پاکستان

الیکشن 2018ء، تکفیری امیدواروں کو کلیئرنس کیسے ملی؟

تحریر: ابوفجر لاہوری

الیکشن 2018ء کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کی جانب سے انتخابی مہم جاری ہے۔ انتخابی مہم میں وہ تیزی دکھائی نہیں دے رہی جو ہونی چاہیئے تھی، تاہم واقفان حال اور سینیئر سیاسی مبصرین کہتے ہیں کہ الیکشن بروقت ہوتے دکھائی نہیں دے رہے۔ یہ انتخابات دو ماہ یا اس سے تھوڑا کم عرصے کیلئے التواء کا شکار ہوسکتے ہیں۔ پنجاب میں الیکشن کمیشن کی جانب سے کاغذات نامزدگی پر اعتراضات کے حوالے سے مقررہ تاریخ گزر چکی ہے۔ اس حوالے سے حیرت انگیز صورتحال یہ ہے کہ الیکشن 2018ء میں جہاں سیاسی جماعتیں میدان میں اتری ہیں، وہاں مذہبی جماعتیں بھی بھرپور جدوجہد کر رہی ہیں کہ وہ بھی پارلیمنٹ میں داخل ہونے میں کامیاب ہو ہی جائیں، جبکہ معتدل مذہبی جماعتوں کیساتھ تکفیری گروہ بھی سرگرم ہے۔ مذہبی جماعتوں کی بات کی جائے تو اس حوالے سے 5 جماعتی مذہبی اتحاد ’’متحدہ مجلس عمل‘‘ بھی میدان میں اُتر چکی ہے، جبکہ ملی مسلم لیگ رجسٹرڈ نہ ہونے سے دوسرے پلیٹ فارم سے الیکشن میں حصہ لے رہی ہے۔ اسی طرح تحریک لبیک کے دونوں دھڑے بھی الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ ایک دھڑے کی قیادت خادم حسین رضوی جبکہ دوسرے کی آصف اشرف جلالی کر رہے ہیں۔ سنی تحریک نے بھی اپنے طور پر اپنے امیدوار میدان میں اُتارے ہیں، سنی اتحاد کونسل بھی میدان میں ہے جبکہ مجلس وحدت مسلمین نے اپنے امیدواروں کو اختیار دیدیا ہے کہ مقامی سطح پر صورتحال دیکھ کر کسی بھی بڑی سیاسی جماعت کیساتھ الحاق کر لیا جائے۔ البتہ ایم ڈبلیو ایم کی قیادت نے مسلم لیگ (ن) کیساتھ اتحاد نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے۔ ادھر پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری الیکشن کا بائیکاٹ کرکے ملک سے باہر جا چکے ہیں۔ جمعیت علمائے پاکستان (نیازی) نے بھی الیکشن کا بائیکاٹ کر رکھا ہے۔

اس الیکشن میں حیرتناک بات یہ ہے کہ معتدل مذہبی جماعتوں کیساتھ ساتھ کالعدم جماعتیں بھی میدان میں اُتر آئی ہیں۔ یہاں یہ بہت بڑا سوالیہ نشان ہے کہ کالعدم جماعتوں کے ان تکفیری لیڈروں کو کس قوت نے کلیئر کروایا ہے۔ الیکشن ایپلٹ ٹربیونل نے کالعدم سپاہ صحابہ جو اس وقت اہلسنت والجماعت کے نام سے کام کر رہی ہے، کے سربراہ مولانا احمد لدھیانوی کو الیکشن لڑنے کیلئے اہل قرار دے دیا ہے۔ مولانا لدھیانوی کے کاغذات نامزدگی اعتراضات کے باعث ریٹرننگ افسر نے قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ مولانا لدھیانوی نے الیکشن اپیلٹ ٹربیونل سے رجوع کیا۔ الیکشن ٹربیونل نے 25 جون کو الیکشن کمیشن اور ریٹرننگ افسر کو طلب کیا۔ فریقین کے دلائل سننے کے بعد احمد لدھیانوی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا گیا۔ 2 دن فیصلہ محفوظ رکھنے کے بعد آج (27 جون) کو ایپلٹ ٹربیونل نے فیصلہ سنا دیا، جس میں مولانا احمد لدھیانوی کو الیکشن میں حصہ لینے کیلئے گرین سگنل دیدیا گیا۔ مولانا احمد لدھیانوی کیخلاف اعتراضات یہ لگائے گئے تھے کہ وہ تکفیری گروہ کے سربراہ ہیں، ان کا نام فورتھ شیڈول میں شامل ہے جبکہ ان کیخلاف مذہبی منافرت پھیلانے، قتل، اقدام قتل سمیت دیگر سنگین جرائم کے مقدمات درج ہیں۔

مولانا لدھیانوی پر عائد کئے گئے اعتراض میں یہ الزامات آن ریکارڈ تھے، مگر اچانک ’’خفیہ ہاتھ‘‘ حرکت میں آگیا اور ان کے کاغذات نامزدگی کلیئر قرار دے دیئے گئے۔ مولانا لدھیانوی کا نام بھی فورتھ شیڈول سے اچانک ختم ہوگیا اور ان کیخلاف درج کئے گئے مقدمات بھی ایک دم غائب ہوگئے۔ اسی طرح جھنگ سے ہی پی حلقے کے امیدوار مولانا مسرور نواز جھنگوی کو بھی الیکشن ٹربیونل نے گذشتہ روز کلیئر قرار دیدیا تھا۔ مسرور نواز جھنگوی کیخلاف بھی وہی اعتراضات عائد کئے گئے تھے جو احمد لدھیانوی پر عائد کئے گئے ہیں، مگر اطلاعات کے مطابق مولانا مسرور نواز جھنگوی کا نام فورتھ شیڈول سے اُس وقت نکالا گیا تھا، جب وہ صوبائی اسمبلی کا الیکشن جیت کر پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوگئے تھے اور ایم پی اے بنتے ہی انہوں نے کالعدم سپاہ صحابہ سے لاتعلقی کا اعلان کرکے جے یو آئی (ف) جوائن کر لی تھی۔ جے یو آئی کا رکن بننے پر مولانا فضل الرحمان جو حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے اتحادی تھے، نے شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ کی ’’مہربانی‘‘ سے مسرور نواز جھنگوی کا نام فورتھ شیڈول سے نکلوا دیا تھا۔ اسی طرح مسرور جھنگوی سمیت سپاہ صحابہ کے جتنے رہنماؤں کیخلاف مقدمات درج تھے، وہ بھی کلیئر کروا دیئے تھے۔ اب تمام تکفیری رہنما دودھ کے دھلے بن چکے ہیں اور الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔

کراچی سے کالعدم سپاہ صحابہ کے رہنما اورنگزیب فاروقی کو بھی کلیئرنس مل چکی ہے۔ وہ بھی الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ اسی طرح جھنگ سے ہی امیر معاویہ بھی الیکشن لڑ رہے ہیں۔ کالعدم سپاہ صحابہ کے تکفیری لیڈروں کو ایک تسلسل کیساتھ کلیئرنس ملی ہے۔ جس سے محسوس یہ ہو رہا ہے کہ کسی خفیہ ہاتھ نے ان کی مدد کی ہے۔ پاکستان میں کچھ بھی ممکن ہے۔ ماضی میں جن قوتوں نے انہیں استعمال کیا اور پاکستان میں خانہ جنگی کو فروغ دیا۔ لگتا ہے وہی بیرونی قوتیں ایک بار پھر فعال ہوئی ہیں اور انہوں نے اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے انہیں کلیئر کروایا ہے۔ تکفیری لیڈر الیکشن کیلئے تو خفیہ ہاتھ کی سفارش پر اہل ہوگئے ہیں، لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ عوامی سطح پر انہیں ووٹ ملتے ہیں یا مسترد کر دیئے جاتے ہیں۔ جھنگ سے مسلم لیگ (ن) کا صفایا ہوچکا ہے۔ مسلم لیگ (ن) جھنگ میں کالعدم سپاہ صحابہ (اہلسنت والجماعت) کی اتحادی اور حامی تھی۔ واقفان حال کہتے ہیں کہ گذشتہ الیکشن میں مسرور جھنگوی کی فتح میں بھی سابق وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ کا ہاتھ تھا۔ تاہم رانا ثناء اللہ نے ہمیشہ اس کی تردید کی ہے۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کے سپاہ صحابہ کی جانب جھکاؤ کے باعث جھنگ میں صورتحال تبدیل ہوئی ہے۔ بہت سے پرانے لیگی رہنما اب پی ٹی آئی کی کشتی پر سوار ہوچکے ہیں یا آزاد حیثیت سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔

کالعدم سپاہ صحابہ کے سیاسی میدان میں اترنے والے تکفیری رہنماؤں کے حوالے سے یہ بھی خبر ہے کہ ان کے ’’خفیہ سرپرستوں‘‘ نے انہیں آخری موقع دیا ہے۔ غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق انہیں کہا گیا ہے کہ ان کیلئے یہ آخری موقع ہے، ان کو سیاسی دھارے میں لانے میں ان کی مدد کی جا رہی ہے، اس سے آگے انہوں نے خود اپنی تکفیری پالیسی ترک کرکے اپنا قد کاٹھ خود بنانا ہے۔ تکفیری جماعت کے یہ رہنما اگر الیکشن جیت جاتے ہیں تو کیا پارلیمنٹ میں پہنچ کر یہ امن کی بات کریں گے؟؟ ایسا ظاہری طور پر تو ممکن دکھائی نہیں دے رہا، کیونکہ جن قوتوں نے انہیں ’’تخلیق‘‘ کیا تھا، ان کیلئے اِن کا ایک ہی مقصد تھا اور وہ تھا، مخالف فرقے کی تکفیر اور ملک میں فرقہ واریت کی آگ بھڑکانا۔ یہ لوگ اس کام میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ مولانا لدھیانوی ایک عام سے حکیم کے مطب سے اُٹھ کر ایک جماعت کے سربراہ بن گئے۔ تو اس کے پیچھے مقاصد تھے۔ ورنہ کمالیہ شہر میں وہ چھوٹا سا مطب آج بھی موجود ہے، جسے احمد لدھیانوی چلایا کرتے تھے۔ خفیہ قوتوں نے شفا کی پڑیا تقسیم کرنیوالے حکیم کو زہر کی گولیاں بانٹنے پر لگا دیا۔ اب وہ کس طرح اس ڈگر کو چھوڑے سکتے ہیں۔؟ ان کا پارلیمنٹ میں پہنچنا ملک کی سلامتی کیلئے خطرناک ہوسکتا ہے، مفید نہیں۔ جو قوتیں ان کی سرپرستی کر رہی ہیں، وہ پاکستان کی پہلے خیر خواہ تھیں نہ اب ہیں، اس لئے عوام کو ہی سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا ہوگا اور ان تکفیریوں سے پارلیمنٹ کو بچانا ہوگا۔ ورنہ مسجد کے منبر سے اُگلی جانیوالی آگ اگر پارلیمنٹ میں پہنچتی ہے اور وہاں سے نکلتی ہے تو سب کچھ راکھ کر دے گی۔

دوسری جانب تکفیری رہنماؤں کو کلیئرنس ملنے سے مخالف فرقہ کے رہنماؤں میں بھی تشویش پائی جا رہی ہے، لیکن ان کی جانب سے واضح ردعمل ابھی تک سامنے نہیں آیا۔ ممکن ہے مخالف فریق کے قائدین اس حوالے سے کوئی اپنی حکمت عملی تیار کر رہے ہوں اور ابھی موقع بھی ہے کہ الیکشن میں ان کیخلاف زمینہ سازی سے ان کو پارلیمنٹ میں جانے سے روکا جا سکتا ہے۔ عوام میں یہ شعور بیدار کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ وہ ایسے لوگوں کو ووٹ نہ دیں، جو ملکی سلامتی کیلئے خطرے کا باعث بن سکتے ہیں۔ ملک کے امن کی کنجی اب عوام کے ہاتھ میں ہے۔ الیکشن میں وہ ایسے امیدواروں کا انتخاب کریں جو معتدل اور تمام مکاتب فکر کیلئے قابل قبول ہوں۔ ایسے لوگ جو فرقہ واریت یا دہشتگردی میں ملوث رہے ہوں، ان کو زمام اقتدار دینا ’’بندر کو ماچس‘‘ دینے کے مترادف ہے، جس سے جنگل میں آگ ہی لگے گی، امن کے پھول نہیں کھلیں گے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button