع کے اصولوں کی ہمہ جہت پیروی کرنا۔ 2. موجودہ صورت حال کو نقادانہ نگاہ سے دیکھنا 3. استکبار اور امریکہ و اسرائیل کے خلاف جدوجہد کے سلسلے میں امام خمینی (رح) کے افکار اور انقلاب اسلامی کے اصولوں اور تعلیمات کی ترویج و تبلیغ کرنا وہ نوجوانوں کے اجتماعات میں امام خمینی کا ذکر کیا کرتے تھے اور ہم جانتے ہیں کہ امام خمینی انقلاب اسلامی کی قیادت کے ساتھ ساتھ فقہ شیعہ امامیہ کے بلند پایہ مرجع تقلید بھی ہیں۔ زیدی حلقوں میں آج بھی امام خمینی کی تعلیمات کی ترویج کی جاتی ہے اور ان کی کتابیں پڑھائی جاتی ہیں۔ لبنان کے شیعہ عالم دین اور حزب اللہ کے قائد سید حسن نصراللہ کی تصویریں اور حزب اللہ کے پرچم پورے یمن میں قابل مشاہدہ ہیں اور دیگر عرب ممالک سمیت یمن میں بھی تشیع کے فروغ کی نئی لہر میں سید حسن نصراللہ کا کردار ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ یمن کے زیدی شیعہ ان کے بھی اور دیگر شیعہ علماء اور فقہاء کے بھی عقیدنمند ہیں۔ 2003 میں سید حسین الحوثی نے یمن میں امریکی نفوذ پر احتجاج کیا البتہ انھوں نے یمن میں القاعدہ کی سرگرمیوں پر بھی اعتراض کیا۔ 2003 میں امریکی فوجیوں سمیت امریکی جاسوسوں کی یمن میں آمد کے بعد سید حسین الحوثی نے حکومت سے احتجاج کیا اور کہا کہ امریکیوں کی آمد سے یمن کا اقتدار اعلی مجروح ہوا ہے۔ عالمی استکبار و استعمار کی مخالفت کا پہلو حوثیوں کی تحریک میں بہت زیادہ اہم ہے۔ وہ صہیونیت کے شدید مخالف ہیں۔ سید حسین کا عقیدہ تھا کہ جس نماز کے بعد مردہ باد اسرائیل کا نعرہ نہ لگایا جائے اور صہیونیت سے برائت و بیزاری کا اظہار نہ ہو اس نماز سے خداوند متعال راضی و خوشنود نہیں ہوتا۔ ہر نماز کے بعد ان کا نعرہ یہ تھا : "اللہ اكبر، الموت لامريكا، الموت لاسرائيل، اللعنة علىاليہود، النصر للاسلام”۔ سید حسین کے نعرے ان کی شہادت کے بعد بھی جاری رہے اور آج بھی ان کے سفید رنگ کے پرچم پریہ نعرے دکھائی دے رہے ہیں۔ شباب المؤمن کی تحریک بہت زیادہ شجاع، دلیر اور صافگو تھی اور یمن کی مرکزی حکومت کے لئے ایسی تحریک کو برداشت کرنا ممکن نہ تھا کیونکہ یمنی آمر کے امریکہ کے ساتھ بہت قریبی تعلقات تھے۔ وہ حوثیوں کی سرگرمیوں کو اپنی حکومت اور امریکہ کے ساتھ اپنی تعلقات کے لئے خطرناک سمجھتا تھا۔ اس نے براہ راست اقدامات کے ساتھ ساتھ اہل سنت کو زیدیوں کے خلاف اکسایا اور انہیں جاہ و منصب کے وعدے دیئے مگر سنی بھی امریکہ سے متنفر تھے اور وہ آمر کے جھانسے میں نہ آئے؛ بعدازاں آمر نے عام زیدیوں کے درمیان حوثیوں کی نفرت کا بیج بونا چاہا مگر اس کی یہ حیلہ گری بھی کارگر نہ ہوئی چنانچہ وہ حوثیوں کو نہ کچل سکا اور فوجی آپشن پر عملدرآمد کا فیصلہ کیا۔ صدام صغیر نے فوجیوں کی اٹھارہ ٹیمیں تشکیل دیں اور انہیں حسین الحوثی اور ان کے ساتھیوں کی گرفتاری کا ہدف دیا مگر وہ دشوار گذار پہاڑوں میں چلے گئے اور 90 روز تک مزاحمت کی اور آخر کار اپنے جد امجد نواسۂ رسول (ص) امام حسین (ع) کی مانند شہید ہوئے مگر یمنی فوج انہیں گرفتار نہ کرسکی۔ سید حسین اور ان کے کئی ساتھی شہید ہوئے مگر ان کی فکر اور ان کی انقلابی سوچ قائم و دائم رہی اور یہ مقدس شعلہ فروزاں رہا اور روز بروز روشن تر اور آشکار تر ہوا۔ اس وقت سے اب تک یمنی آمریت نے شیعیان یمن اور صعدہ کے بچوں اور عورتوں کے خلاف شدید ترین درندگی کا ثبوت دیا ہے؛ مگر لگتا ہے کہ شہید حسین الحوثی کی روح ان کے بھائیوں، ساتھیوں اور پیروکاروں کے کالبد میں پھونک دی گئی ہے۔ ہتھیاروں کے لحاظ سے وہ کسی صورت بھی سرکاری فورسز اور سعودی افواج کی برابری نہیں کرسکتے اور پھر وہ ذرائع ابلاغ کے بائیکاٹ کا بھی نشانہ بنے ہوئے ہیں مگر ایمان و ہدف کے تقدس کی بدولت نہایت بے جگری سے لڑ کر حملہ آوروں کو شکست پر شکست دے رہے ہیں اور دشمن ان کے مد مقابل زمینی جنگ کی جرأت سے عاری ہیں۔ علامہ بدرالدین الحوثی کا خط آیت اللہ العظمی سیستان کے نام توجہ فرمائیں کہ یہ خط آج سے چار سال قبل لکھا گیا ۔ اس خط میں انھوں نے وہ جرائم اور مظالم بیان کئے ہیں جو اس وقت تک شیعیان یمن پر ڈھائے گئے تھے اور آپ خود ہی اندازہ لگائیں کہ اس وقت سے اب تک شیعیان یمن پر تین مزید جنگیں مسلط کی گئی ہیں اور نہ معلوم کہ اس عرصے میں مزید کون سا ظلم ہوگا جو ان پر روا نہ رکھا گیا ہوگا۔ یقیناً امام علی علیہ السلام کے ان شیعوں اور خمینی کبیر کے پیروکاروں کی عاشورائی مظلومیت ـ ذرائع ابلاغ کی مجرمانہ خاموشی کی وجہ سے کئی گنا بڑھ گئی ہے ـ ہر مسلمان ہی کا نہیں بلکہ ہر انسان کا قلب زخمی ہوکر رہ جاتا ہے۔ اس خط میں آیت‌اللہ العظمی سیستانی کے نام لکھا گیا ہے کہ : «ہم عالی جناب کے شکرگزار ہیں کہ آپ نے اپنے بیان میں ہماری مظلومیت دنیا والوں کے لئے واضح و آشکار فرمائی ہے ۔ ۔ ۔ بے شک شیعہ مستضعفین کے خلاف یمن کے نسل پرست نظام حکومت کی ظالمانہ اور وحشیانہ جنگ کا اعلان اب تک آپ کی سماعت تک بھی پہنچا ہوگا؛ وہ جنگ جس میں آپ کے بھائیوں کے خلاف بین الاقوامی سطح پر تمام ممنوعہ ہتھیار بروئے کار لائے جارہے ہیں اور اہل تشیع کی نسل کشی کی جارہی ہے ۔ ۔ ۔ جلی ہوئی لاشیں اور ٹکڑوں میں تبدیل ہونے والے جسم جنہیں سڑکوں پر گھسیٹنے پر یمن کا نظام حکومت فخر کرتا ہے، علماء، طلباء، روزنامہ نویسوں، اساتذہ اور شیعیان مظلوم کے خلاف مذہب زیدیہ کے پیروکاروں کے وحشی پن اور درندگی کے اثبات کے سوا کچھ بھی نہیں ہے؛ سرکاری جیلوں اور عقوبت خانوں میں قید کئے جانے والوں کی تعداد ہزاروں سے بھی تجاوز کرگئی ہے اور ان کو نہایت بھونڈے اور غیرانسانی روحانی اور جسمانی آزار و اذیت کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ان افراد کو اذیت خانوں اور عقوبتکدوں میں شدید ترین صعوبتیں جھیلنے کے بعد مساجد اور اسکولوں میں نہ پڑھانے اور منبر و محراب میں امامت و خطابت سے اجتناب کرنے کے سلسلے میں کتبی ضمانت دینی پڑتی ہے ۔ ۔ ۔ یمنی حکومت گھروں اور اسکولوں اور مدارس کو منہدم کرنے کے علاوہ اہل بیت (ع) کی فکر اور ان کی میراث کو نیست و نابود کرنے کی غرض سے اسلامی تہذیب کے نادر قلمی نسخوں سے بھرپور بعض نجی کتب خانوں کو بھی نذر آتش کرنے لگی ہے اور صورت حال یہ ہے کہ ملک یمن میں نہج البلاغہ اور صحیفہ سجادیہ کے نسخے مکمل طور پر نایاب ہوگئے ہیں»۔ یمن کی ان کہی باتیں بہت زیادہ ہیں۔ پس یہ آگاہ مسلمانوں، پیروان مرجعیت، عقیدتمندان خمینی اور ولایت و امامت اور امام و رہبر کے دوستداروں کو جاگ کر اٹھنا چاہئے کیونکہ مظلومیت کی اس گھٹی ہوئی صدا کو سنبھالا دینا ہم سب کا فریضہ ہے۔ بقول رہبر معظم "تمام مسلمانوں کو احتجاج کے لئے زبان کھول دینی چاہئے" اور ہاں کہیں ایسا نہ ہو کہ کربلائے صعدہ میں برپا ہونے والی عاشورا کے اس حساس موقع پر ہم کوفیوں کے زمرے میں قرار دیئے جائیں۔ زمانہ فتنوں سے بھرا ہوا ہے اور فتنہ کا مطلب یہ ہے کہ حق و باطل انسان پر مشتبہ ہوجائے فتنوں مین خاموش رہنا اور بولنا دونوں ضروری ہیں اور اگر آپ امام معصوم (ع) کے تابع ہیں تو حق کی نشانیاں واضح ہیں چنانچہ آپ فتنوں میں بھی بجا طور پر خاموش رہیں گے اور بجا طور پر بولیں گے؛ بجا طور پر بیٹھیں گے اور بجا طور پر اٹھیں گے. فتنوں میں مطلق خاموشی بھی انسان کی ابدی ہلاکت کا باعث بن سکتی ہے اور مطلق اظہار خیال کا بھی یہی حال ہے چنانچہ فتنوں میں آنکھیں کھولنی چاہئیں اور حالات پر نظر رکھنی چاہئے تا کہ خاموش رہنے اور بولنے کے مواقع سے آگہی حاصل ہوسکے. رئیس مذہب حضرت امام جعفر بن محمد الصادق علیہ السلام فرماتے ہیں: ” العالم بزمانہ لاتھجم علیہ اللوابس ” اپنے زمانے کے حالات سے آگاہ انسان پر لوابس اور اشتباہات حملہ آور نہیں ہوتے. لوابس اور اشتباہات وہ ہیں جن میں حق و باطل کی پہچان مشکل ہوجاتی ہے یعنی وہی فتنہ؛ اور امام (ع) فرماتے ہیں کہ جب آپ اپنے زمانے کے حالات اور دنیا پر حکفرما عالمی صورت حال سے آگاہ ہونگے تو کبھی بھی ان لوابس اور فتنوں سے دھوکہ نہ کھائیں گے اور حق کی تشخیص آپ کے لئے ہرگز مشکل نہ ہوگی. یمن، لبنان، فلسطین، عراق، افغانستان اور پاکستان میں کوئی فرق نہیں ہے اور ان تمام ممالک میں تمام فتنوں کے پیچھے طاغوتوں کا ایک ہی گروہ کارفرما ہے. یاد رہے کہ یہ جنگ صرف اہل تشیع کی جنگ نہیں ہے اس جنگ کا مقصد عالم اسلام کے تیسری ملک پر عالم کفر کا قبضہ ہے اور حوثی شیعہ عالم اسلام کی جنگ لڑرہے ہیں اور یہ بھی یاد رہے کہ اگر امریکہ اور برطانیہ یمن پر قبضہ کریں تو حجاز مقدس پر قبضے کی تیاری مکمل ہوجائے گی کیونکہ جزیرہ نمائے عرب کے شمال میں عراق ہے جو ان کے قبضے میں ہے، خلیج فارس کے کنارے واقع ریاستوں میں مغربی قوتوں کے فوجی اڈے ہیں، یمن پر بھی قبضہ ہوجائے تو واضح طور پر سب کو نظر آجائے گا کہ حجاز مقدس کا محاصرہ مکمل ہوگیا ہے. اور آگے صرف سمجھنے کی ضرورت ہے. source: ABNA

متعلقہ مضامین

Back to top button