اہم ترین خبریںعراق

مقاومت کو میڈیا کے شعبے میں طاقتور ہونا چاہئے، حشد الشعبی عراق کے رہنما ہاشم الحیدری

عہداللہ تحریک کے سربراہ کا میڈیا کے میدان میں مقاومت کے موقف کو اجاگر کرنے پر زور

شیعیت نیوز: عراقی تنظیم حشد الشعبی کے اعلیٰ رہنما اور تحریک عہد اللہ کے سربراہ سید ہاشم الحیدری نے مہر نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج دنیا میں دو ہی محاذ موجود ہیں؛ ایک طرف مقاومت اسلامی اور دوسری طرف کفر، جس کی قیادت امریکہ کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ عراق میں سیاسی اور سیکورٹی نظام کی کمزوری کے سبب امریکہ نے ایران کے خلاف سرد جنگ کا میدان بنایا ہوا ہے۔ ایران اور ولایت فقیہ کے خلاف امریکہ زیادہ پروپیگنڈا کر رہا ہے، اور مقاومت میڈیا کے شعبے میں غیر فعال ہونے کے سبب تعلیم یافتہ اور دانشور طبقہ بھی اس پروپیگنڈے سے متاثر ہوا ہے۔ عراق میں حکومتی سطح پر کوئی ٹی وی چینل نہ ہونے کے باعث لوگ سوشل میڈیا کا زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ بیرون ملک اسلامی جمہوریہ ایران کا میڈیا بھی کمزور ہے، جس کی وجہ سے امریکہ کو پروپیگنڈے کا زیادہ موقع ملتا ہے۔

سید ہاشم الحیدری نے کہا کہ علماء اور مقاومتی دانشوروں کا فرض ہے کہ ایران اور مقاومت کے موقف کی وضاحت اور دفاع کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایران نے سب سے پہلے فلسطین کے لیے آواز اٹھائی اور خطے میں مقاومت کو فروغ دیا۔ ہمیں ان عرب ممالک سے شکایت ہے جو فلسطین کی مدد کے لیے کچھ بھی کرنے سے قاصر رہے ہیں۔ علماء اور دانشوروں کو میڈیا کے ذریعے ان حقائق کو اجاگر کرنا ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: رہبر معظم ہر حال میں انسانی حقوق کی پاسداری کرتے ہیں، سینیٹر علامہ راجہ ناصر

انہوں نے تحریک عہداللہ کے قیام کے حوالے سے کہا کہ یہ تحریک جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد شہید حسن نصراللہ کی مشاورت سے وجود میں آئی۔ اس تحریک کا مقصد ثقافتی اور اجتماعی امور پر توجہ دینا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بعض لوگ مقاومت کو صرف مسلح جدوجہد سمجھتے ہیں، جو کہ ایک غلط سوچ ہے۔ حزب اللہ صرف ایک مسلح تنظیم نہیں بلکہ ثقافتی اور دیگر شعبوں میں بھی فعال ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ دنیا میں تقریباً 40 کروڑ شیعہ موجود ہیں، اور ہمیں اپنے نوجوانوں کو نظام تشیع اور خصوصاً ولایت فقیہ کے بارے میں آگاہی دینے کی ضرورت ہے۔ عراق جیسے ملک میں اسلامی حکومت نہ ہونے کے سبب ہم خود یہ ذمہ داری انجام دے رہے ہیں۔ بعض اوقات ہماری ثقافتی اور اجتماعی جدوجہد مسلح جدوجہد سے بھی زیادہ سخت ہوتی ہے۔

انہوں نے امریکی صدارتی انتخابات کے بارے میں کہا کہ حکمرانوں اور چہروں کے بدلنے سے امریکی پالیسی تبدیل نہیں ہوتی۔ ڈیموکریٹس اور ریپبلکن میں کوئی فرق نہیں ہے، کیونکہ امریکی پالیسی ایک صدر کے ہاتھ میں نہیں بلکہ ایک پوری ٹیم کے تحت ہوتی ہے۔ امریکہ کی پالیسی دوسروں پر تسلط اور صہیونزم کی حمایت پر مبنی ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button