مقالہ جات

آپریشن طوفان الاقصیٰ، مزاحمت فلسطین کی چند منفرد خصوصیات:ڈاکٹر صابر ابو مریم کی تحریر

تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان

جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ سات اکتوبر کی صبح غزہ سے غاصب صیہونی علاقوں پر آپریشن طوفان الاقصیٰ کا آغاز کیا گیا۔ اس آپریشن کے نتائج میں دو سو سے زائد اسرائیلی فوجیوں کی گرفتاری عمل میں آئی۔ اسی طرح کئی علاقوں سے صیہونی فوج کا کنٹرول ختم ہوا، اسرائیل کو پسپائی اختیار کرنا پڑی، سیکڑوں کی تعداد میں جانی نقصان ہوا۔ غرض یہ کہ ہر عنوان سے غاصب صیہونی حکومت کو نقصان ہی اٹھانا پڑا۔ آیئے درج ذیل میں ہم فلسطین میں موجود اسلامی مزاحمت کی تحریکوں کے بارے میں چند نکات پیش کرتے ہیں، جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ غزہ میں موجود فلسطینی مزاحمت کے عزائم اور حوصلہ مندی کا درجہ کیا ہے۔ کیا فلسطینی مزاحمت کو جس نگاہ اور زاویہ سے مغربی ذرائع ابلاغ ہمیں دکھاتے ہیں، اس طرح ہے یا پھر حقیقت میں فلسطینی مزاحمت کا چہرہ کچھ اور ہے، جو ہم سے چھپانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

آرٹیکل کی مندرجہ ذیل سطور میں شامل کئے گئے چند نقاط غزہ کی موجودہ صورتحال کے بارے میں غزہ میں موجود قسام بٹالین کے بانی اراکین میں سے ایک رکن کے ساتھ کی گئی گفتگو سے ماخذ ہے، جنہوں نے کئی ایک سوالوں کے جواب میں مندرجہ ذیل نقاط اٹھائے ہیں اور حالیہ صورتحال میں غزہ سے ہونے والی مزاحمت کی کامیابیوں اور آئندہ حکمت عملی سمیت خصوصیات پر روشنی ڈالی ہے۔ جیسا کہ ہمارے معاشروں میں ایک سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ فلسطینی مزاحمت یا حماس کے مجاہدین نے غاصب اسرائیل کے خلاف کارروائی کیوں کی اور اس سے انہیں کیا حاصل ہونے والا ہے، اس سوال کا جواب غزہ کی سرزمین پر موجود عملی جدوجہد میں مصروف قسام بٹالین کے ایک بانی رکن نے بیان کرتے ہؤئے بتایا ہے کہ آج غزہ کے عوام میں فتح کا وہی احساس ہے، جو انگریزوں کو دوسری جنگ عظیم کے بعد اور نازیوں کو شکست دینے کے بعد لندن کے کھنڈرات اور ان کے مرنے والوں کے پاس تھا اور ہمیں یقین ہے کہ صیہونیوں کو شکست دینے کے بعد ہم اپنے وطن کی حفاظت کریں گے اور بہترین طریقے سے اس کی تعمیر نو بھی کریں گے۔

گذشتہ دنوں ایک سیمیینار کے بعد کچھ دانشور خواتین و حضرات کے ساتھ نشست میں ایک نقطہ سامنے آیا کہ جس میں شک و شبہ کا خیال کیا جا رہا تھا کہ غالباً ایران نے حماس کے ذریعے اسرائیل پر حملہ کروایا ہے اور اب ایران اپنے سیاسی فائدے حاصل کرے گا اور حماس کے لوگ بیچارے چکی میں پس رہے ہیں۔ اس سوال کے جواب میں خود حماس ہی کی اس قسام بٹالین سے تعلق رکھنے والے بانی رکن نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ دنیا میں ہمیشہ یہی ہو رہا ہے کہ کوئی بھی کام ہو، اس کا الزام ایران پر لگا دو اور معاملہ ختم کر دو۔ لیکن یہ بات حقیقت اور روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ایران ہمارا اتحادی ہے اور اگر آپ آج دیکھیں تو ہم ایران کی طرف سے فوجی تربیت اور ہتھیاروں کی فراہمی کی وجہ سے ہی اپنے دشمن اسرائیل کے خلاف ایسا آپریشن کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

اسی طرح ہم دیکھ رہے ہیں کہ خطے میں موجود فلسطینی مزاحمت کا نشان تحریکیں جن میں حزب اللہ لبنان، حشد الشعبی عراق اور انصار اللہ یمن ہیں، سب کے سب فلسطین کی خاطر امریکی اور صیہونی دشمن کے ساتھ نبرد آزما ہیں اور عملی میدان میں قیمتی ترین جانوں کا نذرانہ بھی پیش کر رہے ہیں۔یہ سب کے سب فلسطین کاز کی وجہ سے غاصب اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ کشمکش میں مصروف ہیں اور اس کی وجہ سے اسرائیلی حکومت کا عسکری حساب چکنا چور ہوگیا ہے۔ حماس کی فوجی و عسکری طاقت کے بارے میں مغربی ذرائع ابلاغ میں جاری منفی پراپیگنڈا کے بارے میں قسام بٹالین کے بانی رکن نے بتایا کہ حماس کے پاس 40,000 جنگی دستے اسٹینڈ بائی اور 60,000 احتیاطی دستے ہیں اور حماس کے علاوہ دو دیگر جہادی فورسز کے غزہ میں اپنے یونٹ علیحدہ ہیں۔ لہذا حماس کی عسکری طاقت امریکہ اور اسرائیل کے اندازوں سے کہیں زیادہ ہے۔

اسی طرح غزہ پر زمینی حملے کی صورت میں حماس کی کارکردگی سے دنیا حیران رہ جائے گی۔ حماس کی کارروائیوں کی طاقت تین طرفہ ہے: زمینی، ہوائی اور سمندری۔ جہاں تک آپریشن طوفان الاقصیٰ ٰکی بات ہے تو اس عنوان سے یہ ایک کامیاب ترین آپریشن ہے اور الاقصیٰ طوفان آپریشن کے پہلے گھنٹے میں صیہونی حکومت کے 30 سینیئر فوجی کمانڈروں کو گرفتار کر لیا گیا تھا، جو فلسطینی مزاحمت کے پاس ہیں اور یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔ غزہ میں پانی اور بجلی کے مسائل سے متعلق قلت کے مسائل اپنی جگہ موجود ہیں، لیکن غزہ میں زیادہ تر گھر سولر پینلز سے بجلی پیدا کرتے ہیں اور اسے کم سے کم ضروریات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ غزہ میں پانی کے دو اہم ذرائع ہیں، جن میں سے ایک پائپ لائنوں کے ذریعے یروشلم سے آتا ہے اور ایک زیر زمین ہے اور اس وقت لوگ زیر زمین پانی استعمال کرتے ہیں۔

گذشتہ کالم میں راقم غزہ کے زیر زمین حماس اور فلسطینی مزاحمتی گروہوں کی جانب سے بنائی گئی سرنگوں کے بارے میں تفصیل سے بیان کرچکا ہے۔ آج فلسطین کی سرزمین پر مزاحمت کرنے والے فلسطینی نوجوانوں کی زبانوں پر جو نعرہ ہے، وہ اسلام کی سربلندی کا نعرہ ہے۔ یہ جنگ صرف فلسطین کی آزادی کی نہیں بلکہ اسلام اور انسانیت کی سربلند کی جنگ ہے۔ غزہ میں عملی جدوجہد میں مزاحمتی کارروائیوں کو انجام دینے والے نوجوان کہتے ہیں کہ ہمیں اپنی سرزمین یا ملک کی فکر نہیں، ہمارا مسئلہ اسلام کو آزاد کرنا اور اسلام کو بچانا ہے۔ ایک اور اہم سوال جو اس وقت تقریباً ہر میڈیا پر اٹھایا جا رہا ہے کہ آخر یہ جنگ کب تک چلے گی؟ فلسطینی مزاحمتی تحریکوں کے ذرائع سے ملنے والی خبر کے مطابق اس موجودہ صورتحال کے ساتھ، فلسطینی مزاحمت اس قابل ہے کہ تقریباً ایک سال تک مزاحمت اور لڑائی جاری رکھے۔ یقیناً یہ امریکہ اور اسرائیل کے لئے یہ ایک سرپرائز سے کم نہیں ہے۔

حیرت انگیز بات ہے کہ مغربی ذرائع ابلاغ پر بتایا جاتا ہے کہ غزہ سے لوگ نقل مکانی کر رہے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ گذشتہ دنوں ابتداء میں غزہ کے لوگوں کا ایک گروہ، جن کے جنوب میں رشتہ دار اور جاننے والے تھے، جنوب کی طرف گئے تھے، لیکن جیسے ہی صیہونیوں نے ہجرت کا مسئلہ اٹھایا، وہ فوراً واپس شمال کی طرف لوٹ گئے اور نقل مکانی کرنے کی جگہ اسرائیل کی بمباری کے لیے تیار ہوگئے۔ غاصب صیہونی حکومت کی سفاکیت اور بربریت کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ خود غزہ کے بہادر اور شجاع عوام کا ہے، کیونکہ وہ اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ ایسی جنگوں کو دیکھ چکے ہیں۔ کچھ ذرائع ابلاغ سے غزہ کے عوام اور حماس کے مابین اختلافات کی خبریں بھی چلائی جا رہی ہیں، جس کا مقصد غزہ کی مزاحمت کو کمزور کرنا ہے۔ غزہ کے عوام اور حماس کے درمیان کوئی علیحدگی نہیں ہے، کیونکہ تمام لوگ خود کو حماس کا رکن سمجھتے ہیں اور اگر ضرورت پڑی تو وہ اسرائیلی فوج کے ساتھ حماس کے شانہ بشانہ لڑیں گے۔

آپریشن طوفان الاقصیٰ سے حاصل ہونے والے فوائد میں سے ایک فائدہ یہ بھی ہوا ہے کہ خفیہ فوجی دستاویزات اور فائلیں اسرائیلی جو بیرکوں پر قبضے کے بعد حاصل کی گئی ہیں، وہ فلسطینی مزاحمت کے پاس ہیں۔ آج غزہ کے لوگوں کا احساس یہ ہے کہ انہوں نے وہ کچھ کیا، جو مشرق وسطیٰ کی کوئی فوجی طاقت قابضین کے خلاف نہیں کر پائی تھی۔ اسرائیلی سکیورٹی اور ٹیکنالوجی کا بھرم خاک میں ملا دیا گیا ہے۔ قاسم بٹالین کے بانی رکن کہتے ہیں کہ ہمیں آئرن ڈوم سے گزرے کافی عرصہ ہوگیا ہے اور 7 اکتوبر سے لے کر آج تک حماس کے راکٹوں سے مقبوضہ علاقے میں 4000 پوائنٹس کو نشانہ بنایا گیا ہے اور آئرن ڈوم ان میں سے صرف 20 فیصد سے بھی کم کو روکنے میں کامیاب ہوسکا ہے۔

آپریشن طوفان الاقصیٰ کی تفصیلات اور کامیابیوں کا مشاہدہ کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ فلسطینی مزاحمت کے فائر کردہ راکٹوں کے نتیجے میں اشکیلون (عسقلان) قصبے میں 300 رہائشی زخمی یا ہلاک ہوئے ہیں، جبکہ بڑی تعداد ہجرت کر گئی ہے۔ غزہ کے لوگوں نے جو راستہ چنا ہے، وہ واپسی کا نہیں ہے اور انہوں نے عزت کے ساتھ زندگی گزارنے کا انتخاب کیا ہے۔ آپریشن طوفان الاقصیٰ کے نتیجہ میں فلسطینی مزاحمت نے غزہ کی پٹی سے 10,000 اسرائیلی افواج کو پیچھے ہٹا دیا ہے۔ اس آپریشن کا اصل ہدف دشمن کو ہونے والے دیگر تمام نقصانات کے ساتھ ساتھ صیہونیوں اور آبادکاروں کو ڈرانا اور انہیں یہ باور کرانا تھا کہ یہ ان کے رہنے کے لیے محفوظ جگہ نہیں ہے اور یہ سلسلہ مکمل آزادی تک جاری رہے گا۔

فلسطینی مزاحمت کے عظیم سپوت اور قسام بٹالین کے بانی رکن کہتے ہیں کہ ہمارے لوگ تجربہ کرچکے ہیں اور جانتے ہیں کہ 1948ء میں جبکہ ہم نے صیہونیوں کے خلاف (الاقصیٰ طوفان جیسا) کوئی پیشگی آپریشن نہیں کیا تھا، ہمارے 5000 لوگ مارے گئے تھے اور 20 لاکھ لوگ بے گھر ہوئے تھے۔ اس لیے ہمیں آپریشن طوفان الاقصیٰ پر پورا بھروسہ ہے۔ (یعنی جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ اسرائیل کی غزہ پر کئے جانے والے حملے حماس کے آپریشن کے جواب میں ہے، وہ غلطی پر ہیں)۔ الاقصیٰ طوفان آپریشن صہیونیوں کے خلاف لڑائی کا ایک حصہ ہے اور ان تحریکوں کو جاری رکھتے ہوئے اور پوری مزاحمتی تحریک کے ساتھ ہاتھ ملا کر ہم مستقبل میں بیت المقدس کو آزاد کرائیں گے۔ الاقصیٰ طوفان آپریشن کی وجہ سے نہ صرف غزہ بلکہ مغربی کنارے اور کیمپوں میں رہنے والے تمام فلسطینیوں کے لیے فخر اور فتح کا احساس پیدا ہوا ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button