مقالہ جات

فلسطینی عوام کو ایک اور کامیابی مبارک

ڈاکٹر صابر ابو مریم کی خصوصی تحریر

7 اکتوبر طوفان الاقصیٰ آپریشن کے آغاز سے مغربی ذرائع ابلاغ اور امریکی زیر اثر میڈیا سمیت دنیا بھر میں امریکی نمک خواروں نے کمر توڑ کوشش کی کہ کسی نہ کسی طرح فلسطینی عوام اور حماس کو مجرم بنا کر کٹہرے میں کھڑا کر دیں، لیکن تمام تر وسائل کو بروئے کار لانے کے باوجود تمام کوششیں بے سودھ ہو کر رہ گئیں اور فلسطینی عوام کی مظلومیت دنیا بھر میں اجاگر ہوگئی۔ یہ بالکل ایسے ہی ہوا، جیسے کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے کہ اللہ اپنے نور کو مکمل کرکے ہی رہے گا، چاہے یہ بات مشرکین کو ناگوار ہی کیوں نہ گزرے۔ بہرحال سات اکتوبر کا دن جس طرح فلسطینی عوام اور مزاحمت کے لئے ایک کامیابی کا دن تھا اور فتح کی امید کی کرنوں کے ساتھ طلوع ہوا۔ یہ کامیابیوں کا آغاز تھا۔

جیسے جیسے دن گزرتے گئے، مظلوم فلسطینیوں کی مظلومیت مزید اجاگر ہوتی چلی گئی اور دنیا بھر کے عوام میں فلسطین کے حق میں بیداری کی نئی لہر جنم لیتی چلی گئی۔ یہ فلسطینی مزاحمت اور عوام کی ایک اور بڑی کامیابی تھی۔ اسی طرح ایک اور کامیابی اس وقت ملی، جب غاصب صیہونی دشمن نے پوری قوت کے ساتھ یہ کوشش کی کہ غزہ کے لوگوں کو غزہ سے نکال دے، لیکن غزہ کے عوام نے فیصلہ کر لیا کہ وہ بمباری کا سامنا کریں گے، لیکن اپنے گھروں اور وطن کو چھوڑ کر نہیں جائیں گے۔ غزہ کے عوام کی استقامت غاصب صیہونی حکومت کی شکست اور فلسطینی عوام کی ایک اور کامیابی تھی۔

کامیابیوں کا یہ سلسلہ جاری ہے۔ حال ہی میں بائیس نومبر کو قطر اور مصر کی ثالثی کے ذریعے غاصب صیہونی حکومت اسرائیل نے حماس کے ساتھ ایک سات نکاتی معاہدہ تسلیم کیا ہے۔ اس معاہدے کی رو سے غزہ میں چار روزہ جنگ بندی یعنی عارضی جنگ بندی کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس معاہدے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ فلسطینی اسیروں کی رہائی کی بات کی گئی ہے، یعنی حماس کے قید میں موجود صیہونی آباد کار قیدیوں میں سے پچاس خواتین اور بچے رہا کئے جانے ہیں اور غاصب صیہونی حکومت ایک سو پچاس فلسطینی خواتین اور بچے قیدیوں کو آزاد کرے گی۔

تزویراتی عنوان سے اگر بات کریں تو اسرائیل کے لئے یہ ایک بہت بڑی ہزیمت اور شکست ہے کہ اسے پچاس سول شہریوں کے عوض ایک سو پچاس فلسطینی قیدیوں کو رہا کرنا ہے، جنہیں ایک طویل مدت سے فلسطین کے مختلف علاقوں سے گرفتار کرکے جیل میں قید و بند میں رکھا گیا تھا۔ کیونکہ غاصب صیہونی دشمن نے سات اکتوبر سے ہی اعلان کیا تھا کہ غزہ پر حملہ کا مقصد ایک تو حماس کو مکمل طور پر ختم کرنا ہے اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ حماس کی جانب سے گرفتار کئے گئے صیہونی فوجی اور آباد کاروں کی رہائی ہے۔ لیکن بائیس نومبر کو ہونے والے معاہدے نے اسرائیل کے تمام تر دعوں اور منصوبہ بندیوں کو خاک میں ملا کر رکھ دیا ہے، کیونکہ 47 دن تک غزہ پر جارحیت جاری رکھنے کے باوجود غاصب صیہونی دشمن کو نہ تو ایک بھی قیدی کی رہائی حاصل ہوئی اور نہ ہی حماس کا خاتمہ ممکن ہوا۔

یہ بھی پڑھیں:حماس نے صہیونیوں کو معاہدے کی پاسداری پہ مجبور کردیا،39 فسلطینی رہا

نہ صرف حماس کا خاتمہ بلکہ حماس کے کسی ایک بھی سرکردہ رہنماء کو تلاش کرکے قتل کرنے میں بھی اسرائیل کو ناکامی کا سامنا رہا، کیونکہ کئی مرتبہ یہ خبریں آئی ہیں کہ غاصب صیہونی حکومت نے خفیہ ایجنسی کی مدد سے حماس کے سرکردہ رہنماؤں کو قتل کرنے کے احکامات جاری کئے گئے ہیں، لیکن سب کی سب سازشوں نے بائیس نومبر کو اسرائیل کی بدترین شکست اور حماس سمیت فلسطینی عوام کی کامیابی کے ساتھ دم توڑ دیا۔ دوسری طرف اسرائیل کی شکست اس لئے بھی ہوئی ہے کہ گذشتہ 47 دن میں غاصب صیہونی حکومت کے وزیراعظم نیتن یاہو نے کابینہ اور فوجی سربراہ کے ساتھ ہونے والے 13 اجلاسوں مین متفقہ فیصلہ کیا تھا کہ حماس کے ساتھ کسی قسم کی جنگ بندی نہیں کی جائے گی اور کوئی معاہدہ نہیں کیا جائے گا۔

لیکن اب حقیقت یہ ہے کہ ان تمام تر باتوں کے باوجود معاہدہ بھی ہوا ہے اور قیدیوں کا تبادلہ بھی شروع ہوچکا ہے، جو چار روز تک جاری رہے گا۔ یعنی غاصب صیہونی حکومت مجبور ہو کر اس معاہدے میں شامل ہوئی ہے۔ غاصب صیہونی حکومت تمام تر طاقت اور وسائل کے باجود صرف ایک تنظیم اور گروہ کے سامنے بے بس ہوچکی ہے اور چار روزہ عارضی جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط کرچکی ہے۔ تاریخی اعتبار سے غاصب صیہونی حکومت کی یہ بہت بڑی ناکامی شمار کی جا رہی ہے اور فلسطینی عوام سمیت حماس کی کامیابی تسلیم کی جا رہی ہے۔ پورے فلسطین میں حماس کی کامیابی پر جشن کا سماں ہے، گذشتہ شب قیدیوں کی واپسی پر جو مناظر دنیا کی اسکرین نے دیکھے ہیں، وہ واقعی دیدنی ہیں۔

بچھڑے ہوئے فلسطینی اپنے پیاروں سے ملتے ہوئے دکھائے گئے، مائیں اپنے بچوں سے اور بچے اپنی ماؤں سے مل رہے تھے، پوری دنیا یہ مناظر دیکھ رہی تھی۔ ان مناظر نے فلسطینی عوام کے ان مصائب اور مشکلات کو بھی زائل کر دیا ہے، جو گذشتہ پچاس دنوں سے غاصب اسرائیل کی جارحیت کے نتیجے میں برداشت کر رہے تھے۔ خلاصہ یہ ہے کہ فلسطینی عوام ایسے دور میں داخل ہوچکی ہے کہ آزادی فلسطین کے لئے قریب تر ہو رہی ہے۔ حالیہ دنوں رونما ہونے والے حوادث اور امریکہ سمیت اسرائیل اور تمام پشت پناہ قوتوں کی شکست نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ عزت کا راستہ صرف اور صرف مزاحمت کا راستہ ہے۔ فلسطینی عوام کو مزاحمت مبارک، آزادی اور کامیابیاں مبارک۔

متعلقہ مضامین

Back to top button