پاکستان

احسان اللہ احسان کو گناہوں کی سزا ملے گی یا معافی؟

شیعیت نیوز: طالبان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کے سرنڈر اور اس کے بعد ویڈیو پر اعترافی بیان میں بھارتی اور افغان جاسوس اداروں کے ساتھ طالبان کے گٹھ جوڑ کے حوالے سے ہوشربا انکشافات کے بعد اس عسکریت پسند کی قسمت کے ممکنہ فیصلے کے بارے میں قومی میڈیا پر کچھ چہ میگوئیاں سننے میں آرہی ہیں۔ بہت سالوں تک پاکستان کی گلیوں میں بے گناہ لوگوں کے خون کی ندیاں بہانے کے باوجود اب احسان اللہ احسان جس کا اصل نام لیاقت علی ہے، کہتا ہے کہ پاکستان کے خلاف بھارت سے امداد حاصل کرنے پر اس کا طالبان قیادت سے جھگڑا ہوا۔

قابل غور امر یہ ہے کہ 17 اپریل 2017ء کو دوحا میں سرکاری اعانت سے چلنے والے ادارے’’ الجزیرہ‘‘ نے ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کے حوالے سے بتایا کہ ان کا کہنا ہے کہ ’’ اگر ایک شخص جو غلط کام کررہا ہے یہ محسوس کرتا ہے کہ وہ غلط راستے پر ہے تو اسے چاہئے کہ وہ اچھائی کے راستے پر واپس آجائے، میرے خیال میں ریاست کی اس اس سے بڑی کامیابی کوئی اور نہیں ہوسکتی‘‘۔’’الجزیرہ‘‘ نے میجر جنرل آصف غفورکے حوالے سے مزید بتایا کہ گزشتہ سال فروری میں انسداد دہشتگردی آپریشن ملک بھر میں شروع کئے جانے کے بعد سے اب تک پاک فوج نے کم ازکم 108 مشتبہ ہلاک اور کم ازکم 4510 گرفتار کئے جبکہ اس کارروائی کے نتیجے میں 558 کے لگ بھگ مشتبہ دہشتگردوں نے ہتھیار ڈالے۔

احسان اللہ احسان کے قابل قدر اعتراف اور اس بروقت گواہی کے بعد،کہ طالبان قیادت کے بھارتی انٹیلی جنس ادارے ’’را‘‘ سے تعلقات ہیں جو طالبان کو مالی امداد دیتا اور حتیٰ کہ کالعدم عسکری گروپ کو قتل عام کے اہداف بھی دیتا ہے ، اب یہ اہم سوال اٹھتا ہے کہ کیا اسے معافی دی جائے گی یا اسے قانون کے مطابق اس کے گناہوں کی سزا ملے گی؟ یہ کہے بغیر نہیں رہا جاسکتا کہ اگراحسان اللہ احسان کو اس کی مقررہ سزا دے دی جاتی ہے تو آئندہ کوئی عسکریت پسند اپنے آپ کو ملک کی سکیورٹی فورسز کے حوالے نہیں کرے گا اور اگر اسے معافی دی جاتی ہے تو موجودہ حکومت اور فوجی قیادت پر گلا پھاڑ پھاڑ کر تنقید کی جائے گی اور ناقدین اس معافی کی مذمت کریں گے اور اسی طرح اسے افسوسناک قرار دینگے جس طرح اگست 1999ء میں اس وقت کے امریکی صدر کلنٹن نے پیورٹو ریکن دہشتگرد گروپ کے 16 ارکان کی سزائیں معاف کی تھیں، جو ہسپانوی مخفف استعمال کرتا ہے جس کا مطلب ’’ آرمڈ فورسز آف نیشنل لبریشن (ایف اے ایل این)‘‘ ہے۔ یہ خفیہ پیورٹو ریکن گروہ کیریبین جزیرے پیورٹوریکو کی مکمل آزادی چاہتا تھا جو امریکی علاقے سے ملا ہوا ہے۔ 16 مجرموں کو یہ معافی اس شرط پر دی گئی کہ وہ ہر قسم کے تشدد کا نظریہ اور راستہ چھوڑ دیں گے۔

کلنٹن کے اس فیصلے پر جسے’’ معافی گیٹ‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے اس کی انتظامیہ کے اٹارنی جنرل آفس، ایف بی آئی ، پولیس،دہشتگرد تنظیم کے شکار افراد اور امریکی کانگریس وغیرہ نے سخت تنقید کی۔فالن تنظیم فرانسز ٹیورن بم حملے کی ذمہ دار تھی جس میں 4 جانیں گئیں، فرانسز ٹیورن ایک تاریخی عجائب گھر اور ریستوران ہے جو نیو یارک سٹی میں واقع ہے، فالن نے 1974ء سے 1983ء کے درمیان 120 سے زائد بم حملے کئے اور ان میں سے زیادہ تر نیویارک اور شکاگو میں کئے گئے۔ ان لوگوں پر لوٹ مار، بم سازی، بغاوت سمیت آتشیں اسلحہ اور دھماکا خیز مواد کے قوانین کی خلاف ورزی کے الزامات تھے۔16 مجرموں کو جن پر سازش اور بغاوت کے الزامات تھے، 35 سے 105 سال تک قید کی سزائیں دی گئی تھیں۔

کلنٹن کی اس حرکت سے طوفان کھڑا ہوگیا حتیٰ کہ اس وقت کی خاتون اول ہلیری جو اس وقت نیویارک میں سینٹ کا الیکشن لڑ رہی تھیں خود کو اپنے شوہر سے دور کرلیا۔ امریکی کانگریس نے صدر کلنٹن کے اس اقدام کی سینٹ میں 2کے مقابلے میں 95 اور ایوان نمائندگان میں 41 کے مقابلے میں 311 ووٹوں سے مذمت کی۔ امریکی ایوان کی حکومتی اصلاحات کمیٹی نے معاملے کی تحقیقات شروع کر ادی مگر محکمہ انصاف نے ایف بی آئی حکام کو تحقیقات سے روک دیا۔ صدر کلنٹن نے فالن دہشتگرد گروپ کے ارکان کو معافی دینے کے بارے میں اپنے فیصلے سے متعلق کچھ دستاویزات اپنے ’’ انتظامی اختیارات‘‘ استعمال کرتے ہوئے کانگریس کو دینے سے انکار کردیا۔ان فالن ارکان کو جن میں سے بعض نے یہ معافی قبول کرنے سے انکار کردیا، اس فیصلے کے بعد رہا کردیا گیا تاکہ وہ شکاگو اور پیورٹو ریکو میں اپنے گھروں کو جاسکیں۔

امریکی آئین کی طرف سے تمام صدور کو یہ ’’ معافی کا انتظامی اختیار‘‘ دیا گیا ہے کہ کسی کی بھی سزا کو اپنی مرضی سے معاف کرسکتے ہیں۔ اگرچہ اکثر صدور نے اپنی پوری مدت کے دوران یہ اختیار استعمال کیا تاہم کلنٹن نے140 مجرموں کو معافی دینے کیلئے 20 جنوری 2001ء کا دن چنا جو اس کی صدارت کی مدت کا آخری دن تھا۔ کلنٹن نے اپنے پیشرو جارج بش سینئر کے مقابلے میں جنہوں نے اپنے دور اقتدار میں صرف 75 افراد کو معافی دی، 450 مجرموں کی سزائیں معاف کیں۔ رونلڈریگن اور جمی کارٹر نے اپنے دور میں بالترتیب 406 اور 566 افراد کو معافی دی۔ (حوالہ جات کیلئے ٹائم میگزین، نیو یارک ٹائمز، سی این این ، امریکی محکمہ انصاف کے پارڈن اٹارنی آفس، امریکی ایوان نمائندگان، حکومتی اصلاحات کمیٹی اور امریکی کانگریس کا ریکارڈ ملاحظہ کیا جاسکتا ہے)۔

2001ء میں صدر بل کلنٹن نے لنڈا ایوانز اور سوسان روزنبرگ کی سزائیں معاف کیں جن کا تعلق شدت پسند زیر زمین گروپ سے تھا۔ دونوں خواتین دہشتگردوں کو ہتھیار اور دھماکا خیز مواد رکھنے کے الزامات پرسزائیں دی گئی تھیں۔ لنڈا ایوانز نے 40 سال اور سوسان روزبزگ نے 58 سال کی سزا میں سے 16،16 سال جیل کی قید کاٹی۔لنڈا نے آتشیں اسلحہ کی خریداری کیلئے جھوٹی شناخت دی اور 1981ء میں بینک ڈکیتی کیلئے ایک مفرور کی مدد کی، اس واقعے میں 2 پولیس افسر اور ایک گارڈ ہلاک ہوئے تھے۔ اسے 1987ء میں 40 سال قید کی سزا دی گئی تھی۔ دوسرے کیس میں لنڈا کو 1990ء میں 5 سال قید کی سزا دی گئی تھی جس میں سازش اور 8 بم حملوں میں تباہی کے الزامات تھے جن میں 1983ء کو امریکی سینٹ کی عمارت پرہونے والا حملہ بھی شامل تھا۔ دریں اثناء سوسان روزبنرگ کو 1984ء میں ایک ساتھی کے ہمراہ گرفتار کیا گیا جب وہ 740 پاؤنڈ دھماکا خیز مواد اور ہتھیار نیو جرسی میں اپنی کار سے ایک لاکر میں منتقل کررہی تھی۔ اسے ہتھیار اور دھماکا خیز مواد رکھنے پر 58 سال قید کی سزا دی گئی اس نے 16 سال جیل میں گزارے۔ کلنٹن نے پیٹریکا کیمبل کو بھی معافی دی جسے 1974ء میں ایک دہشتگرد گروپ نے اغوا کرلیا تھا جس کا نام ’’سمباٹیونیز لیریشن آرمی‘‘ تھا اسے موت کی دھمکی دی گئی جس پر اس نے گروپ کا ساتھ دیا، وہ پروپیگنڈہ اعلانات کرتی اور غیر قانونی سرگرمیوں میں حصہ لیتی رہی۔ ہارسٹ اغوا کے 19 ماہ بعد برآمد ہوئی ۔ اس دوران وہ سنگین جرائم میں مطلوب رہی اور بینک ڈکیتی کی مجرم قرار پائی ، اس کی سزا صدر جمی کارٹر نے معاف کی اور اسے رہائی کلنٹن کے ہاتھوں ملی۔بھارت نے ڈیوڈ ہیڈلی کو اس وقت معافی دی جب اس نے 26 نومبر 2008ء کے ممبئی دہشتگردی کیس میں وعدہ معاف گواہ بننا قبول کیا۔11 دسمبر 2015ء کی ’’ زی ٹی وی‘‘ کی رپورٹ کے مطابق ممبئی کی ایک عدالت نے ڈیوڈ ہیڈلی (دائود گیلانی) کو اس وقت معافی دی جب اس نے 26/11 کیس میں وعدہ معاف گواہ بننے کی پیشکش کی۔ بھارتی عوام ہیڈلی کی کہانی کو غور سے دیکھتے اور اسے اسامہ بن لادن کے مساوی قراردیتے رہے۔ 8فروری 2016ء کو ’’ہندوستان ٹائمز‘‘ کے ایڈیشن میں بتایا گیا ’’ ایک بھارتی عدالت نے پاکستانی امریکی لشکر طیبہ کے آلہ کار ڈیوڈ کولمین ہیڈلی کو اس شرط پر معافی دی کہ وہ 2008ء کے ممبئی حملوں کی سازش کا ’’ہر سچ‘‘ بتا دے گا۔ ایسا ان توقعات پر کیا گیا کہ امریکا سے وڈیو لنک پر ہیڈلی کے بیان حلفی سے ممبئی حملوں میں لشکر طبیہ کے رہنمائوں اور ایک پاکستانی ایجنسی کے اس حملہ کی منصوبہ بندی اوراس پرعملدرآمد میں کردارکے بارے میں نئے حقائق سامنے آئیں گے، اس حملے میں 166 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

2013ء میں ہیڈلی کو 2008ء کے ہلاکت خیز ممبئی حملوں کی منصوبہ بندی میں دہشتگردوں کی مدد میں کردار پر 35 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ اس وقت ’’ ٹیلی گراف‘‘ نے لکھا تھا ’’52سالہ ڈیوڈ کولمین ہیڈلی لشکر طیبہ سے ممبئی میں جاسوسی کا مشن لے کر آنے کا مجرم ثابت ہوا ، یہ تنظیم ان حملوں کی پشت پر تھی۔اسے شگاگو کی ایک جیل میں 12جرائم میں سزا دی گئی مگر اس نے پراسیکیوٹرز ایک ڈیل کر لی تھی کہ اسے سزائے موت نہیں دی جائے گی اور بھارت میں بیدخل بھی نہیں کیا جائے گا‘‘ اس سزا کے نفاذ کے بعد بھی بھارتی حکومت نے اعلان کیا کہ وہ ہیڈلی کی بے دخلی کا مطالبہ کرتی رہے گی۔ موقر برطانوی اخبار مزید لکھتا ہے’’ شگاگو سے پاکستانی امریکن ہیڈلی نے 2006ء اور 2008ء کے درمیان 5بار بھارت کا دورہ کیا اور تاج محل ہوٹل،اوبرائے ہوٹل اور تریمان ہائوس جیوش سنٹر کے نقشے بنائے، وڈیو فوٹیج حاصل کی یہی حملے کے مقامات تھے۔
سری لنکا میں بھی دہشتگردوں کو معافی دینے کا رجحان پایا گیا جن پرماضی میں تامل ٹائیگرز کے طور پر حملوں کے الزامات تھے اور انہوں نے مئی 2009ء میں ہتھیار ڈالے۔ جنوری 2016ء میں سری لنکن صدر میتھری پالاسری سینا نے تامل ٹائیگرز کے ایک باغی کو معافی بھی دی جس پر ایک سال قبل ایک قتل کی منصوبہ بندی کا الزام ثابت ہوا تھا۔’’ٹائمز آف انڈیا‘‘ نے رپورٹ دی کہ سری لنکن صدر نے ایک جنگجو سواراجہ جینون کو معافی دی جسے جنوری 2015ء میں 10سال قید کی سزا دی گئی تھی سری لنکن صدر نے جینون کو سٹیج پر بلایا اس سے مصافحہ کیا اور اس کے سر پر بوسہ دیا تاہم صدر سری سینا کے مخالفین نے ایک مجرم دہشتگرد کو رہا کرنے کے اقدام کو قومی سلامتی کمزور کرنے کے مترادف قرار دیا۔ یادرہے کہ تامل ٹائیگرز جنہوں نے سابق بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی کو 1991ء میں اور سابق سری لنکن صدر رانا سنگھے پریماداسا کو 1993ء میں قتل کیا۔ 25سال سے زائد عرصہ علیحدگی کے لئے لڑے اور انہیں 2009ء میں شکست ہوئی۔ مئی 2009 ء میں ’’گارجین‘‘ نے رپورٹ دی کہ سری لنکا کی خانہ جنگی کے دوران 3تامل باغیوں کو اس وقت قتل کر دیا گیا جب وہ سرنڈر کرنا چاہتے تھے مگر ملک کے وزیر دفاع اور وزیراعظم مہندررا جاپاکسے کے سینئر ایڈوائزر کے احکامات پر انہیں گولی مار دی گئی جبکہ یہ لوگ اقوام متحدہ، ناروے، برطانیہ اور امریکا کی حکومتوں کے رابطے میں تھے۔ اس واقعے کو ’’وائٹ فلیگ واقعہ‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ تاہم ’’گارجین‘‘کے دعوئوں کو سری لنکا کی حکومت نے مسترد کر دیا۔ دوسری جانب اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمشنر نے تحقیقات کے دوران دعویٰ کیا کہ ملک کی سول اور فوجی قیادت کو تا مل لیڈرز کے سرنڈر کے بارے میں تمام معلومات تھیں۔ جنرل سارتھ فونسیکا نے، جنہوں نے ٹائیگرز کے خلاف آخری کارروائی میں براہ راست مدد کی اور بعد میں حکومت سے الگ ہو کر 2009ء ’’صدر کا انتخاب لڑا‘‘ کہا تھا کہ وہ تاملوں کے ہتھیار ڈالنے کے بارے میں آگاہ نہیں تھے۔ جنرل فونسیکا نے، جنہیں قانونی کارروائی کی دھمکیاں دی گئی تھیں کے حوالے سے بتایا گیا کہ ’’ انہوں نے(فوجی جوان) نے کوئی جرم نہیں کیا، 17اور 19مئی 2009ء کو سرنڈر کرنے کا کوئی واقعہ ہی نہیں ہوا۔جنگ کے آخری مراحل میں ان کی حقوق کی کسی بھی خلاف ورزی کی میں ذاتی طور پر ملکی ذمہ داری قبول کرتا ہوں۔‘‘ (حوالہ: دی انڈیپینڈنٹ، دی آسٹریلین اور ٹیلی گراف وغیرہ) ۔ واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمشنر کی سری لنکا پر تحقیق میں دستاویزی طور پر مختلف لیڈرز کے بارے میں بتایا گیا جنہوں نے سفید جھنڈے لے کر سرنڈر کیا اور فوری سماعت کر کے انہیں سزائے موت دے دی گئی۔ ماورائے عدالت ان پھانسیاں پانے والوں میں خاص طورپر تامل ٹائیگرز کے سیاسی ونگ کے سربراہ ندلیان ان کی بیوی ویشا، عسکری تنظیم کے امن سیکرٹریٹ کے سربراہ پولی دیون اور تامل ٹائیگرز کے پولیس چیف رمیش بھی شامل تھے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button