مقالہ جات

استاد اور شاگرد کے قدیمی تعزیے || شیعیت نیوز اسپیشل رپورٹ

استاد پیر بخش نے 1810میں تعزیے کا کام شروع کیا گیا اور 1835ءمیں اسے مکمل کیا۔بعد از اسے ملتان میں زیارت کے لئیے رکھوایا گیا

شیعیت نیوز: ملتان میں تعزیہ داری کی تاریخ بہت قدیم ہے۔اور ملتان وہ واحد شہر ہے جہاں یوم عاشور پر ایک سو سے زائد تعزیوں کے ماتمی جلوس برآمد ہوتے ہیں ان سب تعزیوں میں بناوٹ اور تاریخی لحاظ سے استاد اور شاگرد کے تعزیے بین الاقوامی شہرت کے حامل ہیں۔ امیر تیمور کے دور میں شروع ہونے والی تعزیہ داری اپنی تاریخی روایات کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔

آغاز میں کھجور کی چھڑیوں اور بانسوں سے تعزیہ تیار کیا جاتا تھا ماتمی جلوس امام بارگاہوں تک محدود تھے۔ رفتہ رفتہ تعزیوں کی تیاری میں لکڑی‘ کاغذ اور دیگر اشیاءاستعمال ہونے لگیں۔ انگریز دور میں ہندووں کی جانب سے اس روایت کی مخالفت کی گئی تو شیعہ سنی متحد ہو گئے۔ انگریز حکومت نے 1845ءمیں تعزیوں کے لائسنس کے اجراءکے ساتھ ساتھ باقاعدہ روٹس متعین اور جلوس کے آغاز اور اختتام کے وقت مقرر کئے۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ حکومت شیعہ دشمنی پر اتر آئی، تکفیریوں کی ایماء پر 70 سالہ بزرگ عزادار کے گھر پر چھاپا،تین عزیزگرفتار

ہر تعزیہ ملتان دستکاری کا خوبصورت نمونہ ہے لیکن استاد اور شاگرد کے تعزیے تعزیہ داری کی تاریخ میں خاص مقام رکھتے ہیں۔کسی دور میں تعزیہ سازی میں چنیوٹ خاصا مشہور تھا یہاں کے چوب کار زیارتیں تیار کرتے تھے استاد پیر بخش اور شاگرد محکم الدین کا رشتہ بھی اسی کام کے دوران پختہ ہوا۔

استاد کا تعزیہ۔

استاد پیر بخش نے 1810میں تعزیے کا کام شروع کیا گیا اور 1835ءمیں اسے مکمل کیا۔بعد از اسے ملتان میں زیارت کے لئیے رکھوایا گیا۔یہ خالص ساگوان کی لکڑی سے تیار کیا گیا ہے۔بناوٹ کے لحاظ سے اس تعزیہ میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی صرف اوپر والی منزل کے جھروکوں کو نئے انداز میں ڈیزائن کیا گیا ہے۔ تعزیے کی اونچائی 27 فٹ اور چوڑائی 8 فٹ ہے۔ اس کی سات منزلیں 35 حصوں پر مشتمل ہیں۔اس کا وزن 70 من ہے۔اور اسے 50 آدمی مل کر بانسوں کی مدد سے اٹھاتے ہیں۔

شاگرد کا تعزیہ۔

شاگرد محکم الدین نے یہ تعزیہ اپنے استاد کے تعزیے کے کچھ عرصہ بعد تیار کیا۔ایک روایت کے مطابق شاگرد دن کو استاد کے ساتھ تعزیہ تیار کرتا اور رات کو اپنا تعزیہ تیار کرتا۔اس تعزیے کی پہلی زیارت بوسیدہ ہو گئی تو استاد علی احمد نے دوسری زیارت تیار کی وہ 1943 میں آگ لگنے سے خاکستر ہو گئی تو اس کا تیسرا اور موجودہ تعزیہ استاد عنایت چنیوٹی نے تیار کیا۔ پہلے دو تعزیے دستکاروں نے تیار کئے جبکہ موجودہ تعزیہ کی تیاری میں مشینی کام کا بہت عمل دخل ہے۔شاگرد کے تعزیے کی اونچائی تقریباً 25 فٹ اور چوڑائی 12 فٹ ہے۔ اس تعزیے کو ایک سو کے قریب عزادار مل کر اٹھاتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: وطن عزیز میں سعودی عرب کی ایما پر فرقہ وارانہ خانہ جنگی کروانے کی سازش کا انکشاف

تعزیوں کی بناوٹ میں چوب کاری کا فن نمایاں نظر آتا ہے جو خاصا محنت طلب ہے۔ دستکاروں نے نفاست‘ مہارت اور مذہبی عقیدت کے ساتھ لکڑی کے کٹ ورک سے شاہکار زیارتیں تخلیق کی ہیں۔ تعزیوں کو بغور دیکھیں تو اس کی ہر منزل‘ ہر کونہ اور گوشہ محرابوں‘ کھڑکیوں‘ کبڑوں اور آرائشی میٹریل سے مزین ہوتا ہے۔ نقش کاری‘ مینا کاری‘ شیشہ کاری میں اتنی مہارت دکھائی گئی ہے کہ دیکھنے والا دنگ رہ جاتا ہے۔ حضرت امام حسینؓ کے روضہ مبارک کی شبیہ کے طور پر سجائے گئے یہ استاد اور شاگرد کے تعزیے دستکاروں کی جادوئی انگلیوں کا کمال ہیں جن میں مذہبی عقیدت اور محنت کے رنگ نمایاں نظر آتے ہیں۔

تحقیق و تحریر : محمد ہمایوں ظفر

متعلقہ مضامین

Back to top button