دنیا

اپنی دفاعی صنعت پر کسی کی ڈکٹیشن قبول نہیں کریں گے، طیب اردوان

شیعیت نیوز: ترک صدر رجب طیب اردوان کا کہنا ہے کہ ترکی کسی صورت اپنی دفاعی صنعت پر کسی کی ڈکٹیشن قبول نہیں کرے گا۔

غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق ترک صدر نے کہا کہ صرف ترک قوم ہی اپنی دفاعی صنعت کے فیصلے از خود کرنے کی مجاز ہے، نیٹو کا ممبر ہونے کے باوجود نیٹو کے کسی دوسرے رکن کی دفاعی صنعت کے معاملات میں مداخلت کسی صورت قابل قبول نہیں ہے۔

رجب طیب اردگان کا مزید کہنا تھا کہ اپریل 2017 میں روس سے S-400 ایئر ڈیفنس سسٹم کی خریداری بھی ترکی کا اپنا فیصلہ تھا، اس معاملے میں امریکہ یا کسی دوسرے ملک کی ڈکٹیشن کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔

یہ بھی پڑھیں : امریکہ کے شکست خوردہ صدر ٹرمپ کو سزا دینا ضروری ہے،عراقی خارجہ تعلقات کمیٹی

انہوں نے مزید کہا کہ ترکی نے F-35 جنگی طیاروں کی خریداری کے لئے امریکہ کو بھاری رقم دی ہوئی ہے، اب امریکہ کا جنگی طیارے فروخت کرنے سے انکار ایک بڑی سنگین غلطی ہے۔

دوسری جانب ساڑھے تین سال کے نشیب و فراز کے بعد آخرکار قطر کے محاصرے کا معاملہ، محاصرہ کرنے والے ممالک یعنی سعودی عرب، بحرین، امارات اور مصر کی جانب سے سفید پرچم بلند کیے جانے کے بعد ختم ہو گيا۔

اب یہ چار اتحادی ممالک جو اپنے آپ کو شکست خوردہ دیکھ رہے ہیں، بری طرح سے ترکوں کی طرف دوڑ رہے ہیں اور ترکی سے زیادہ سے زیادہ قریب ہونے کے لیے اس کے دو حامیوں یعنی اخوان المسلمین اور وہابی و سلفی نظریات کے مخالفین کو گلے لگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان میں سے کوئي ملک اپنے وزیر خارجہ کو ترکوں کی دست بوسی کے لیے بھیج رہا ہے تو دوسرا ترکوں کے ساتھ کسی بھی قسم کے اختلاف کا انکار کر رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں : کراچی سے شام میں داعش کو بٹ کوائن سے فنڈنگ ہوتی ہے، گرفتار تکفیری وہابی طالبعلم کا انکشاف

سوال یہ ہے کہ ایک سابقہ اتحاد کے رکن یہ چاروں ملک کیوں ترکی کے قریب ہونے کے لیے ایک دوسرے سے مقابلہ آرائي کر رہے ہیں؟ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بنیادی طور پر یہ ممالک، اول تو کسی مشترکہ دشمن کے وجود کو اپنی حیات کا ضامن سمجھتے ہیں اور دوسرے یہ کہ کسی بڑے اور حامی ملک کے سائے کے بغیر ان میں خود اعتمادی کا احساس پیدا نہیں ہوتا۔

ظاہر سی بات ہے کہ اب کسی ٹرمپ کا وجود نہیں ہے جو ان ممالک کو اپنے سائے میں لے لے اور ان کی بھرپور حمایت کرے۔ دوسری طرف ٹرمپ کی بہت زیادہ کوشش کے باوجود اسرائیل بھی، ان کی جگہ نہیں لے سکا اور کل کے ان اتحادی مممالک کو متحد نہیں کر سکا۔ ان حالات میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر اپنے سر پر کوئي سایہ نہیں دیکھ رہے ہیں اور اسی سائے کی تلاش میں وہ شاید ترکی کی چھتری تک پہنچے ہیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button