مقالہ جات

ڈاکٹر علی حیدر شہید اور مرتضیٰ شہید کی ساتویں برسی کے موقع پر ماضی کی کچھ یادداشتیں۔۔۔۔۔

ڈاکٹر صاحب کی والدہ کی بھی آنکھیں بھیگ گئیںاور انکو دیکھ کر اسد رضا اور عامر کاظمی سے بھی نہ رہا گیا،اب اس کمرے میں بالکل خاموشی سی چھا گئی

شیعت نیوز: اپنی تنظیم خیالِ نو Ideas9 کی جانب سے شہداء پاکستان کے نام پر شجر کاری مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا تو سب سے پہلے تنظیم کے ممبران نے مل کر فیصلہ کیا کہ ایک فہرست مرتب کی جائے کہ کن شخصیات کے نام کا پودا لگانا ہے۔پاکستان میں شہداء تو بہت سارے ہیں، بہت ساری بڑی شخصیات ہوئیں جنہوں نے ملک کے لئے بڑی گراں قدر خدمات انجام دیں، سبھی کے لئے علیحدہ علیحدہ پودا لگانا یا لگوانا ھمارے لئے ممکن نہ تھا،خیر ھم نے ناموں کی فہرست بنائی، جتنے ناموں کے پودے لگانے کا سوچا تھا فہرست اس سے دگنے ناموں کی بنی، اور ابھی بھی سبھی کے دل میں کسک رہی کے کاش فلاں نام بھی شامل ہو جاتا، فلاں نام بھی شامل ہو جاتا۔جب ناموں کی فہرست مرتب کی گئی تو جو نام پہلے زہن میں آئے ان میں شہید ڈاکٹر علی حیدر اور انکے نو سالہ بیٹے مرتضیٰ کا بھی تھا،ناموں کی فہرست تیار ہونے کے بعد اب مرحلہ تھا کہ یہ طے کیا جائے کہ کس شہید کے نام کا پودا کونسی شخصیت لگائے گی، تو سبھی نے اس بات پر متفق ہوئے کے شہید ڈاکٹر علی حیدر صاحب کی والدہ سے بہتر کون ہو سکتا ہے اس کام کے لئے، اب اگلا کام تھا کہ کوئی ریفرنس یا رابطہ ڈھونڈا جائے جو ھماری ان سے ملاقات کروائے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکہ، انڈیا اور اسرائیل گٹھ جوڑ پاکستان کے خلاف کام کر رہاہے، مخدوم جاوید ہاشمی

ایسے میں ھماری تنظیم کے بہت اھم رکن عامر کاظمی نے خوشخبری سنائی کہ وہ ڈاکٹر صاحب کی والدہ سے ملنے کا وقت طے کروا چکے ہیں، اب بس جا کر کسی طرح انہیں منانا ہے کہ وہ اس کام کے لئے کچھ وقت نکال سکیں،مقررہ دن اور وقت پر میں اور اسد رضا ،عامر کاظمی کے ہمراہ شہید ڈاکٹر علی حیدر صاحب کی رہائش گاہ کی طرف نکلے، تو سارے راستے ملکی سیاست پر بحث مباحثہ چلتا رہا،وقت گزرنے کا احساس بھی نہ ہوا اور ھم ڈاکٹر صاحب کی رہائش گاہ پر پہنچ بھی گئے ،دروازے پر انکے گھر کی گھنٹی بجانے سے پہلے ھم تینوں میں یہ طے پایا کہ عامر کاظمی ھمارا تعارف کروائیں گے اور اسکے بعد ساری بات مجھے کرنا ہو گی، اور اسد اس میں معاونت کریں گے۔

گھنٹی بجائی، انکا گارڈ باہر آیا، ھم نے اپنا تعارف کروایا اور خوش گپیاں لگاتے گارڈ کے ساتھ گھر میں داخل ہوئے،ھمیں ایک کمرے میں بٹھایا گیا کہ یہاں بیٹھ کر انتظار کریں، کمرے کی بناوٹ اور سامان سے معلوم پڑتا تھا کہ یہ شاید study room ہو ،کمرے کے ایک طرف کتابوں سے بھری الماری تھی تو کمرے کی دوسری طرف ایک سٹڈی ٹیبل جس پر کہ سٹڈی لیمپ نصب تھا ،ساتھ ایک کرسی رکھی تھی، اور اس کے ساتھ دیوار پر بہت سے چھوٹے بڑے لکڑی کے فریم نصب تھے، اور ان سے دیوار بھری ہوئی تھی، غور کیا تو ان تمام فریموں شہید ڈاکٹر علی حیدر اور انکے شہید بیٹے مرتضیٰ کی تصاویر تھیں، یہ دیکھ کر دل کی کیفیت بدلنے لگی، باہر سے جو ھم۔

یہ بھی پڑھیں: ایس یو سی لاہور کی تنظیم سازی ،ملک شوکت علی اعوان صدر اور جعفر علی شاہ جنرل سیکرٹری منتخب ہوگئے

چہکتے خوش گپیاں لگاتے اس کمرے میں داخل ہوئے تھے، لیکن اب ھم. تینوں پر جیسے سکتہ طاری تھا،اتنے میں ڈاکٹر صاحب کی والدہ کمرے میں داخل ہوئیں، سلام دعا، حال احوال کے بعد عامر کاظمی نے سب کا تعارف کروایا اور اسکے بعد میری طرف اشارہ کیا کہ اب ھاشمی صاحب ھمارے آنے کی وجہ بتائیں گے،عامر کاظمی کا اتنا کہنا تھا کہ میں جیسے بالکل Blank ہو گیا، جو الفاظ سوچے تھے وہ سبھی جیسے کسی نے دماغ کی تختی سے مٹا دیے ہوں،کیونکہ جب میں نے یہ سوچا کہ ابھی میں ایک ماں سے کہنے والا ہوں ھم چاہتے ہیں کہ ھم. اپنی شجر کاری مہم میں آپکے بے جرم خطا قتل ہونے والے بیٹے اور پوتے کے نام پودا لگانا چاہتے ہیں، اس ماں نے کتنی مشکل سے خود کو اب تک سنبھالا ہو گا، کیسے کہہ دوں………

خیر کسی طرح لفظ اکھٹے کئے اور کہا کہ ” ھم شجر کاری کی مہم شروع کرنے والے ہیں شہداء کے نام کے پودے لگائیں گے اور ھم چاہتے ہیں کہ ڈاکٹر علی حیدر………..”ابھی یہاں تک ہی پہنچا تھا کہ نجانے کیسے میرے ضبط کا پیمانہ لبریز ہوا آنکھوں سے آنسو چھلکنے لگے, اور ہچکی سی بندھ گئی، کئی بار کوشش کی کہ جملہ پورا کر سکوں لیکن ڈاکٹر علی حیدر کے نام سے آگے نہ بڑھ سکا،ایسے میں ڈاکٹر صاحب کی والدہ کی بھی آنکھیں بھیگ گئیںاور انکو دیکھ کر اسد رضا اور عامر کاظمی سے بھی نہ رہا گیا،اب اس کمرے میں بالکل خاموشی سی چھا گئی، اتنی خاموشی کہ کمرے میں سسکی کی بھی گونج سنائی دیتی۔

یہ بھی پڑھیں: سعودی ولی عہد بن سلمان کا عمران خان سے وفاقی وزیر علی زیدی کو برطرف کرنے کا مطالبہ

آنسوؤں کی رم جھم جاری تھی،کہ ڈاکٹر صاحب کی والدہ نے ھماری طرف ٹشو کا ڈبہ بڑھایا اور اب کی بار میرے جملے کے مکمل ہونے کا انتظار کئے بغیر بولیں کہ” بیٹا آ جاؤں گی، جہاں کہو گے، جب کہو گے آ جاؤں گی
"ھم نے شکریہ ادا کیا اور جانے کی اجازت چاہی،ھم کمرے سے نکلنے لگے تو شہید ڈاکٹر علی حیدر کی والدہ نے اچانک بھرائی سی نخیف آواز میں کہا: ” بیٹا ہو سکے تو ایک پودا میرے مرتضیٰ کے نام کا بھی لگا دینا”ان کا اتنا کہنا تھا کہ ذہن فوراً کربلا سے متصل ہوا، کربلا والوں میں سے بھی جنابِ ام البنین سے کہ جنکے چار بیٹوں کے ساتھ ساتھ پوتے بھی کربلا میں شہید ہوئے……….

متعلقہ مضامین

Back to top button