اہم ترین خبریںایران

امام خمینی ؒکی اکتیسویں برسی پر رہبر معظم سید علی خامنہ ای کے خطاب سے اہم اقتباسات

شیعت نیوز: امام خمینی ؒ کی 31 برسی پر رہبرمعظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کے خطاب سے اہم اقتباسات درج ذیل ہیں ۔

(*) امام خمینی ؒ مختلف جہتوں کے مالک تھے۔ ان کی ایک اہم ترین خصوصیت تبدیلی اور تحول کا جذبہ تھی۔ وہ تبدیلی خواہ بھی تھے اور تبدیلی لائے بھی۔ انکا اس تبدیلی میں کردار صرف ایک استاد یا مدرس کی حیثیت نہیں رکھتا تھا۔ بلکہ وہ ایک کمانڈر کی طرح آپریشن میں موجود تھے اور ایک حقیقی رہبر کا کردار ادا کر رہے تھے۔

(*) امام خمینی ؒ کی تحریک سے قبل بھی مختلف تحریکیں اٹھیں لیکن اس کے مخاطب محدود تھے، ایک محدود گروہ یا خاص تعداد اس میں شامل تھی۔ لیکن امام خمینی ؒ نے جب علم بلند کیا تو مخاطب ایک دریا تھا، ملت ایران۔ دریا میں طوفان ایجاد کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ ایک سوئمنگ پول میں لہر کا ایجاد کرنا الگ مسئلہ ہے اور ایک دریا میں امواج کا پیدا کردینا ایک بہت بڑا کارنامہ ہے۔

(*) ایک اور تبدیلی جوامام خمینی ؒ نے ایجاد کی وہ لوگوں کی اپنی جانب اور معاشرے کی جانب نگاہ میں تبدیلی تھی۔ ایرانی قوم اپنی جانب ایک حقارت آمیز نگاہ سے دیکھتی تھی، یعنی یہ کہ یہ قوم سپر پاور اور دیگر قدرتوں کے مدمقابل کبھی غالب آئے گی کسی کے ذہن میں خطور بھی نہیں کرتا تھا۔ نہ صرف بیرونی طاقتوں کے مدمقابل بلکہ داخلی طاقتوں کے مدمقابل، فلاں ادارہ کے سربراہ کے مدمقابل بھی حقارت کا احساس کرتی تھی، قدرت کا احساس نہیں کرتی تھی، امام خمینی نے اسکو تبدیل کیا عزت اور اعتماد بنفس کے احساس میں۔

(*) ایک اور تبدیلی دین کی جانب نگاہ میں تبدیلی تھی۔ لوگ دین کو صرف اپنے انفرادی اور شخصی مسائل اور عبادی مسائل تک محدود سمجھتے تھے۔ یعنی صرف نماز، روزہ، شادی، طلاق بس یہیں تک۔ دین کی ذمہ داری کو انہی چیزوں تک محدود سمجھتے تھے۔امام خمینی ؒ نے دین کی رسالت اور ذمہ داری کا جو دائرہ بیان کیا وہ نظام بنانے، ایک تمدن تشکیل دینے، معاشرہ سازی، انسان سازی وغیرہ کو شامل کرتا تھا۔ لوگوں کی دین کی جانب نگاہ سرے سے تبدیل ہوگئی۔

(*) مسقتبل کی جانب نگاہ میں تبدیلی، اس زمانے میں جب تحریک کا آغاز ہوا اورامام خمینی ؒ میدان میں آئے، جتنے نعرے مختلف گروہ لگاتے تھے اس میں مستقبل کی جانب نگاہ نظر نہیں آتی تھی، یعنی لوگوں کے مدنظر مستقبل نہیں تھا۔ یہ تبدیل ہوگیا کس چیز میں ایک اسلامی جدید تمدن کی تشکیل میں۔ یعنی آج لوگ اس ہدف کی تعقب میں ہیں کہ ایک عظیم اسلامی اتحاد وجود میں آئے، امت اسلامی وجود میں آئے اور پھر اسلام کا عظیم تمدن ظاہر ہو۔

(*) ایک اور تبدیلی جوانوں کی جانب نگاہ میں تبدیلی تھی۔امام خمینی ؒ نے فکر اور عمل دونوں میدانوں میں جوانوں پر اعتماد کیا۔ یہ ایک حقیقی تبدیلی تھی۔ مثلا جب سپاہ پاسداران بنائی تو اسکی سربراہی کے لئے تیس سال یا اس سے بھی کم عمر کے جوانوں کا انتخاب کیا، ایک عجیب اعتماد تھا انکو جوانوں پر۔ البتہ اسکے ساتھ وہ ان افراد کی ظرفیت کا انکار نہیں کرتے تھے جو جوان نہ ہوں۔ آج جب میں جوانوں کو آگے لانے کی بات کرتا ہوں تو بعض افراد یہ تصور کرتے ہیں کہ بزرگوں کو بالکل کنارے لگانے کی بات ہے، نہیں، نہ ہی ا مام خمینی ؒ کی نظر یہ تھی۔ وہ جتنا جوانوں پر اعتماد کرتے تھے اتنا غیر جوانوں پر بھی اعتماد کرتے تھے۔

(*) ایک اور تبدیلی جو بہت سی دیگر تبدیلیوں سے زیادہ اہم ہے وہ سپر طاقتوں کی جانب نگاہ ہے۔ ایسا تصور بھی نہیں تھا کہ کوئی امریکی ارادوں کے برخلاف ارادہ کرے، فکر کرے اور قدم بڑھائے۔امام خمینی ؒ نے ایسا کام کیا کہ خود امریکی عہدیداروں نے یہ کہا کہ یہ ہماری تحقیر اور بے عزتی کررہے ہیں۔امام خمینی ؒ نے دکھایا کہ ان سپر طاقتوں پر وار کیا جاسکتا ہے، انکو شکست دی جاسکتی ہے، اور یہ دیکھنے میں بھی آیا۔ سویت یونین کا حشر کیا ہوا، آج امریکہ کہاں کھڑا ہے ان سب کو ملاحظہ کریں۔امام خمینی ؒ نے یہ باتیں اس وقت لوگوں کے دلوں میں ڈال دی تھیں کہ جب انکا تصور بھی نہیں تھا۔

(*) آج جو کچھ امریکی شہروں میں نظر آرہا ہے ایک حقیقت کا ظاہر ہونا ہے جو ہمیشہ چھپائی گئی ہے۔ یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ ایک پولیس والا جس خونسردی کا اظہار کرتے ہوئے اپنا گھٹنا ایک سیاہ فام کی گردن پر رکھ دیتا ہے اور اتنا دباتا ہے کہ وہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، التماس کرتا ہے مدد طلب کرتا ہے، کچھ دوسرے پولیس والے دیکھ رہے ہوتے ہیں لیکن کوئی کسی قسم کا اقدام نہیں کرتا، یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے یہ امریکی فطرت ہے۔ یہ وہی کام ہے جو امریکہ پوری دنیا کے ساتھ کرتا آرہا ہے، افغانستان، عراق اور شام کے ساتھ یہی کام کیا، اس سے قبل ویتنام اور کئی دیگر ملکوں کے ساتھ بھی۔ یہ امریکی اخلاق ہے، یہ وہاں کی حکومت کی فطرت ہے جس نے آج اس طرح خود کو ظاہر کیا۔ یہ جو لوگ کہہ رہے ہیں اور نعرے لگا رہے ہیں کہ ہمیں سانس لینے دو، ہم سانس نہیں لے پا رہے، یہ جو آج امریکی عوام کا نعرہ ہے جو مختلف شہروں میں لگایا جارہا ہے، یہ در حقیقت ان ملتوں کے دل کی آواز ہے کہ جہاں امریکیوں نے اپنے ظلم کو روا رکھا۔

 

متعلقہ مضامین

Back to top button