ایران

بین الافغان مذاکرات ہی افغانستان کے بحران کا واحد حل ہے، رسول موسوی

شیعیت نیوز: جنوبی ایشیا کے امور میں ایران کی وزارت خارجہ کے ڈائریکٹر اور ایران کے نائب وزیر خارجہ سید رسول موسوی نے کہا ہے کہ افغانستان میں جتنے بھی مسائل و مشکلات جاری ہیں وہ اس ملک میں امریکہ کی فوجی موجودگی کی یقینی شکست کا نتیجہ ہیں۔

جنوبی ایشیا کے امور میں ایران کی وزارت خارجہ کے ڈائریکٹر اور ایرانی وزیر خارجہ کے معاون خصوصی سید رسول موسوی نے کہا ہے کہ امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف مہم کے بہانے افغانستان پر لشکر کشی کی اور بیس برس تک اس ملک میں ایک قابض کے طور پر موجود رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکہ نے افغانستان میں اپنے ناجائز قیام کے دوران مختلف طرح کی اسٹریٹیجی آزمائیں یہاں تک کہ اس ملک کو اپنے ہتھیاروں کے تجربات کے میدان میں تبدیل کر دیا، مگر پھر بھی ناکام رہا اور افغانستان میں اُس کا کوئی مستقبل نہ بن سکا۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان میں جب امریکہ کی شکست واضح ہو گئی تو اس نے اپنی اس شکست کو ایک طرح سے سیاسی ہتھکنڈے میں تبدیل کرنے کی کوشش کی، پھر افغانستان سے فوجی انخلا کا مسئلہ اٹھا دیا اور قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کا عمل شروع کر دیا اور خود کو نجات دلانے کی کوشش شروع کی۔

یہ بھی پڑھیں : فلسطینی مجاہد رہنما احمد جبریل کو سپردخاک کردیا گیا، حماس کا اظہار تعزیت

سید رسول موسوی نے افغانستان میں خانہ جنگی کی روک تھام کئے جانے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ افغان گروہوں میں آپس میں مذاکرات کے عمل کا جاری رہنا ضروری ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایران چار سال قبل افغان گروہوں میں مصالحت کار کا کردار ادا کرنا چاہتا تھا اور اس سلسلے میں قدم بھی اٹھایا مگر اس ملک میں امریکی اثر و رسوخ کی بنا پر بات آگے نہ بڑھ سکی۔

جنوبی ایشیا کے امور میں ایران کی وزارت خارجہ کے ڈائریکٹر نے کہا کہ اگر اس وقت ایران کو افغانستان میں مثبت کردار ادا کرنے دیا جاتا تو بہت سے واقعات جو پیش آئے وہ رونما ہی نہ ہوتے۔ انھوں نے کہا کہ امریکیوں نے افغانستان کے ساتھ اسٹریٹیجک اور سیکورٹی معاہدے کے باوجود اس ملک کے حکومت مخالف مسلح گروہ طالبان کے ساتھ قطر میں مذاکرات کئے اور اپنا یکطرفہ عمل جاری رکھا یہاں تک کہ افغانستان کو اس مرحلے میں پہنچا دیا کہ آج وہاں کے حالات عالمی برادری کے لئے باعث تشویش بنے ہوئے ہیں۔

ایرانی وزیر خارجہ کے معاون خصوصی نے کہا کہ افغانستان میں خود افغان گروہوں کے درمیان مذاکرات و گفتگو اور مفاہمت کی ضرورت ہے نہ یہ کہ کوئی بیرونی فریق، اس ملک کے کسی ایک گروہ کے ساتھ یکطرفہ طور پر مذاکرات کرے اور افغانستان کے مسائل کو مزید پیچیدہ بنا دے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button