اہم ترین خبریںدنیا

مقاومت اب پورے خطے میں ہوگی!شام کے جوان قیام کریں گے آیت اللہ خامنہ ای

پہلی وجہ مقدس مقامات اور اپنے آئمہ کے مزارات کا تحفظ تھا۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ داعش دین، ایمان اور روحانیت سے عاری لوگوں کا ایک گروہ تھا۔

 شیعیت نیوز:۔ آج صبح تہران میں رہبر معظمِ انقلاب، ولی امر مسلمین "سید علی خامنہ ای” سے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے ملاقات کی۔ جن سے خطاب کرتے ہوئے رہبر معظم نے کہا کہ شام میں اس وقت جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ امریکہ اور صیہونی رژیم کے مشترکہ منصوبے کا نتیجہ ہے۔

یہ بات ٹھیک ہے کہ شام کا ایک ہمسایہ ملک اس منصوبے میں اپنا کردار ادا کر چکا ہے اور کر رہا ہے۔

تاہم اس سازش اور منصوبے کا اصلی عنصر امریکہ و صیہونی رژیم ہیں۔

ہمارے پاس اس بات کے بہت سارے شواہد موجود ہیں جنہیں دیکھنے کے بعد ساری صورت حال واضح ہو جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ مقاومت یا استقامتی محاذ کا مطلب یہ ہے کہ اس پر جتنا دباؤ ڈالا جائے گا یہ اتنا ہی مضبوط ہوگا، جتنی جارحیت کا سامنا کرے گا اتنا ہی پُر عزم ہوگا، جتنا آپ اس سے لڑیں گے یہ اتنا ہی وسیع ہوگا۔

میں آپ سب سے کہتا ہوں کہ اللہ کی مدد سے مقاومت، ماضی کی نسبت جلد ہی سارے خطے میں پھیل جائے گی۔

یہ بھی پڑھئیے:اسرائیل کے شام پر 300 سے زائد حملے، تکفیر الشام کی خاموشی، اور اسرائیلی منصوبہ بندی کا نیا دور

مقاومت کے معنی سے بے خبر اور نادان دانشور سمجھتے ہیں کہ استقامتی فرنٹ کمزور ہو گیا ہے یا اسلامی جمہوریہ ایران کمزور ہو جائے گا۔ میں ان سے کہتا ہوں کہ اللہ کی نصرت سے ایران طاقتور ہے اور مزید طاقتور ہو گا۔

ولی امر مسلمینِ جہاں نے کہا کہ شام میں جاری شورش میں شامل باغی گروہوں کے اپنے اپنے مقاصد ہیں۔

ان میں سے بعض، شمالی شام اور بعض جنوبی شام پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔

انہی کے توسط سے امریکہ چاہتا ہے کہ خطے میں اپنے قدم جمائے لیکن یہ وقت بتائے گا کہ انشاءاللہ ان میں سے کوئی بھی فریق اپنا ہدف حاصل نہیں کر سکے گا۔

شام کے مقبوضہ علاقے شام کے غیور نوجوانوں کے ہاتھوں ہی آزاد ہوں گے۔

آپ شک نہ کریں یقینا یہ امر وقوع پذیر ہو گا۔ امریکہ کو خطے میں جگہ نہیں ملے گی اور اللہ کی توفیق و مدد سے استقامتی محاذ ہی خطے سے امریکہ کو نکال باہر کرے گا۔

رہبر معظم انقلاب نے شام میں فتنہ داعش کے خلاف ایران کی موجودگی کی وجوہات کو بیان کیا۔

انہوں نے کہا کہ داعش یعنی بدامنی کا بم۔ داعش چاہتی تھی کہ عراق، شام اور خطے کو ناامن کرے۔ ان کا اصلی اور آخری ہدف اسلامی جمہوریہ ایران تک پہنچنا تھا۔ لیکن ہم نے داعش کا مقابلہ کیا۔

عراق اور شام میں ہماری فورسز دو وجوہات کی بناء پر وہاں کی حکومتوں کی مدد کے لئے پہنچیں۔

پہلی وجہ مقدس مقامات اور اپنے آئمہ کے مزارات کا تحفظ تھا۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ داعش دین، ایمان اور روحانیت سے عاری لوگوں کا ایک گروہ تھا۔

انہیں مقدس مقامات و مزارات سے دشمنی تھی۔ وہ ان مقامات کو برباد کرنا چاہتے تھے اور کسی حد تک کیا بھی۔

جیسا کہ ہم نے سامراء میں دیکھا کہ انہوں نے امریکہ کی مدد سے گنبد امامین عسکریین علیہما السلام کو شہید کر دیا۔

وہ یہی کام نجف، کربلا، کاظمین اور دمشق میں کرنا چاہتے تھے۔

پس اس منظرنامے میں کوئی غیور اور محب اہل بیت ع کیسے خاموش رہ سکتا تھا۔

دوسری وجہ سلامتی کا مسئلہ تھا۔

ہمارے اعلیٰ حکام بہت جلد سمجھ گئے تھے کہ اگر اس فتنے کا راستہ نہ روکا گیا تو یہ ناسور تیزی کے ساتھ پھیل جائے گا۔

یہان تک کہ ہماری سلامتی بھی خطرے میں پڑ جائے گی۔

فتنہ داعش کی بدامنی کوئی معمولی بات نہیں تھی۔

امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کا فرمان ہے کہ "جو قوم اپنے گھر میں دشمن کے ساتھ محاذ آراء ہو وہ ذلیل و خوار ہو جائے گی، دشمن کو اپنے اندر گھسنے مت دو”۔

لہٰذا ہماری فورسز، سینیئر عسکری ماہرین اور ہمارے پیارے شہید جنرل "قاسم سلیمانی” و ان کے ساتھی اس فتنے سے نبرد آزماء ہونے کے لئے پہلے عراق اور پھر شام پہنچے۔

انہوں نے عراق و شام میں نئے سرے سے فوج کو منظم کیا۔

انہیں اسلحہ دیا اور اس ملک کے اپنے جوانوں کو داعش کے خلاف کھڑا کر دیا۔ جنہوں نے داعش کی کمر توڑ کے رکھ دی۔

استکباری عناصر شام کی موجودہ صورتحال پر خوشحال ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ مقاومت کی طرف دار شامی حکومت کے خاتمے کے بعد استقامتی محاذ کمزور ہو گیا ہے۔

حالاں کہ وہ غلط سوچ رہے ہیں۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان حوادث سے استقامتی محاذ کمزور ہوا ہے انہیں مقاومت اور استقامتی محاذ کا صحیح ادراک نہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ حقیقی طور پر مقاومتی محاذ کیا ہے۔

مقاومتی محاذ کوئی ہارڈویئر نہیں کہ جو ٹوٹ جائے یا پانی میں ڈوب جائے یا نابود ہو جائے۔ مقاومت ایک ایمان ہے، تفکر ہے، قلبی اور قطعی ارادہ ہے، مقاومت ایک آئیڈیالوجی ہے، مقاومت ایک مذہبی نظریہ ہے۔

یہ ایمان نہ تو دباؤ کی وجہ سے کمزور ہوتا ہے بلکہ اس کے مقابلے میں اور زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔ استقامتی محاذ سے وابستہ عناصر و افراد کا جذبہ دشمن کی خباثتوں کے نتیجے میں مزید مضبوط ہوتا ہے اور اس کا دائرہ کار وسیع تر ہوتا چلا جاتا ہے۔

مقاومت یہ ہے کہ جب ہم دشمن کے گھناونے جرائم کو دیکھتے ہیں اور وہ افراد جو اس شک میں مبتلا ہوتے ہیں کہ ہمیں مزاحمت کرنی چاہیے یا نہیں۔ تو وہ شک سے باہر نکلتے ہیں اور جان لیتے ہیں کہ ظالم و ستمگر کے مقابلے میں سینہ سپر کرنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں۔ ہمیں دشمن کے مقابلے میں کھڑا ہونا چاہیے، مزاحمت کرنی چاہیے۔ یہی مقاومت کا اصلی مفہوم ہے۔

اگر آپ حزب اللہ لبنان کو دیکھیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ کیا حزب اللہ کو جس بحران کا سامنا کرنا پڑا کیا وہ ایک مذاق تھا!؟۔ کیا سید حسن نصراللہ جیسی شخصیت کھو دینا حزب اللہ کے لیے کم چیلنج تھا!؟

۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ سید حسن نصر اللہ کی شہادت کے بعد حزب اللہ کے حملے، طاقت اور مضبوطی میں اضافہ ہوا ہے۔ نیز دشمن بھی اس بات کو سمجھتا ہے۔ دوسری جانب دشمن سوچتا تھا کہ انہوں نے اب سید حسن نصر اللہ کو شہید کر دیا ہے تو وہ لبنان میں داخل ہو سکتا ہے، حزب اللہ کو پسپا کر سکتا ہے، حزب اللہ کو دریائے لیطانیہ تک پیچھے دھکیل دے گا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔

بلکہ حزب اللہ نے کمال شجاعت کا مظاہرہ کیا اور یہاں تک کہ بات جنگ بندی تک پہنچ گئی۔

یہ مقاومت کا اثر ہے۔ جب ہم غزہ کو دیکھتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ غزہ میں صیہونی بمباری کو ایک سال اور چند مہینے ہو چکے ہیں۔

وہاں پر یحییٰ السنوار جیسی برجستہ شخصیات کو شہید کیا جا چکا ہے۔ انہیں نقصان پہنچایا گیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود وہاں کی عوام، دشمن کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بنی ہوئی ہے۔

دشمن سوچتا تھا کہ وہ غزہ کے عوام پر دباؤ ڈالے گا اور نتیجتاََ وہاں کی عوام حماس کے خلاف کھڑی ہو جائے گی۔ لیکن نتیجہ اس کے برخلاف آیا اور وہاں کی عوام پہلے کی نسبت زیادہ حماس کی طرف دار ہو گئی۔

شام کے مسائل کی اس تفصیل کے ساتھ سوال اٹھتا ہے کہ کیا ہم ان چند سالوں میں شام میں موجود تھے یا نہیں؟۔ جس کا جواب ہے ہاں، سب جانتے ہیں اور دوسرا حرم کے دفاع کے طور پر ہماری موجودگی بھی اس بات کو ظاہر کرتی ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ ہم نے شامی حکومت کی مدد کی۔

لیکن اس سے پہلے کہ ہم شامی حکومت کی مدد کریں، ایک نازک موڑ پر شام نے ہماری مدد کی تھی۔

جس کے بارے میں اکثر لوگ نہیں جانتے۔

ایران-عراق جنگ کے دوران جب ساری دنیا "صدام حسین” کی حمایت اور ہماری مخالفت میں اکٹھی ہو گئی اس وقت شامی حکومت حرکت میں آئی اور انہوں نے ہمارے مفاد اور صدام حسین کے خلاف ایک بہت بڑا قدم اٹھایا۔

وہ یہ کہ شام نے عراق سے یورپ کے لئے بحیرہ روم سے گزرنے والی پائپ لائن کو بند کر دیا۔

جس سے دنیا میں ایک ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔ حالانکہ شام خود بھی اپنی سرزمین سے گزرنے والی پائپ لائن کا کرایہ وصول کر رہا تھا۔ لیکن اس نے ہماری خاطر اپنے اقتصادی مفاد کو قربان کیا۔

تاہم ہم نے اس ازالہ بھی کیا۔

یعنی اسلامی جمہوریہ ایران نے اس خدمت کا صلہ بھی دیا۔

پہلے انہوں نے ہماری مدد کی۔

بعد میں شہید جنرل قاسم سلیمانی نے شامی جوانوں کی فوجی تربیت کا اہتمام کیا۔

انہیں مسلح و منظم کیا اور دشمن سے مقابلے کے قابل کیا۔

متعلقہ مضامین

Back to top button