20 جمادی الثانی : یوم ولادت حضرت فاطمہ الزہرا(س)
آپ کی پیدائش بعثت کے پانچویں سال میں ۲۰/ جمادی الثانی کو مکہ مکرمہ میںہوئی۔ آپ کے والد ماجد حضرت محمد مصطفےٰ صلی الله علیہ وآلہ وسلم اور والدہ جناب خدیجة الکبریٰ ہیں ۔ جناب خدیجہ وہ خاتون ہیں پیغمبر اسلام پر سب سے پہلے ایمان لائیںاور پوری زندگی آپ کا دفاع کرتی رہیں۔
حضرت زہرا سلام الله علیہا کو نور کیوں کہا گیا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ مرحوم شیخ صدوق علیہ الرحمہ کی امالی میں یہ روایت نقل ہوئی ہے کہ پیغمبر اسلام نے فرمایا: کہ جب مجھے معراج ہوئی تو جبرئیل امین میرا ہاتھ پکڑ کر جنت میں لے گئے اورمجھے جنت کی ایک کچھور پیش کی ، میں نے اسے کھایا اور وہ میرے سلب میں پہونچ کر نطفہ میں تبدیل ہوگئی ۔ اسی سے فاطمہ زہرا وجود میں آئیں۔ لہٰذا فاطمہ جنتی نور ہیں ، میں جب جنت کی خوشبو کا مشتاق ہوتا ہوں تو فاطمہ کو سونگھ لیتا ہوں۔
ہم زیارت جامعہ کبیرہ میں پڑھتے ہیں کہ الله نے آپ کے نور کو خلق کیا اور اسے اپنے عرش کی زینت بنایا ۔ حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت میں پڑھتے ہیں کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ کا نور بلند مرتبہ مردوں کی سلبوں اور پاکیزہ عورتوں کے رحموں میں رہا۔
ہاں! سب سے پہلے یہ نور حضرت محمد مصطفےٰ صلی الله علیہ وآلہ وسلم اور حضرت علی علیہ السلام کے وجود میں رہا اور بعد میں حضرت زہرا سلام الله علیہا کی طرف منتقل ہوگیا۔
جب حضرت زہرا سلام الله علیہا کا نور اس دنیا میں آیا تو پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم کا دل شاد ہوگیا ۔ پیغمبر اسلام (ص) جانتے تھے کہ میری نسل فقط فاطمہ کے ذریعہ ہی آگے بڑھے گی اس لئے وہ ان سے بیحد محبت کرتے تھے اور احتراماً آپ کو ”ام ابیہا“ کہہ کر خطاب فرماتے تھے۔
پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ” فاطمہ میرا ٹکڑا ہے جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے اذیت پہونچائی ۔ “ پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم کا روز کامعمول تھا ک جب نماز صبح کے لئے تشریف لے جاتے تھے تو حضرت زہرا سلام الله علیہا کے دروازے کی چوکھٹ کو پکڑ کر فرماتے تھے: ”السلام علیک یا اہل بیت النبوة، انما یرید الله لیذہب عنکم الرجس اہل البیت ویطہرکم تطہیراً“
آپ کا کوثر قرار پانا:
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی ولادت با سعادت کی مناسبت سے
في القرآنِ الکريمِ:
«إنّا أعطَيناكَ الكَوثَرَ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَر»؛(سوره کوثر آيه 1 – 2.)
قرآن کریم میں ارشاد ہے:
بتحقیق ہم نے تمہیں کوثر عطا کیا لہذا اپنے پروردگار کے لیے نماز ادا کرو اور قربانی دو۔
———————————
قالَ رسولُ الله صلي الله عليه و آله :
فاطِمَةُ أَعَزُّ النّاسِ عَلَيَّ.
پيغمبر اعظم صلى الله عليه وآله نے فرمایا:
فاطمہ میرے نزدیک سب سے زیادہ عزیز ہے۔
بشارة المصطفى، ص 70.
——————————–
قالَ رسولُ الله صلي الله عليه و آله :
مَن أَحَبَّ فاطِمَةَ ابنَتي فَهُوَ فِي الجَنَّةِ مَعي.
پيغمبر اعظم صلى الله عليه وآله نے فرمایا:
جو شخص میری بیٹی فاطمہ کو دوست رکھے جنت میں میرا ہمنشین ہو گا۔
بحار الأنوار، ج 27، ص 116.
———————————
منتخب اقوال
قالَت فاطمةُ الزّهراء عليها السلام :
مَن أصعَدَ إلَى اللَّهِ خالِصَ عِبادَتِهِ أهبَطَ اللَّهُ إلَيهِ أفضَلَ مَصلَحَتِهِ.
حضرت فاطمه عليها السلام نے فرمایا:
جو شخص خدا وند عالم کی خلوص کے ساتھ عبادت کرے گا خدا وند عالم اپنی بہترین مصلحت اس کو عنایت کرے گا۔
بحار الأنوار، ج 70، ص 249.
———————————
قالَت فاطمةُ الزّهراء عليها السلام :
فَرَضَ اللَّهُ الصَّلاةَ تَنزِيهاً مِنَ الكِبرِ.
حضرت فاطمه عليها السلام نے فرمایا:
خدا نے نماز کو تکبر سے دور رہنے کے لیے واجب کیا ہے۔
بحار الأنوار، ج 82، ص 209.
———————————
قالَت فاطمةُ الزّهراء عليها السلام :
نَحنُ وَسيلَتُهُ في خَلقِهِ و نَحنُ خاصَّتُهُ و مَحَلُّ قُدسِهِ.
حضرت فاطمه عليها السلام نے فرمایا:
ہم اہل بیت مخلوق کے اندراللہ کا وسیلہ ہیں، اور اس کے منتخب بندے اور اس کے قدس کی منزلگاہ ہیں۔
شرح نهج البلاغه، ابن ابى الحديد، ج 16، ص 211.
————————————————————-
قالَت فاطمةُ الزّهراء عليها السلام :
فَجَعَلَ اللَّهُ… إطاعَتَنا نِظاماً لِلمِلَّةِ و إمامَتَنا أماناً لِلفُرقَةِ.
حضرت فاطمه عليها السلام نے فرمایا:
اللہ نے ہماری اطاعت کو قوم و ملت کے لیے نظام اور ہماری امامت کو اختلاف سے بچنے کا سبب قرار دیا۔
الإحتجاج، ج 1، ص 134.
—————————–
قالَت فاطمةُ الزّهراء عليها السلام :
خِيارِكُم أليَنُكُم مَناكِبَهُ و أكرَمُهُم لِنِسائِهِم.
حضرت فاطمه عليها السلام نے فرمایا:
تم میں بہترین لوگ وہ ہیں جو دوسروں کے ساتھ نرمی سے پیش آتے ہیں اور اپنی عورتوں کا احترام کرتے ہیں۔
دلائل الإمامه، ص 76.
————————–
قالَت فاطمةُ الزّهراء عليها السلام :
خَيرٌ لِلنِّساءِ أن لايَرَينَ الرِّجالَ و لايَراهُنَّ الرِّجالُ.
حضرت فاطمه عليها السلام نے فرمایا:
عورتوں کے لیے سب سے بہترین چیز یہ ہے کہ نہ مرد انہیں دیکھیں اور نہ وہ مردوں کو دیکھیں۔
بحار الأنوار، ج 104، ص 36.
——————————–