اہم ترین خبریںپاکستان

سال 2019، ملک بھرمیں دہشتگردی میں 31فیصدکمی واقع ہوئی، داعش تاحال بڑاخطرہ

رپورٹ کے مطابق 2018 میں دہشت گردی کے 262 واقعات رونما ہوئے تھے جن کے مقابلے میں سال 2019 میں حملوں کی تعداد میں 13 فیصد کمی ہوئی ہے۔

شیعت نیوز: اسلام آباد پالیسی انسٹیٹیوٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سال 2019 کے دوران دہشت گردی میں کمی دیکھنے میں آئی اور دہشت گرادنہ حملوں اور انسداد میں ہلاکتوں کی تعداد میں 31 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ تحریک طالبان پاکستان کمزور ہونے کے باوجود داخلی امن کے لئے بڑا خطرہ ہے جبکہ داعش نے بھی اپنا وجود برقرار رکھا ہوا ہے۔ تحریک طالبان پاکستان پاکستان میں امن و استحکام کے لئے ابھی بھی بڑا خطرہ ہے اور سال 2019 میں ملک میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں میں سے 36 فیصد کی ذمہ داری طالبان نے قبول کی ہے۔

سالانہ رپورٹ میں مزید بتایا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان اور اس سے وابستہ گروہوں نے سال 2019 میں ہونے والے دہشتگردی کے اکثر واقعات 68فیصد کی ذمہ داری قبول کی، ان کے بعد دوسرے نمبر پہ دہشتگردی کے واقعات میں علیحدگی پسند تحریکیں ملوث رہیں۔اسلام آباد پالیسی انسٹیٹیوٹ کی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ گزشتہ برس ملک میں مجموعی اعتبار سے امن و عامہ کی صورتحال قدرے بہتر رہی۔

یہ بھی پڑھیں: امریکہ نے پھر عراق کی خود مختاری کو چیلنج کیا ہے، حشدشعبی عراق کا مضبوط دفاع ہے، علامہ راجہ ناصرعباس

سال 2019 میں ملک بھر میں دہشتگردی کے 230 واقعات رپورٹ کئے گئے جن میں 318 افراد ہلاک جبکہ 720 زخمی ہوئے۔ 2018 کے مقابلے میں سال بھر میں ہونے والے حملوں میں مجموعی طور پر 13 فیصد تک کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق 2018 میں دہشت گردی کے 262 واقعات رونما ہوئے تھے جن کے مقابلے میں سال 2019 میں حملوں کی تعداد میں 13 فیصد کمی ہوئی ہے۔

دہشت گردانہ حملوں میں کمی کے نتیجے میں ہونے والی اموات کی تعداد میں 46 فیصد کمی اور زخمیوں کی تعداد میں 30 فیصد کمی دیکھنے میں آئی۔ سال بھر میں ہونے والے حملوں میں عام شہریوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی ہلاکت کی تعداد تقریبا ایک جیسی ہے جو بل ترتیب 160 اور 158 ہے۔ خیال رہے کہ سال 2018 میں ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں 46 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی تھی تاہم اس کے باوجود پاکستان دہشت گردی سے زیادہ متاثرہ ممالک میں پانچویں درجے پر تھا۔

یہ بھی پڑھیں: نائجیریا کی ظالم و جابر حکومت شیخ زکزاکی اور انکے ساتھیوں پر ظلم کے پہاڑ ڈھا رہی ہے، قاضی نیاز حسین نقوی

سال گذشتہ میں خودکش حملوں کی تعداد بھی کمی ہوئی ہے اور جنوری میں لورالائی، اپریل میں کوئٹہ، مئی میں لاہور اور جولائی میں ڈیرہ اسماعیل خان میں خود کش حملے ہوئے۔ سال بھر میں ہونے والے چار خود کش حملوں میں سے دو کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان جبکہ حزب الاحرار اور داعش و لشکر جھنگوی کے اتحاد نے ایک ایک حملے کی ذمہ داری قبول کی۔ سال 2018 میں گیارہ خود کش حملے ہوئے تھے۔

2018 کی طرح دہشتگردی کے زیادہ تر واقعات خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں ہوئے جو کہ بلترتیب 124 اور 84 ہیں جبکہ سندھ میں 15 اور پنجاب میں 6 حملے ہوئے۔ بلوچستان میں دہشت گرد حملوں میں 26 فیصد کمی دیکھی گئی ہے، پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں حملوں کی تعداد گذشتہ سال جیسی ہی ہے اور پریشان کن طور پر سندھ میں حملوں میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: غیور عراقی عوام کا حشدالشعبی کے مراکز پر حملوں کے خلاف امریکی سفارتخانے پر حملہ

اسلام آباد امن و امان کے حوالے سے محفوظ ترین شہر رہا جہاں سال بھر میں دہشتگردی کا صرف ایک واقعہ رونما ہوا۔ 2019 میں ہونے والے دہشت گردی کے کل 230 واقعات میں سے 130 تحریک طالبان پاکستان، حزب الاحرار، جماعت الاحرار، داعش اور دیگر مذہبی انتہا پسند تنظیموں کی جانب سے کئے گئے جو کہ کل دہشت گردانہ حملوں کا 56 فیصد ہے۔ قوم پرست مسلح گروہوں کی جانب سے 59 حملے کئے گئے جو کہ دہشت گردی کا 25 فیصد ہے۔ 6 فیصد سے زائد حملے فرقہ وارانہ بنیاد پر کئے گئے جبکہ 26 واقعات کی ذمہ داری کسی گروہ نے قبول نہیں کی۔

رپورٹ کے مطابق اگرچہ ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں بتدریج کمی واقع ہوئی ہے تاہم تحریک طالبان پاکستان، اس سے وابستہ مذہبی انتہا پسد گروہ مہلک خطرہ بنے رہے۔رپورٹ میں کالعدم جماعتوں کی سرگرمیوں پر پابندی نہ لگائے جانے تحریک طالبان کمزور ہونے کے باوجود داخلی امن کے لئے بڑا خطرہ ہے، ٹی ٹی پی ابھی بھی پاکستان میں امن و استحکام کے لئے بڑا خطرہ ہے اور سال 2019 میں ملک میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں میں 35/36 فیصد کی ذمہ داری طالبان نے قبول کی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: عراق پر امریکہ کی فوجی یلغار دہشت گردی کا آشکارا مصداق ہے ، ترجمان ایرانی وزارت خارجہ

خیبر پختونخوا اور سابقہ قبائلی اضلاع میں دہشت گردی کے زیادہ تر واقعات تحریک طالبان نے کئے ہیں، اس کے علاوہ طالبان نے اب شمالی وزیرستان سے نکل کر جنوبی وزیرستان اور بلوچستان کے علاقوں ذوب اور لورالئی میں بھی قدم جما لئے ہیں پاکستان میں دہشت گردی کا خطرہ نئی شکل اختیار کررہا ہے، اور بلوچ قوم پرست مسلح گروپ اور مذہبی انتہا پسند 2020 میں ملک کے امن کے لئے بڑا خطرہ ہوگا۔ جو کہ دہشت گردی سے نمٹنے والے اداروں کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔

2019 میں بلوچ علیحدگی پسند گروہوں کے خلاف کاروائیوں کے نتیجے میں وہ کمزور ہوئے ہیں جس کے بعد بلوچ قوم پرست گروپوں نے اپنا عسکری اتحادبنایا ہے۔ اس نئے مسلح اتحاد نے فروری میں ایف سی اور اپریل میں اومارا میں نیوی کے اہلکاروں پر حملہ کیا۔ اس قوم پرست مسلح اتحاد کا ہدف بلوچستان میں سیکورٹی اہلکار اور سی پیک کے جاری منصوبے ہیں۔ انتہا پسندانہ سوچ کے خلاف عملی اقدامات نہیں اٹھائے،داعش نے اس سال پاکستان کے لئے نیا صوبہ قائم کرنے کا اعلان کیا ، وجود برقرار رکھا۔

متعلقہ مضامین

Back to top button