اہم ترین خبریںیمن

یمن کے مختلف علاقوں پر جارح سعودی فوجی اتحاد کا حملہ، ایک شہید متعدد زخمی

شیعیت نیوز: یمن کے مختلف علاقوں میں جارح سعودی فوجی اتحاد کے حملے جاری ہیں۔ دوسری طرف یمن کی جانب سے حجاز کے جنوبی علاقے خميس مشيط میں واقع سعودی اہداف پر 1 خودکش ڈرون طیارے سے حملہ کیا ہے۔

المسیرہ ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سعودی اتحاد کے بمبار طیاروں نے یمن کے صوبے صعدہ کے الرقو علاقے پر بمباری کی جس کے نتیجے میں ایک یمنی شہید اور متعدد زخمی ہوئے۔ اس رپورٹ کے مطابق جارح سعودی اتحاد نے صوبہ مآرب کے صرواح، مدغل اور مجزر علاقوں کو بھی 9 بار حملوں کا نشانہ بنایا۔

درایں اثنا یمن کے فوجی ذرائع نے جارح سعودی فوجی اتحاد کی جانب سے الحدیدہ جنگ بندی کی خلاف ورزی جاری رہنے کی خبر دی ہے اور اعلان کیا ہے کہ گذشتہ چوبیس گھنٹے کے دوران جارح سعودی اتحاد نے اس صوبے کو 252 بار توپخانوں اور نیم بھاری ہتھیاروں سے نشانہ بنایا۔

اس رپورٹ کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران یمن کے صوبے الحدیدہ پر جارح سعودی اتحاد کےجنگی طیاروں اور ڈرون نے پروازیں کیں، توپوں کے گولے اور میزائل داغے اور بھاری اور ہلکے ہتھیاروں سے حملے کر کے جنگ بندی کی خلاف ورزی کی۔

یہ بھی پڑھیں : عراق میں داعش کے دہشت گردانہ منصوبے کو ناکام بناتے ہوئے متعدد راکٹ اور میزائل بر آمد

دوسری جانب امریکی میڈیا نے اعلان کیا ہے کہ یمنی مسلح افواج و عوامی مزاحمتی فورسز نے جارح سعودی فوجی اتحاد کے حساس اہداف پر اپنے خودکش ڈرون طیارے کی مدد سے حملہ کیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق اسکائی نیوز نے جارح سعودی فوجی اتحاد سے نقل کرتے ہوئے بتایا ہے کہ یمن کی جانب سے حجاز کے جنوبی علاقے خميس مشيط میں واقع سعودی اہداف پر 1 خودکش ڈرون طیارے سے حملہ کیا ہے جسے ہوا میں ہی نشانہ بنا کر تباہ کر دیا گیا۔

واضح رہے کہ جارح سعودی عرب کی جانب سے ایک طرف تو یمن سے جنگ بندی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے جبکہ دوسری جانب اس نے نہ صرف یمنی عوام کا سخت ترین سرحدی محاصرہ اور یمنی سرزمین کےایک بڑے حصے پر قبضہ کر رکھا ہے بلکہ اس کی جانب سے یمنی شہری آبادیوں پر بھی آئے روز وحشیانہ بمباری کی جاتی ہے ۔

واضح رہے کہ سعودی عرب اور اس کے بعض اتحادی ممالک، امریکہ اور دیگر مغربی ملکوں کی حمایت کے زیر سایہ مارچ دو ہزار پندرہ سے یمن پر وحشیانہ حملے کر رہے ہیں اس عرصے میں دسیوں ہزار یمنی شہری شہید و زخمی جبکہ دسیوں لاکھ یمنی بے سر و سامانی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button