اہم ترین خبریںایران

ایک منصفانہ عدالت کے ساتھ سابق امریکی صدر کے جرائم آگے بڑھيں گے، صدر ایران رئیسی

شیعیت نیوز: صدر ایران سید ابراہیم رئیسی نے بدھ کے روز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ستہترویں اجلاس سے خطاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم ایک منصفانہ عدالت کے ساتھ سابق امریکی صدر کے جرائم آگے بڑھيں گے۔

صدر ایران رئیسی نے جنرل اسمبلی میں اپنے خطاب کے دوران کہا کہ امریکہ کی مداخلت پسندانہ اور زور و زبردستی کی پالیسیوں کے مقابلے میں ایران نے بھرپور استقامت کا مظاہرہ کیا۔

انہوں نے دنیا کے زوال پذیر عالمی نظام، اس کے نقصانات اور خطرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مختلف مسائل جیسے دہشت گردی، انسانی حقوق اور ایک جیسے واقعات کے بارے میں امریکہ کے معیارات دوہرے ہیں۔

انہوں نے تقریر کے دوران شہید جنرل قاسم سلمیانی کی تصویر کو دکھاتے ہوئے کہا کہ دنیا کے دوسرے گوشے میں بسنے والی ایک حکومت نے علاقے کی جغرافیائي حيثيت کو تبدیل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا جسے شہید جنرل قاسم سلیمانی کی کمان میں ایرانی جوانوں نے ناکام بنا دیا۔

صدر ابراہیم رئیسی نے شہید لیفٹننٹ جنرل قاسم سلیمانی کی تصاویر دکھاتے ہوئے کہا کہ یہ وہ شخص ہے جس نے داعش کا خاتمہ کیا۔ انہوں نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو دہشت گردی کے خلاف لڑنے والے اس ایرانی ہیرو کی شہادت پر بین الاقوامی عدالت کے کٹہرے میں لاکھڑا کرنے کا مطالبہ کیا۔

یہ بھی پڑھیں : عراق کے شہر نجف اشرف میں صدام کے زمانے کی اجتماعی قبر دریافت

ان کا کہنا تھا کہ جنرل قاسم سلیمانی کو شہید کرنے کے سابق امریکی صدر ٹرمپ کے مجرمانہ اقدام کو منصفانہ عدالتی نظام میں اٹھا کر مجرم کو سزا دلانے کی کوشش جاری رکھیں گے۔

صدر ایران رئیسی نے کہا کہ ایران عالمی سطح پر عدل و انصاف کے قیام کی حمایت کرتا ہے کیونکہ انصاف سے اتحاد قائم ہوتا ہے اور ظلم سے جنگ کی آگ بھڑکتی ہے۔ ایران کے صدر نے کہا کہ ایرانی قوم کی عدل و انصاف کی بنیادیں قران کریم میں موجود ہیں جو یہ سبق دیتی ہیں کہ نہ تو ظالم بنو اور نہ ہی مظلوم بن کے رہو۔

انہوں نے دنیا کی بڑی طاقتوں سے استفسار کیا اگر تمہارے اندر عدل وانصاف لاگو کرنے کا پختہ ارادہ نہیں ہے تو پھر تم کیسے ظلم کے خلاف لڑ پاؤ گے؟ انہوں نے کہا کہ ہم اس انصاف و عدالت کے علمبردار ہیں جو ہر طرح اور ہر سطح پر ظلم کا انکار کرتا ہے، ہم دوسروں کے لئے وہی چاہتے ہیں جو اپنے لئے پسند کرتے ہیں اور دوسروں پر وہ نہیں تھونپتے جسے ہم خود پسند نہیں کرتے۔

امریکی پالیسیوں پر بھی انہوں نے شدید تنقید کی اور کہا کہ امریکہ نہيں چاہتا کہ دیگر ممالک بھی اپنے پیروں پر کھڑے ہوں۔ سید ابراہیم رئیسی نے کہا کہ دنیا کا موجودہ غیر منصفانہ نظام لوگوں کی نظر میں اپنی قانونی حیثیت کھو چکا ہے اور یہ زیادہ دیر تک چلنے والا نہیں ہے۔

انہوں نے آج کی دنیا کو ایک ایسی پرانی دنیا قرار دیا جس میں اخلاقیات و انصاف کی بجائے سرمائے کا تسلط ہے، جہاں غربت بڑھ رہی ہے اور بے انصافی عام ہو رہی ہے، ایک ایسی دنیا جس بین الاقوامی ادارے ایک اوزار کے طور پر دوسرے آزاد ممالک پر دباؤ ڈالنے کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں۔

صدر ایران رئیسی نے مزید کہا کہ دنیا کے اس طرح کے نظام کا زوال حتمی ہے۔ انہوں نے مغربی ایشیا، افغانستان سے لے کر عراق، لبنان، فلسطین اور ایران کو اس عالمی نظام کے زوال کا میوزیم قرار دیا اور کہا کہ مغربی دنیا اور اس کے تاناشاہ ناکام ہو گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں یقین ہے دنیا کے پرانے خطرات اور جدید چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لئے کثیرالجہتی ڈھانچے کے اتحاد اور تعاون کے علاوہ کوئی راستہ نہیں، جس کی بنیاد انصاف اور انبیاء کی تعلیمات سے ماخوذ اعلی اقدار اور اصولوں پر ہو۔

صدر ایران رئیسی نے کہا کہ تہران دنیا کے سبھی ملکوں خاص طور پر اپنے دوست اور ہمسایہ ملکوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ تعاون کرنا چاہتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ جنگ کسی بھی مسئلے کا حل نہيں ہے۔

صدر ایران رئیسی نےاسی طرح فلسطین کی صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ تاریخ نے فلسطینیوں سے زیادہ مظلوم قوم اور صیہونی حکومت سے زیادہ ظالم حکومت کہيں نہيں دیکھی ہے۔

انہوں نے فلسطین پر غاصب اسرائیل کے قبضے کو دنیا کی بے انصافی کی سب سے بڑی اورالمناک مثال قرار دیا اور کہا کہ اسرائیلی حکومت نے غزہ کی پٹی میں ناکہ بندی کرکے اس علاقے کو دنیا کی سب سے بڑی جیل بنا دیا ہے، صیہونی آبادکاروں کے لئے مکانات تعمیر کرنے کے لئے فلسطیینوں کے گھروں کی مسماری، فلسطینیوں کے قتل عام اور ان کے کھیتوں کی تباہی سات دہائیوں سے ایک ختم نہ ہونے والا ایک طویل سلسلہ ہے۔

ایرانی صدر نے کہا کہ ہمارا ملک ایک متحدہ فلسطین پر یقین رکھتا ہے، انہوں نے دنیا میں آزادی اور جمہوریت کا دعویٰ کرنے والی حکومتوں سے استفسار کیا کہ وہ فلسطینی مسئلہ کے حل کے لئے اسلامی جمہوریہ ایران کی طرف سے پیش کردہ واضح اور منصفانہ فارمولے سے کیوں بھاگ رہی ہیں، انہیں اس کو جواب دینا چاہیے۔ فلسطینی مسئلے کا حل تمام فلسطینیوں، مسلمان، عیسائی اور یہودی، کے ایک جامع ریفرینڈم کے انعقاد میں ہی ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button